Skip to content
وقف ترمیمی بل 2024 سے وقف کی جائیداد برباد ہوجائے گی: حضرت امیر شریعت
خانقاہ رحمانی میں دو روزہ تحفظ اوقاف ورکشاپ میں پورے بہار سے قضاۃ کی شرکت، حضرت امیر شریعت کا علمی پریزینٹیشن
مونگیر ،17اکٹوبر( پریس نوٹ)
امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر نے خانقاہ رحمانی میں منعقدہ دورہ روزہ تحفظ اوقاف ورکشاپ میں شرکت کرنے والے قاضی حضرات کے سامنے مجوزہ وقف بل اور موجودہ وقف ایکٹ کا موازنہ کرتے ہوئے وقف ترمیمی بل 2024 کے مضر اثرات کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا نیز مجوزہ ترمیمات کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ یہ بل وقف کو کنٹرول،وقف کی صلاحتیوں کو محدود اور وقف سے لوگوں کو محروم کرنے والا اور اسلامی تعریفات کو بدل دینے والا ہے۔حضرت امیر شریعت نے قاضیوں کو خصوصی ٹریننگ دی کہ وہ اپنے حلقہ میں جا کر ضلع مجسٹریٹ کو میمورینڈم پیش کریں اور ان سے علمی گفگتو کر سکیں۔
حضرت نے مثال سے اس ایشو کو سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ اس بل کے مطابق وقف وہ شخص نہیں کر سکتا جو کم از کمپانچ سال کا پریکٹیسینگ مسلمان نہ رہا ہو اور حیرت تو یہ ہے کہ اس ترمیمی بل میں اس کی وضاحت ہی موجود نہیں ہے کہ پریکٹیسنگ مسلمان کی تعریف کیا ہے ؟سوال یہ ہے کہ کیا یہ شق آئین کے خلاف نہیں ہے؟ آرٹیکل 300A کے مطابق ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ اپنی جائداد کو جہاں چاہے خرچ کرے۔
حضرت امیر شریعت نے لاء آف لمیٹیشن کے وقف کی زمینوں پر نفاذ کے اثر کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ وقف ایکٹ 1995 میں یہ وضاحت موجود ہے کہ وقف جائداد پر لاء آف لمیٹیشن نافذ نہیں ہوگا۔ وقف ایکٹ 1995 میں موجود یہ وضاحت اوقاف پر ناجائز قبضے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔لیکن اس بل کو ایکٹ بنتے ہی لاء آف لمیٹیشن کا اوقاف کی اراضی پر بھی اطلاق ہونا شروع ہو جائے گا اور ناجائز قبضے کی راہ میں حائل ایک بڑی مضبوط رکاوٹ دور ہو جائے گی۔
آپ نے اپنے محاضرہ میں یہ بھی فرمایا کہ میڈیا وقف ترمیمی بل کا سہارا لیکر وقف کے تعلق سے کچھ ایسا منظر نامہ پیش کرتی ہے جو لوگوں کو حقیقت حال سے دور کرنے اور نفرت میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔ مثلاً یہ کہنا کہ سروے کمشنر بحال کرکے عام ٹیکس دہندگان کے پیسے سے ایک قوم کے مذہبی کام کو انجام دینا غیر آئینی ہے۔ یہ حقیقت کے خلاف اور لوگوں کو غلط فہمی میں مبتلا کرنے والا بیانیہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مختلف صوبوں میں ہندو ٹیمپل انڈومنٹ ایکٹ موجود ہے۔ ان کے تحفظ اور دیکھ ریکھ کے لئے بھی مختلف سرکاری عہدیداران مقرر کئے جاتے ہیں۔ مثلاً کمشنر، نائب کمشنر، معاون کمشنر، اور مختلف ذیلی افسران جو انڈومنٹ کے مقاصد و اہداف کے لئے کام کرتے ہیں، انہیں بھی سرکاری خزانے سے ہی تنخواہ دی جاتی ہے یا پروپیگنڈہ کرنے والے کے الفاظ میں ٹیکس دہندگان کے پیسے سے ہی پالا جاتا ہے۔ اگر وقف کے معاملے میں یہ غیر آئینی ہے تو پھر وہ غیر آئینی کیوں نہیں؟ در اصل اس طرح کی باتیں آئین کی روح کے منافی اور خالص مذہبی بنیاد پر تفریق کی کوشش ہیں اور جو آئین کے آرٹیکل 15 اور 14 کے خلاف ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دو الگ الگ مذہبی کمیونٹیز قانون سازوں کی نظر میں برابر نہیں ہیں۔
حضرت امیر شریعت نے فرمایا کہ 1995 کے وقف ایکٹ میں سی ای او کے مسلمان ہونے کی شرط مذکور ہے ، لیکن اس ترمیم کے بعد یہ شرط حذف ہو جائے گی ، حالانکہ دوسرے انڈومنٹ ایکٹ میں اس بات کا لحاظ کیا گیا ہے کہ اسی قوم کے آفیسران ان کی دیکھ ریکھ کریں گے، اسی طرح وقف ایکٹ میں بھی کسی حد تک اس کا لحاظ کیا گیا ہے۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اب ترمیم کے ذریعے اس شرط ہی کو کالعدم قرار دیا جا رہا ہے۔جبکہ دوسرے مذہبی اور خیراتی انڈومنٹ میں بدستور یہ شرط برقرار رہے گی۔ یہ ترمیم دفعہ 26بی کے خلاف ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کے مذہبی معاملہ کے انتظام انصرام کو غیرمسلموں کے حوالے کیا جا سکتا ہے اور اس سے یہ تاثر جاتا ہے کہ مسلمان بحیثیت شہری مساوی حقوق سے محروم کئے جا رہے ہیں۔
ہندو انڈومنٹ ایکٹ میں اس حق کا اس قدر لحاظ کیا گیا ہے کہ ایکٹ میں صاف صاف مذکور ہے کہ اگر ممبروں میں سے کوئی شخص اپنا مذہب تبدیل کرلے یعنی سکھ یا بدھسٹ، عیسائی یا مسلمان یعنی غیر ہندو بن جائے تو اس کی ممبر شپ خود بخود ختم ہو جائے گی۔
اخیر میں حضرت امیر شریعت نے ورکشاپ میں تشریف لائے ہوئے قضاۃ حضرات کو وقف کے تحفظ کے لئے گھر گھر تک مختلف علاقوں میں عوامی بیداری مہم کو پہونچانے اور مزید موثر و مستحکم بنانے کی قیادت و خدمت کی ذمہ داری دی۔ اور تمام قضاۃ حضرات نے بخوشی اسے قبول کیا اور اس مہم کو گھر گھر پہنچانے کا عزم کیا۔
ورکشاپ کے درمیان گاہے بگاہے چائے وغیرہ کا پورا نظم کیا گیا اور خود کو تیار کرنے اور آپس میں تبادلہ خیال کے لیے وقفہ دیا گیا اور موقعہ بموقعہ سوال و جواب کا خاص اہتمام کیا گیا ساتھ ہی کثرت کے ساتھ آن لائن ملٹیپل چوائس سوالات دئے گئے جس سے شرکا خوب لطف اندوز ہوتے رہے اور ہر سوال کا پورے اہتمام کے ساتھ جواب دیتے رہے پھر اس کے بعد حضرت امیر شریعت نے ہر سوال کے جواب کی وضاحت کی۔
Like this:
Like Loading...