جموں کشمیر میں بی جے پی کی شکست اور مسلمانوں کی فتح
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
جموں کشمیر میں عمر عبداللہ کی حلف برداری کے ۴؍ دن بعد اور ایوان کے پہلے اجلاس سے ایک دن قبل عمر عبداللہ کے حلقۂ انتخاب کے اندر گگن گیر سونہ مرگ میں ملی ٹینٹوں نے مقامی اور غیر مقامی مزدوروں پر اندھا دھند فائرنگ کرکے 11افراد کو زخمی کردیا ۔ان میں سے 7؍ افراد اسپتال کے اندر مردہ قرار پائے گئے۔ مہلوکین میں ایک کشمیری ڈاکٹر بھی شامل ہے ۔ کشمیر میں کسی بڑے انفراسٹرکچر پراجیکٹ پر کام کرنے والے کارکنوں پر یہ پہلا بڑا حملہ ہےاورجس علاقے میں یہ ہوا وہاں تشدد کی وارداتیں بہت کم ہوئی ہیں ۔ زخمیوں میں چار کا تعلق جموں کشمیر اور ایک کا بہار سے ہے۔ یونین ٹریٹری میں پولیس اور فوج لیفٹننٹ گورنر کے تحت ہوتی ہے اس لیے عمر عبداللہ کو ذمہ دار ٹھہرایا نہیں جاسکتا لیکن بعید نہیں کہ مرکزی حکومت اس کے بہانے ریاستی حکومت برخواست کردے کیونکہ مودی ہے تو کچھ بھی ممکن ہے۔اس سے قبل عمر عبداللہ نے بی جے پی جموں کشمیر کے صدر اور وزارت اعلیٰ کے امیدوار کو ہرانے والے سریندر چودھری کو نائب وزیر اعلیٰ بناکر ایک تیر سے دو شکار کرکے مودی وشاہ کے زخموں پر نمک پاشی کی ۔
دس سال بعد ہونے والے انتخاب میں ریاست کی 90؍سیٹوں میں سے این سی ، کانگریس اتحاد نے 48؍سیٹیں حاصل کرکے حکومت قائم کرنے کی راہ ہموار کرلی۔ نیشنل کانفرنس نے خود جملہ 42؍ نشستیں حاصل کیں۔ان میں وادیٔ کشمیر سے 35؍ جبکہ جموں کی 7؍ سیٹیں شامل ہیں۔ این سی کے نشان پر مسلمانوں کے علاوہ دو ہندو امیدوار بھی کامیاب ہوئے۔ اس کے برعکس بی جے پی نہ تو وادی میں کوئی سیٹ جیت سکی اور نہ اس کے ٹکٹ پر کوئی مسلمان امیدوار کامیاب ہوسکا ۔ جموں و کشمیر کےکامیاب ہونے والے کل ۹؍ آزاد امیدواروں میں سے 4 ؍ ایسے بھی ہیں جو ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے نیشنل کانفرنس چھوڑ گئے تھے ۔ انتخابات میں کامیابی کے بعدان کی دوبارہ گھر واپسی ہوچکی ہے ۔ اس طرح اب نیشنل کانفرنس کو خود اپنے بل بوتے پر اکثریت میں آچکی ہے ۔نیشنل کانفرنس کی اس شاندار کامیابی میں کانگریس کے لیے عبرت کا سامان ہے۔
راجوری کے تھانامنڈی اسمبلی حلقہ سے سابق جج مظفر اقبال خان نے بی جے پی امیدوار محمد اقبال ملک کو 6179 ووٹوں سے شکست دی جبکہ انڈیا اتحاد کے امیدوار محمد شبیر خان (کانگریس) این سی کے ساتھ اتحاد کے باوجود صرف 7508 ووٹ حاصل کرکے چوتھے نمبر پر رہے۔ اس کا مطلب یہ ہے این سی کا سارا ووٹ ظفر اقبال خان کی جھولی میں چلا گیا۔ اندروال سیٹ پر آزاد امیدوار پیارے لال شرما نے آزاد امیدوار غلام محمد سروری کو 643 ووٹوں کے معمولی فرق سے شکست دی جبکہ این سی کے ساتھ اتحاد کے باوجود انڈیا اتحاد کے کانگریسی امیدوار محمد ظفر اللہ تیسرے نمبر پر رہے۔ اپنی جیت درج کرنے کے بعد پیارے لال شرما نے اعلان کیا کہ وہ نیشنل کانفرنس سے وابستہ ہیں اور رہیں گے۔ نتائج کے اگلے دن پیارے لال شرما نیشنل کانفرنس کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کے لیے کشتواڑ سے سری نگر کے لیے روانہ ہوگئے۔اس لیے کہ اب ان کاوزیر بننا طے ہے۔ سورنکوٹ سےچودھری محمد اکرم نے اتحاد کےکانگریسی امیدوار محمد شاہنواز چودھری کو 8,851 ووٹوں کے فرق سے شکست دےدی۔
جموں و کشمیر کے بارہمولہ ضلع کی گریز اسمبلی سیٹ میں اپنی جیت درج کرانے کی خاطر بی جے پی نے کمال ہوشیاری دکھاتے ہوئے 1996 میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہونے والے فقیر محمد خان کو میدان میں اتاردیا۔ 2014 میں صرف 100ووٹ سے کامیاب ہونے والے نیشنل کانفرنس کے امیدوار نذیراحمد خان سے ان کا مقابلہ تھا ۔ بی جے پی کو امید تھی 2002 اور 2008 سے نذیر احمد جیت تو رہے ہیں مگر ان کی مقبولیت میں بتدریج کمی واقع ہورہی ہے اس لیے اب کی بار فقیر محمد خان کی قسمت پھر سے کھلے گی اور وادی میں کمل کھلے گا مگروہ زعفرانی امیدوار بھی 1100 ووٹوں سے ہار گیا۔ یہاں ڈیموکریٹک پروگریسو آزاد پارٹی کے نثار احمد لون 1966 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔جموں و کشمیر میں کانگریس صرف 6 سیٹوں پر کامیابی حاصل کرسکی کیونکہ سارے مسلمان این سی کے ساتھ ہوگئے تھے اور ہندو اس کے خلاف بی جے پی کے پرچم تلے متحد ہوگئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسے وادی سے تو ۴؍نشستیں مل گئیں مگر جموں میں صرف دو نشستوں پر اکتفاء کرنا پڑا ۔ کانگریس چونکہ این سی کے ساتھ تھی اس لیے ہندووں نے اس سے پوری طرح منہ موڑ لیاتھا اور پچھلی بار کے مقابلے وہ نصف پر پہنچ گئی۔
آئین دفع 370کو برخواست کر کے ملک بھر میں اپنی پیٹھ تھپتھپانے والی بی جے پی کا جموں کشمیر میں 29 سیٹوں پر سمٹ جانا نہایت شرمناک ہے۔ دیگر سیاسی جماعتوں میں پی ڈی پی کو تین، پیپلز کانفرنس، عام آدمی پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی کو ایک ایک سیٹ پر جیت ملی۔ جموں کے ہندووں کی شکایات کو سن کر ایسا لگتا ہے جیسے ہندوستان کا مسلمان بول رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آبادی زیادہ ہونے کے باوجود ان کے حصے میں کم نشستیں ہیں۔ وہ لوگ زیادہ ٹیکس دیتے ہیں مگر سرکاری خزانے کا بڑا حصہ وادی پر خرچ ہوجاتا ہے۔ سڑکیں، پُل اور صنعتی زونس جموں کے بجائے وادی میں بنائے جاتے ہیں۔ جی ٹوینٹی کا اجلاس ہو یا کورونا کے دوران آکسیجن سیلنڈر کی فراہمی ان سب میں کشمیریوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ بی جے پی کو ووٹ دینا چونکہ ان کی مجبوری ہے اس کا فائدہ اٹھا کر انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ ہندوستان کا مسلمان کانگریس سےایسی ہی شکایت کرتا ہے۔ یہ جمہوری نظام کا عیب ہے کہ اس میں اکثریت کی نازبرداری کی جاتی ہے چاہے وہ مسلمان کیوں نہ ہو ؟
بی جے پی خود اپنی پارٹی کے لوگوں سے کیسی بدسلوکی کرتی ہے اس کا ایک مظاہرہ نوشیرہ میں ہوا جہاں بی جے پی کا ریاستی صدر اور وزارت اعلیٰ کا دعویدار رویندر رائنا خود شکست فاش سے دوچار ہوگیا ۔ ان کو پتہ تھا کہ وہاں دال نہیں گلے گی اس لیے انہوں نے پوری ریاست میں انتخابی مہم چلانے کا بہانہ بناکر محفوظ نشست کا مطالبہ کیا۔پارٹی صدر کی اس التجا پر ہمدردانہ توجہ دینے تو اعلیٰ کمان نے مہم کی ذمہ داری کسی شرما جی کو سونپ کر رائنا کو اسی حلقۂ انتخاب پر لڑنے کے لیے مجبور کیا ۔ اس زیادتی کا نتیجہ یہ نکلا کو انہیں این سی کے سریندر چودھری نے تقریباً ۷؍ ہزار ووٹ کے فرق سے ہرا دیا۔ جموں کے لوگوں میں اب کشمیر سے الگ ہونے کی شدید خواہش پیدا ہوگئی ہے۔ وہ کشمیریوں سے الگ ہونا چاہتے ہیں۔ ان کے سامنے سوال یہ ہے کہ اگر لداخ کو الگ کیا جاسکتا ہے تو جموں کو کیوں نہیں ۔ ایسا کرنے سے کم ازکم جموں کو ہندو وزیر اعلیٰ مل جائے گا لیکن کشمیر میں کمل کھلانے کا خواب ہمیشہ کے لیے خاک میں مل جائے گا۔ ایسے میں اگر کانگریس کے لیے موقع ہے کہ وہ این سی سے ناطہ توڑ کر ایک ہندو کو پارٹی کا سربراہ بنا ئے اور جموں کو الگ ریاست بنانے کی تحریک چلادے ۔ اس سے جموں میں بھی بی جے پی کا سُپڑا صاف ہوجائے گا ۔
کشمیر کے اندر بی جے پی نے جملہ 62 مقامات پر انتخاب لڑا یعنی 28 نشستیں اپنے غیر اعلانیہ حامیوں کے لیے چھوڑ دیں ۔ ان 62 میں سے 25 مسلم امیدوار تھے ۔ان میں سے 19وادی میں اور 6جموں میں تھے مگر سب کے سب ہار گئے حالانکہ مسلمانوں کی ناز برداری کے لیے امیت شاہ نے وہاں جاکر نہ صرف مسلمانوں والی ٹوپی پہنی بلکہ میلاد النبی اور محرم کے موقع پر مفت گیس سلنڈر کا وعدہ تک کردیا مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور مسلمان رائے دہندگان کو ریوڑی بانٹ کر لبھانے کی کوشش ناکام ہوگئی ۔ بیشتر زعفرانی مسلمان پانچویں نمبر یا اس سے بھی نیچے رہے اور ایک تو بیچارہ تیرہویں نمبر پر چلا گیا ۔ مسلمانوں نے بی جے پی امیدواروں کے علاوہ اس کی حمایت کرنے والوں کو بھی نہیں بخشا۔ الطاف بخاری نے دو جگہ سے الیکشن لڑا ایک جگہ شکست کھا گئے اور دوسرے مقام پر ہارتے ہارتے بچے ۔ فی الحال بی جے پی کی مخالفت کرنے والی مگر ماضی میں اس کے ساتھ جانے والی پی ڈی پی جو پچھلے انتخاب کی سب سے بڑی پارٹی تھی اس بار تین پر پہنچا دی گئی ۔ التجا مفتی کو پہلے انتخاب میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
کشمیر کے اندر اگست 2019 میں آرٹیکل 370 ختم کرنے کے بعد بی جے پی نے صرف انتخابی ناکامی نہیں بلکہ اپنا دہائیوں پرانا بیانیہ ہار گئی ۔ نریندر مودی اور اُن کی پارٹی کے رہنماوں نے ریاست میں پہلی مرتبہ ہندو وزیر اعلیٰ مسلط کرکے اقتدارپر فائز ہونے کا جو خواب دیکھا تھا وہ ٹوٹ کر بکھر گیا۔ جموں کشمیر میں وزیر اعلیٰ بننے خواب دیکھنے والے بی جے پی کے سربراہ رویندر رینا کی شکست نے ان کے ہوش ٹھکانے لگا دئیے۔ نریندر مودی کا دعویٰ کہ جموں کشمیر میں ’باپ بیٹے‘ اور ’باپ بیٹی‘ کی سرکار نہیں بنے گی خاک میں مل گیا۔ وہ جس کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے اتحاد پر ’پاکستان کے ایجنڈے پر کام کرنے‘ کا الزام لگا رہے تھے وہ کامیاب ہوگیا یعنی بقول ان کے پاکستانی ایجنڈا فاتح رہا اور اس پر انہوں نے نیشنل کانفرنس کو جیت کی مبارکباد بھی دے ڈالی ۔ مودی نے کہا تھا کہ دفعہ 370 کے خاتمے سے لوگ خوش ہیں اور وہ اس بار ’خاندانی پارٹیوں کو شکست دے کر‘ اس فیصلے کی توثیق کریں گے۔ مودی نے انتخاب کو استصواب بنایا اور اس میں بری طرح ہار گئے۔