دھاراوی ممبئی میں صرف ایک مسجد کو غیر قانونی قرار دینا شر انگیزی ہے
ازقلم :شیخ سلیم
ویلفیئر پارٹی آف انڈیا
ممبئی میں 250 سے زیادہ وارڈز ہیں اور تقریباً ہر وارڈ میں تجاوزات کے ساتھ ہزاروں غیر قانونی تعمیرات موجود ہیں۔ کہیں دس منزلوں کی اجازت تھی، لیکن بلڈر نے پندرہ منزلیں بنا لیں؛ کہیں بیس منزلوں کی اجازت تھی، مگر پچیس منزلیں کھڑی کر دی گئیں۔ کہیں چار منزلہ پارکنگ میں بلڈر نے گھر بنا کر بیچ دیے، تو کہیں گارڈن کی جگہ کچھ اور تعمیر ہو گیا۔ اگر ممبئی میں تعمیرات کا جائزہ لیا جائے، تو پتہ چلے گا کہ سب کچھ میونسپل کارپوریشن کے پاس کیے ہوئے پلان کے مطابق نہیں ہے۔
کچی آبادیوں کا بھی یہی حال ہے؛ چودہ فٹ کی اونچائی کا گھر بنانے کی اجازت ہے، لیکن شاید ہی کوئی گھر چودہ فٹ کا ہو۔ کہیں دو منزلیں بن چکی ہیں، تو کہیں چار منزلیں۔ ظاہر ہے کہ یہ تعمیرات صرف رات کے اندھیرے میں نہیں ہوتیں اور یہ ممکن نہیں کہ کارپوریشن کو اس کا علم نہ ہو۔ پھر یہ تعمیرات کیسے ہو جاتی ہیں؟ ظاہر ہے، یہ سب کارپوریشن کو پہلے سے پتہ ہوتا ہے اور سب کا ساتھ، سب کا وکاس کے اصولوں پر یہ معاملات چلتے رہتے ہیں۔
اگر آپ کسی بھی بلڈنگ اینڈ فیکٹری ڈیپارٹمنٹ یا کسی وارڈ آفیسر سے پوچھیں کہ اُس وارڈ میں کتنی غیر قانونی تعمیرات ہیں اور کتنی تحریری شکایات موصول ہوئی ہیں، تو وہ سینکڑوں کیسز بتا سکتا ہے۔ کئی جگہوں پر تجاوزات کی وجہ سے سڑکیں تنگ ہو چکی ہیں اور پھیری والوں نے مستقل قبضہ کیا ہوا ہے۔
اگر میونسپل کارپوریشن اور ممبئی کے کلیکٹر سے پوچھا جائے کہ ان کے پاس کتنی غیر قانونی تعمیرات ہیں اور ہمیں ایک فہرست فراہم کی جائے، تو ایک طویل لسٹ سامنے آ جائے گی۔ کتنے لوگوں کو انتظامیہ نے نوٹس بھیجے ہیں، یہ بھی معلوم ہو جائے گا۔
جہاں تک دھاراوی ممبئی کی مسجد کا معاملہ ہے، ہمارا سوال یہ ہے کہ کارپوریشن کو پورے شہر میں صرف ایک مسجد کا حصہ غیر قانونی کیوں نظر آ رہا ہے؟ باقی کہیں بھی کوئی غیر قانونی تعمیرات نہیں ہیں، کیا؟
اس کی وجہ کیا ہے؟ اسمبلی انتخابات اگلے مہینے یا نومبر میں ہونا طے ہیں اور حکومت کو اپنی شکست نظر آ رہی ہے۔ جگہ جگہ فساد کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نارائن رانے اور اُن کے بیٹے مسلسل اشتعال انگیزی کر رہے ہیں اور ماحول خراب کر رہے ہیں۔ انڈیا اتحاد کے لوگوں اور ان کی قیادت کو اس کے خلاف کھل کر بولنے کی ضرورت ہے۔ مگر مہاراشٹرا میں انڈیا اتحاد کی تینوں جماعتوں کے لب سلے ہوئے ہیں۔ نہ ریاست کے لیڈر مسلمانوں کے حق میں کچھ بولتے ہیں، نہ ہی راہول گاندھی اس بارے میں کوئی بیان دیتے ہیں۔
امریکہ میں بھی اُن کی زبان سے ہم یہ سننے کو ترس گئے ہیں کہ دلتوں کی طرح مسلمانوں پر بھی سب سے زیادہ ظلم و زیادتی ہو رہی ہے۔ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ گھر بلڈوزر سے توڑے جا چکے ہیں اور ہزاروں بےگناہ قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔
ہمیں امید ہے کہ ممبئی میونسپل کارپوریشن اپنی ذمہ داریاں ادا کرے گی اور صفائی، بیماریوں کے علاج، اسکول، اسپتال اور سڑکوں کی بہتری پر توجہ دے گی، نہ کہ دھاراوی کی مسجد کے پیچھے پڑے گی۔ انڈیا اتحاد سے بھی میری گزارش ہے کہ آپ حضرات مسلمانوں سے ووٹ مانگنے نہ آئیں جب تک آپ حق بات کہنے اور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کو تیار نہ ہوں۔
