Skip to content
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کا فن تو کوئی امیت شاہ سے سیکھے ۔ وزیر داخلہ کی ایک ڈائیلاگ بازی نے پوری پارٹی کو مشکل میں ڈال دیا۔ اس رسوائی میں جو کمی رہ گئی تھی اسے بی جے پی ارکان پارلیمان نے ایوان پارلیمان کے اندر دھکا مکی کرکے پورا کردیا اور اس پر راہل گاندھی کے خلاف ایف آئی آر درج کرواکے چار چاند لگا دئیے گئے ۔ اس طرح حزب اختلاف کے ہاتھوں میں ان سینہ زور چور وں نے وہ ہنٹر تھما دیا ہے کہ جس سے اب ملک بھر میں کمل کی کھال ادھیڑی جائے گی ۔ پچھلے دنوں راہل گاندھی نے ہاتھرس میں ٹھاکروں کے ذریعہ عصمت دری کا شکار ہوکر موت کے گھاٹ اترنے والی مظلومہ کے اہل خانہ سے ملاقات کی اور اس دلت خاندان کے زخموں پر مرہم رکھا۔اس موقع پر لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے کہا تھاکہ ہاتھرس کے مظلومین کے ساتھ مجرموں جیسا برتاؤ کیا جا رہا ہے، جس سے وہ شدید خوفزدہ ہیں، لیکن انہیں ان کے حال پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ کانگریس انہیں انصاف دلانے کے لیے پوری طاقت کے ساتھ ان کے ساتھ کھڑی رہے گی۔
اس سے قبل راہل گاندھی نے سنبھل جانے کا ارادہ کیا تھا تو اتر پردیش کی انتظامیہ نے انہیں روک دیا ۔ اس لیے وہ بغیر کسی اعلان کے اچانک ہاتھرس پہنچ گئے تاکہ یوگی سرکار کوئی رکاوٹ نہ کھڑی کرسکے ۔ مظلوم خاندان کے ارکان سے ملاقات کے بعد راہل نے کہا کہ متاثرہ خاندان کی داستان نے انہیں جھنجھوڑ کررکھ دیا ہے۔ مجرمین کا آزاد گھومنا مظلومین کے لیے خوف کا باعث بنا ہواہے ۔ حکومت نے جو وعدے کیے تھے، وہ پورے نہیں ہوئےیعنی وعدہ خلافی کی ہے۔ چار سال پہلے ہاتھرس میں دلت برادری کی ایک لڑکی کے ساتھ زیادتی اور حملہ ہوا تھا، اور اس معاملے میں تین نوجوانوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ واقعے کے چند دن بعد لڑکی کی دہلی کے صفدرجنگ اسپتال میں علاج کے دوران موت ہو گئی تھی۔ اس واقعے کو لے کر پورے ملک میں مظاہرے ہوئے تھےلیکن آگے چل کر یہ معاملہ بھی ٹھنڈے بستے میں چلا گیا۔ ان مظلومین کی خبر گیری ویسے پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے مگر دلتوں کے ووٹ پر پلنے والی مایاوتی اور چندر شیکھر راون کی اولین ذمہ داری بنتی ہے۔ دلتوں کے ان روایتی رہنماوں نے اس سانحہ کو بھلا دیا ۔
راہل گاندھی نے ہاتھرس میں مظلومین سے ملاقات کرکے دوسال پرانے زخموں کو تازہ کردیاہے ۔ انہوں نے کہا:”آج ہاتھرس جاکر چار سال پہلے ہوئی شرمناک اور افسوسناک واقعے کے متاثرہ خاندان سے ملا۔ پورا خاندان آج بھی خوف کے سائے میں جی رہا ہے۔ ان کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ وہ آزادانہ طور پر کہیں آجا نہیں سکتے۔ انہیں ہر وقت بندوقوں اور کیمروں کی نگرانی میں رکھا جاتا ہے۔” یہ عجیب صورتحال ہے کہ ظالموں کو ضمانت پر آزاد چھوڑ دیا گیا ہے کہ جہاں چاہیں اور من مرضی سے منہ مارتے پھریں مگر مظلوموں کی چوبیس گھنٹے نگرانی کی جاتی ہے۔اس طرح گویا ان کے گھر کو ہی ایک کھلی جیل میں تبدیل کردیا گیا۔ ایسے میں فیض کی مشہور نظم ’نثار میں تیری گلیوں کے‘ کا یہ شعر ان کی حالت زار پر صادق آتا ہے؎
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
مظلوموں کے حوالے انسانی ہمدردی فطرت کا تقاضہ ہے مگر اس کے علاوہ یہ ایک سیاسی حکمت عملی اختیار بھی تھی ۔ اترپردیش میں دلت سماج کی ایک بہت بڑی آبادی ہے اور ایک زمانے مسلمانوں اور برہمنوں کی طرح وہ بھی کانگریس کے حامی تھی لیکن وقت ساتھ سیاست کا رنگ بدل گیا۔ مسلمان سماجوادی پارٹی میں چلے گئے اور برہمنوں نے بی جے پی کا دامن تھام لیا ۔ دلت سماج کانشی رام کی دعوت پر لبیک کہہ کر ہاتھی پر سوار ہوگیا۔ اس طرح اترپردیش کے اندر کانگریس کی ہوا اکھڑ گئی ۔مایا وتی نے پہلے سماجوادی اور پھر بی جے پی کی مدد سے ریاست کی وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا مگر آگے چل کر وہ بدعنوانی کے جال میں ایسے پھنسیں کہ بی جے پی ان کو بلیک میل کرنے لگی۔ بی جے پی کی بی ٹیم بن جانے کی وجہ سے بی ایس پی کا ووٹر بہن جی سے ناراض ہے۔ اتر پردیش میں دلت سماج پر پسماندہ طبقات کے لوگ روزمرہ کی زندگی میں مظالم کرتے ہیں اس بناء پر وہ سماجوادی پارٹی کے قریب نہیں آپاتے مگر کانگریس سے اسے کوئی پرخاش نہیں ہے۔اب کانگریس کے پاس انہیں قریب کرنے کا نادر موقع ہے۔ امیت شاہ کی بدزبانی نے نادانستہ طور راہل کی راہ آسان کردی ہے۔
مذکورہ بالا تناظر میں ایوانِ پارلیمان کے مکر گیٹ پر ہونے والے مکرو فریب کے ناٹک کودیکھنا چاہیے۔ حزب اختلاف کے ارکان پارلیمان آئین ساز بی آر امبیڈکر کی مبینہ توہین پر نعرے بازی کرتے ہوئے وہاں پہنچے این ڈی اے کے ارکان پارلیمان ان کے راستے میں کھڑے تھے ۔ شیوراج سنگھ نے بڑی معصومیت سے بتایا کہ حزب اختلاف بھی وہاں احتجاج کرتا ہے تو وہ لوگ شرافت سے دوسرے دروازوں کا رخ کرتے ہیں لیکن وزیر موصوف نے نہیں بتایا کہ آخر احتجاج کیوں ہورہا تھا؟ ان لوگوں کو کیا پریشانی تھی؟ اور وہ ڈنڈوں سے لیس ہوکر کیوں آئےتھے ؟ انہیں وہاں لاٹھیاں لانے کی اجازت کیسے مل گئی؟ آر ایس ایس کے بارے میں مشہور ہے کہ و ہ شاکھا میں لاٹھی چلانے کی تربیت دیتی جاتی ہے۔ ایسے میں اگر راہل گاندھی نے دھکا مکی کی تو انہوں نے لاٹھیوں سے ان کا سر کیوں نہیں پھوڑا ؟ سنگھ کی شاکھا میں ملنے والی تربیت آخر کہاں چلی گئی؟ وہ راہل گاندھی سے اتنا ڈرکیسے گئے ؟
بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ راہل کی مبینہ مار پیٹ سے سابق وزراء پرتاپ چندر سارنگی اور مکیش راجپوت زخمی ہو کر آئی سی یو میں داخل ہوگئے اور وہاں سے ٹیلی ویژن والوں کو بائیٹ دیتے دکھائی دئیے ۔ ان موم کے ارکان پارلیمان نے کوئی مزاحمت نہیں کی اور روتے پیٹتے میڈیا کے سامنے پہنچ گئے ۔ بی جے پی والوں سوچ سمجھ کر ایسا ناٹک کرنا چاہیے جس پر بھگتوں کے علاوہ دیگر لوگوں کو بھی یقین آئے۔ اس واقعے کے بعد وزیراعظم نریندر مودی جیسےکٹھور انسان نے بھی اسپتال جا کر زخمی ایم پی پرتاپ سارنگی اور مکیش راجپوت کی عیادت کی۔ وہ تو اچھا ہوا امیت شاہ وہاں نہیں گئے ورنہ یہ جعلی زخمی ان پر اپنا نزلہ اتار کر نیا ڈرامہ کھڑاکردیتے۔ اس معاملے میں بی جے پی کا دوہر کردار بہت دلچسپ ہے۔ اس کے رکن پارلیمان نشی کانت دوبے نے اس پرتاپ سارنگی سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں جنھوں نے بجرنگ دل کے رہنمائی کرتے ہوئے گراہم اسٹین اور ان کے دو بیٹوں کو زندہ جلا دیا تھا مگر ملک ارجن کھڑگے کے گرنے سے متعلق کہتے ہیں کہ وہ بہت زیادہ کھاتے ہیں اور چلتے نہیں ہیں۔ دوبے کے مطابق کھڑگے چونکہ موٹے ہوگئے ہیں اور ان کا وزن بڑھ گیا ہے اس لیے وہ از خود گر گئے۔ کانگریس اسے ایک برہمن رکن پارلیمان کی طرف سے بزرگ دلت رہنما کی توہین قرار دےکر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہے۔
بی جے پی چونکہ اس معاملے میں پوری طرح گھِر گئی ہے اس لیے مدافعت کے بجائے اقدامی پوزیشن میں آنے کی خاطر اس نے ٹی ڈی پی کے رکن پارلیمان بیاریڈی شبری ، ہیمانگ جوشی، انوراگ ٹھاکر اور بی جے پی کی ایم پی بانسری سوراج کے ذریعہ راہل گاندھی کے خلاف بی این ایس 117,125,131,3(5) کے تحت مقدمہ درج کروادیا ۔ اس کے تحت جسمانی چوٹ اور اشتعال انگیزی میں ملوث ہونا آتا ہے۔ ان دفعات کے تحت سات سے دس سال تک کی سزا ہوسکتی ہے کیونکہ راہل گاندھی کو مارنے کے لئے اکسانے کی کوشش اور دیگر الزامات کے تحت ملزم بنایا گیا ہے ۔ بی جے پی والوں کو یہ بات کب سمجھ میں آئے گی کوئی نہیں جانتا کہ راہل کو معتوب کرنے کی کوشش کا ردعمل ان کی مقبولیت میں بے شمار اضافہ کردیتا ہے ۔ اس سے پہلے جب راہل گاندھی کی رکنیت ختم کی گئی اور ان سے گھر خالی کرایا گیا تو یہ ہو چکا ہے مگر یہ لوگ اپنی پرانی غلطی سے سبق نہیں سیکھتے ۔
انڈیا بلاک کے رہنماؤں نے پارلیمنٹ کمپلیکس میں پیش آنے والے دھکا مکی کے واقعے پر لوک سبھا اسپیکر اوم برلا کو خط لکھا ۔ اس خط میں مذکورہ واقعہ پر گہری تشویش کا اظہار کرنے کے بعد یہ الزام لگایا گیا کہ انڈیا بلاک کے ارکان پارلیمنٹ پرامن احتجاج کرتے ہوئے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے مجسمے سے ’مکر دوار‘ تک مارچ کر رہے تھے۔ تاہم، جب انہوں نے پارلیمنٹ میں داخل ہونے کی کوشش کی تو نہ تو صرف انہیں روکا گیا بلکہ اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی پر حکمران جماعت کے تین ارکان پارلیمنٹ نے حملہ کیا، جو ان کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔راہل گاندھی کے مطابق بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ نے ان کو نہ صرف دھکے دئیے بلکہ دھمکیاں بھی دیں۔ کانگریس کے مطابق ان کو ایوانِ پارلیمان میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش دراصل آئینی حقوق پر حملہ ہے۔ کانگریس نے اس تنازع کو جمہوری اقدار پر بھی حملہ قرار دیا ہے اور لوک سبھا اسپیکر سے کارروائی کا مطالبہ کیا ۔ اب بیچارے اوم برلا کے دھرم سنکٹ ہے کہ وہ پارٹی سے وفاداری نبھائیں یا انصاف کا ساتھ دیں ۔ بی جے پی کے ارکان پارلیمان کی دھکا مکی پر آتش کا یہ(مع ترمیم) شعر پوری طرح صادق آتا ہے؎
لگے وہ دھکے دینے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا
Like this:
Like Loading...