Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu

فکر ِ غامدی بہ مقابلہ فکراسلامی غور و فکر کے چند اہم پہلو

Posted on 01-05-2025 by Maqsood

فکر ِ غامدی بہ مقابلہ فکراسلامی
غور و فکر کے چند اہم پہلو

ازقلم:مولانا محمد انصار اللہ قاسمی
آرگنائزر مجلس تحفظ ختم نبوت ٹرسٹ حیدرآباد
فون نمبر:9985030527

رسول اللہ ﷺ آخری نبی ہیں،مسلمان اِس بات کو ’’عقیدئہ ختم نبوت‘‘ کے عنوان سے مانتے اور تسلیم کرتے ہیں، آں حضرت ﷺ کے آخری نبی ہونے کا صرف یہ معنی نہیں کہ آپ ﷺ پر نبوت و رسالت کا سلسلہ مکمل ہوگیا ہے، بل کہ یہ بات بھی اس میں داخل ہے کہ دین و شریعت کی تعبیر و تشریح میں آپ ﷺ کی ذات عالی مرتبت آخری مرجع اورفائنل اتھاریٹی ہے، یہ تعبیر و تشریح کتاب و سنت رہنمائی ہےجو صحابہ کرامؓ کے بیان کردہ معانی و مفاہیم کے ذریعہ ہم تک پہونچی ہے ۔
اس وقت مسلمانوں میں فکری الحاد و ذہنی ارتداد کی ایک اہم وجہ دین و شریعت کو سیکھنے اور سمجھنے کے لئے سوشیل میڈیا کا غیر محتاط استعمال ہے، کیوں کہ سوشیل میڈیا پر بعض شخصیات بزعم خود دین و شریعت کی ایسی تعبیر و تشریح پیش کررہے ہیں جو بادی النظر میں دین و شریعت کی متواتر و متوارث تعبیر و تشریح کے خلاف ہی نہیں بل کہ متصادم معلوم ہوتی ہے، سوشیل میڈیا پر جن شخصیات کو بہت زیادہ سنا جاتا ہے، ان میں ایک نام جناب جاوید احمد غامدی صاحب کا ہے، موصو ف کا انداز ِ گفتگو چوں کہ سنجید ہ اور لب و لہجہ نرم اور عام فہم ہوتا ہے، اس لئے انھیں اچھی پذیرائی بھی حاصل ہے۔
جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنے علم وفہم کے مطابق دین و شریعت کے بارے میں جو کچھ سمجھا ہے، اس کی وضاحت انھوں نے اپنے خاص افکار و نظریات کی شکل میں اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں کی ہے، اس کتاب کے دیباچہ میں انھوں نے لکھا ہے:
’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔کم و پیش ربع صدی کے مطالعہ و تحقیق سے میں نے اس دین کو جو کچھ سمجھاہے وہ اپنی اس کتاب میں بیان کردیا ہے…..‘‘(میزان، طبع پا نزدہم، جون ۲۰۲۳ء)
دین کو سمجھنے کے حوالہ سے غامدی صاحب نے کتاب ’’میزان‘‘ میں اپنے جو کچھ افکار و خیالات پیش کیئے،اس کو دین و شریعت کی’’ میزان‘‘ میں رکھنا ضروری ہے،تاکہ اس کا تجزیہ اور موازنہ کیا جاسکے غامدی افکار و خیالات شریعتِ محمدی سے کہاں تک اور کتنے ہم آہنگ ہیں؟اس تجزیہ اور موازنہ کی تفصیلی وضاحت سے پہلے دو تین اصولی اور بنیادی باتوں میں ذہن میں رکھنا ضروری اور مناسب معلوم ہوتا ہے۔
دین کی متواتر ومتوارث تعبیر وتشریح کی اہمیت :
اگر دین و شریعت کے عنوان سے کوئی بات بیان کی جائے ،تواس کو قبول کرنے اور تسلیم کرنے کی بنیادکیا ہوگی؟اور کیا ہونا چاہئے؟ کیا محض اس وجہ سے کہ بولنے کا انداز بہت اچھا اور سلجھاہوا ہے، اس لئے وہ بات مان لی جائے؟ یا وہ بات اس لئے قبول کرلی جائے کہ وہ ہمارے اپنے گمان و خیال کے مطابق بہت ہی لاجیکل اور سائنٹفک معلوم ہوتی ہے؟ یا پھر یہ دیکھا جائے کہ عہد نبوی اور عہد صحابہ سے لے کر آج تک امت میں روایت ودرایت کا جو عظیم علمی و فکری ورثہ اور سرمایہ ہے، کیا اُس میں اس بات کا کہیں حوالہ یا کچھ رہنمائی ملتی ہے؟ ظاہر سی بات ہے کہ یہ تیسری چیز ہی ہمارے لئے دین و شریعت کے عنوان سے کسی بھی بات کو قبول کرنے کا ایک معقول معیار ہے۔
اس لئے کہ دین و شریعت کی اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ متواتر تعبیر و تشریح سے ہم تک پہونچی ہے، متواتر تعبیر و تشریح کا مطلب یہ ہے کہ کوئی عقیدہ یا عمل جس کو ہم مانتے ہیں اُس کا سلسلہ سند ہم سے شروع ہوکر عہد ِ صحابہ اور عہد نبوی تک جا پہونچتا ہے، اسلامی نظام ِ زندگی کی کوئی بھی بات عقائد و ایمانیات ،عبادات ومعاملات، اخلاقیات،معاشرت اور معیشت کسی بھی شعبہ زندگی سے اُس بات کا تعلق ہو، اگر وہ بات متواتر سند اور متوارث طریقہ پر نسل در نسل ہمیں ملی ہےاور جمہور امت کا تعامل بھی اس پر ہو،تو ہم اُ س بات کو قبول اور تسلیم کرنے کے پابند ہیں ، مثلاً اسلام میں ’’ختم نبوت‘‘ کا تصور ہے، نبی ﷺ ،صحابہ کرامؓ اور سلفِ صالحین کے دور سے لے کرآج تک اس کی جو متواتر تعبیر و تشریح متوارث طریقہ پر ایک نسل سےدوسری نسل اور ایک طبقہ سے دوسرے طبقہ تک ہمیں معلوم ہوئی، وہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ آخری نبی ہیں، آپﷺ کے بعد انبیاء کرام کی آمد کے سلسلہ کو مکمل کردیا گیا، اب اس متواتر و متوارث تعبیر و تشریح سے ہٹ کر ختم نبوت کے تصور کے سلسلہ میں اگر کوئی ایسی بات کہی جائےجس سے دعوئ نبوت کو جائز ٹھہرایا جائے یا صحیح مانا جائے، تو یہ چیز نا قابل قبول ہے، اسی طرح اسلام کا ایک اہم ترین رکن نماز ہے، اس کا ایک خاص عملی تصور امت میں رائج ہے، اس تصور کی بنیاد بھی دین کی متواتر اور متوارث تعبیر و تشریح ہے، نبی ﷺ نے فرمایا:  ’’صلو کمارأیتمونی أصلی‘‘ ( صحیح بخاری:۶۰۰۸) تم اُس طرح نماز پڑھو جس طرح تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو، صحابہ کرام ؓ نے نبیﷺ کو دیکھا، تابعین ؒنے صحابہ کرامؓکو دیکھا اور تبع تابعین نے تابعین کو دیکھا، اس طرح تسلسل کے ساتھ نماز کا عملی طریقہ امت میں چل پڑا، اب اگر کوئی فرد یا گروہ یہ کہنے لگے کہ عربی زبان میں ’’صلوۃ‘‘ کا معنی دعا کے ہیں، اس لئے دعا ء کی کیفیت اپنے اندر پیدا کیجیے، یا جب موقع ملے دعاء کرنے کی ہیئت بنالیجئے تو آپ کی نماز ادا ہوجائے گی، یا پھر یہ کہ نماز کی ترتیب میں بھی الٹ پھیرکردے، پہلے سجدہ ،پھر رکوع، پھر قیام پھر سلام وغیرہ، تو یہ سب باتیںمردوداور ناقابل قبول ہیں ، کیوں کہ یہ دین و شریعت کی متواتر اور متوارث تعبیر و تشریح کے خلاف ہے۔
دین میں سلسلۂ سند کی اہمیت:
دین و شریعت کی متواتر و متوارث تعبیر و تشریح دراصل سند کے تسلسل کا دوسرا نام ہے ،یعنی دین و شریعت کی کوئی بات بغیر سند کے قبول نہیں کی جاسکتی، سند کا اہتمام و التزام مذاہب عالم میں صرف دین اسلام کی خصوصیت ہے، اس خصوصیت کی وجہ سے اسلامی عقائد و نظریات اور تعلیمات ملحدین اور اہل بدعت کے ہاتھوں کا کھلونا بننے سے محفوظ ہیں، مشہور محدث ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ حاکم نیساپوری(وفات: ۴۰۵ھ) اپنی کتاب ’’معرفۃ علوم الحدیث‘‘ حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کا قول ’’الاسناد من الدین لو لاالاسناد لقال من شاء ماشاء‘‘(سند بیان کرنا دین کا حصہ ہے، اگر یہ نہ ہوتا تو آدمی دین کے نام پر جو چاہے بول دیتا)نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’اگر سند نہ ہوتی اور سند کے سلسلہ میں محدثین کا مذکورہ سخت طرز عمل نہ ہوتا تو اسلام کی علامت مٹ چکی ہوتی، جس کے نتیجہ میں ملحدین اور اہل بدعت جھوٹی حدیثیں گھڑکر الٹی سندیں پیش کرکے دین میں گھس جاتے، کیوں کہ احادیث کی اسناد سے بے نیاز کردیا جائے تو ان کی بنیاد ختم ہوکر ناقص رہ جائیں گی‘‘۔(حاکم، ص: ۶ بحوالہ مضمون علم اسناد کا تعارف اور اس کی حقیقت، ماہنامہ بینات کراچی، بابت ڈسمبر ۲۰۲۰ء)
فتنوں کے دور میں دین کے عنوان سے پیش کی جانے والی باتوں کی وجہ سے سند کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے،چنانچہ امام محمد ابن سیرینؒ (وفات:۱۱۰ھ) فرماتے ہیں:
’’فتنوں کے نمودار ہونے سے پہلے سند کے مطالبہ نہیں کیا جاتا تھا، جب فتنہ واقع ہوگیا تو أئمہ حدیثِ راویوں سے کہنے لگے، اپنے اساتذہ کا نام بتائو، چھان بین کے بعد اہل سنت کی رواۃ کی روایت قبول کرتے اور بدعتیوں کی رد کردتے تھے‘‘۔
(مقدمہ صحیح مسلم ۱۵/۱ ،بحوالہ سابق)
ایک مرتبہ صحابی رسول حضرت ابن عباسؓ کے سامنے ایک شخص نے حدیث بیان کی، آپ ؓ نے اُس کی طرف توجہ نہیں فرمائی، اس شخص کے وجہ پوچھنے پر آپؓ نے بتایا:
’’ایک دور تھا جب ہم کسی کی زبان سے ’’قال رسول اللہ ﷺ‘‘ سنتے تو ہماری نگاہیںاس کی جانب دوڑ پڑتی تھیں اور ہم ہمہ تن گوش ہوجاتے تھے، اب جب کہ حالت بدل گئی، لوگوں میں اچھے بُرے کی تمیز نہیں رہی، تو ہم صرف ان ہی باتوں کو قبول کریں گے جو ہم پہلے جانتے تھے‘‘۔(مقدمہ صحیح مسلم ۱۳/۱ ،بحوالہ سابق)
واضح رہے کہ احادیث کو قبول اور رد کرنے کے سلسلہ میں محدثین نے سند کی جو بنیاد ڈالی، اس کی وجہ سے مسلمانوں میں دین و شریعت کے عنوان سے کسی بھی بات کو قبول کرنے میں حد درجہ احتیاط کا مزاج پیدا ہوگیا، چاہے اس بات کا تعلق علم حدیث کے علاوہ علم تفسیر ، علم فقہ اور علم عقائد و کلام سے کیوں نہ ہو، مسلمان یہ دیکھنے لگے جو بات کہی گئی ،اس کا ثبوت اور حوالہ أئمہ تفسیر ،أئمہ حدیث، أئمہ مجتہدین اور متکلمین کے یہاں ملتا ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو قبول کی جائے گی ورنہ مسترد کردی جائے گی، اس سلسلہ میں نبی ﷺ کی ایک حدیث سے رہنمائی ملتی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
’’یکون فی أخرالزمان دجّالون کذابون یأتونکم من الاحادیث مالم تسمعوأنتم ولا أباءکم، فایاکم وایا ھم لا یضلونکم ولا یفتنو نکم
( مقدمہ صحیح مسلم، حدیث نمبر :7، عن أبی ھریرۃ ؓ)
حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
آخری زمانہ میں سچ کے ساتھ جھوٹ کی ملمع سازی کرکے بہت زیادہ جھوٹ بولنے والے پیدا ہوں گے ،وہ تمہارے سامنے ایسی باتیں پیش کریں گے جس کو نہ تم نے اور نہ تمہارے آباء واجدادنے کبھی سناہوگا، تم اُن سے اور وہ تم سے دور رہیں ،کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں سیدھی راہ سے گمراہ کردیں (یا کم از کم تمہیں پہلے سے معلوم شدہ اسلامی عقائد و تعلیمات سے متعلق شک و شبہ میں ڈال کر)تمہیں آزمائش میں نہ ڈال دیں۔
بہرحال جاوید غامدی صاحب کے بشمول کوئی بھی دانشورہو اگر وہ دین و شریعت کی بات بتارہے ہیں تو اُس کے بارے میں دیکھا جائے گا وہ دین کی متواتر اور متوارث تعبیر و تشریح کے خلاف اور متصادم تو نہیں ہے اور وہ سند کے لحاظ سے کتنی معتبر اور مضبوط ہے۔

قرون ِ ثلاثہ کی عظمت وفضیلت:
دین و شریعت کی متواتر اور متوارث تعبیر و تشریح کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ اس کا تعلق صحابہ کرامؓ اور اسلام کے دور اول سے ہے، جو چیز نبی ﷺ کے مبارک زمانے سے جتنا زیادہ قریب ہوگی وہ اُتنا ہی زیادہ معتبر و مستند مانی جائے گی، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
خیر الناس قرنی، ثم الذین یلونھم، ثم الذین یلونھم
بہترین لوگ میرے زمانہ کے ہیں، پھر اُن کے بعد جو ہوںگے، پھراُن کے بعد جو ہوںگے، یعنی بہترین زمانہ صحابہؓ کا، پھرتابعین اور تبع تابعین کا زمانہ ہے۔
(صحیح مسلم، حدیث نمبر:2533)
اس لئے ہمارے لئے بہتری بل کہ ہمارے ایمان کی بقاء اور سلامتی اسی میں ہے کہ دین و شریعت کی پیروی میں ہم صحابہ کرامؓ کو اپنا اسوہ بنائیں، کیوں کہ ان برگذیدہ ہستیوں نے نبی ﷺ کی اتباع و پیروی کا عملی نمونہ ہمارے سامنے پیش کیا ہے اور وہ یقینی طور پر اپنے بعد والوں کے مقابلہ میں اخلاقی برائیوں اور کمزوریوں سے بہت زیادہ محفوظ تھے، صحابی رسول حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں:
جو شخص کسی کی پیروی کرنا چاہے، تو اُس کو چاہئے کہ وہ گذرے ہوئے لوگوں کی پیروی کرے، اس لئے کہ زندہ لوگوں سے متعلق فتنہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ رہتا ہےاور گذرے ہوئے لوگ نبی ﷺ کے صحابہؓ ہیں، وہ پوری امت میںسب سے افضل ترین لوگ ہیں، اُن کے دل سب سے زیادہ پاکیزہ ہیں، ان کا علم سب سے زیادہ گہرا ہے، وہ سب سے زیادہ کم تکلف کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنے نبی کی رفاقت اور اپنے دین کو قائم کرنے کے لئے منتخب فرمایا: تم اُن کی عظمت و فضیلت کو سمجھو، اُن کے نقشِ قدم کی پیروی کرو اور جہاں تک ہوسکے اُن کے اخلاق و کردار کو اپنانے کی کوشش کرو، اس لئے کہ صحابہؓ ہدایت کے سیدھے راستے پر ہیں…..‘‘(جامع بیان العلم وفضلہ لا بن عبدالبر ،حدیث نمبر :1810)
جسمانی بیماریوں کے علاج کے لئے تو ماہر ڈاکٹرس اپنے علم و مطالعہ اور تجربہ کی روشنی نئی نئی دوائیں تجویز کرتے ہیں، جدید معلومات اور تازہ تحقیقات کی روشنی میں ہومیوپیتھک، آرویدک، ایلوپیتھی اور یونانی وغیرہ مختلف علاجوں کے لئے نئی دوائیں اور نسخے تیارکئے جاتے ہیں، لیکن روحانی بیماریوں کے علاج کے سلسلہ میں صرف ایک ہی نسخہ متعین ہے اور وہ ہے کتا ب و سنت کی رہنمائی، یہ رہنمائی جتنی زیادہ اسلام کے دورِ اول سے قریب ہوگی اتنی ہی زیادہ معتبر اور مستند مانی جائے گی، یہاں عقائد و اعمال کی اصلاح کے لئے جدید تحقیقات کے نام نئے نئے تجربات کرنے کی اجازت و گنجائش نہیں ہے،اصلاح کے طریقہ کار کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ تو کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ ہم آہنگی دین و شریعت کے بنیادی اصولوں سے کھلواڑ کرکے اور انھیں مسمار کرکے نہیں کی جاسکتی۔
مثلاً عقیدئہ تو حید میں بگاڑ کی ایسی اصلاح کی جائے کہ اس میں عیسائیوں کے عقیدئہ تثلیت کا مفہوم پیدا ہوجائے ، یاعقیدئہ حلول و تجسّم کی گنجائش نکل آئے، یا پھر حدیث کی تعریف اور اُس کے مستند ومعتبر ہونے میں شق در شق ایسی باتیں بیان کی جائے کہ انکارِ حدیث کی راہ نکل آئے، اس لئے امام مالکؒ کا یہ مشہور قول ہے:لا یصلح اٰخر ھذہ الامۃ الا بماصلح بہ اولھا‘‘ اس امت کے آخری طبقہ کے عقائد و اعمال کی اصلاح اُسی طریقہ پر ہو گی جس طریقہ پر امت کے پہلے طبقہ کی اصلاح ہوئی۔
(شرح صحیح ابن خزیمہ، ص:۲۲)
دین و شریعت کی رہنمائی کے سلسلہ میں اسلام کے اولین تین دور صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین کی طرف رجوع کرنے پر اگرچہ ’’قدامت پرستی‘‘ کا طعنہ دیا جاتا ہے، اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیوں کہ دین وشریعت کی پابندی’’قدامت پسندی‘‘ میں ہے ،جمہور امت یعنی دین پر عمل پیرا عام مسلمانوں کا مزاج یہ ہے کہ وہ دینی امور میں ’’جدت‘‘ کےمقابلہ میں ’’روایت کو ترجیح دیتے ہیں، اس لئے دین و شریعت کے معاملہ میں اگر اہل ایمان کے عام مزاج اور منہج سے ہٹ کر کوئی اور راہ اختیار کی جائے تو وہ جہنم کی طرف لے جانے والی ہوگی، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ…..
اور جو اپنے آپ پر ہدایت واضح ہوجانے کے بعد بھی رسول کی مخالفت کرے اور مسلمانوں کے راستہ کے بجائے دوسرے راستہ کی پیروی کرے تو ہم اس کو جو کررہا ہے، کرنے دیں گے اور اس کو دوزخ میں ڈال دیں گے….(النساء: ۱۱۵)
پس معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے متفقہ عقیدہ اور طریقہ سے ہٹ کر کوئی نیا عقیدہ گھڑنا یا کوئی نیا طریقہ ایجاد کرنا از روئے قرآن مجید ناقابل قبول ہے، دین و شریعت کے ماہرین نے اس آیت سے شریعت کے ایک اہم ماٰخذ ’’اجماع امت‘‘ کے حجت ہونے پر استدلال کیا ہے، اس سلسلہ میں نبی ﷺ کی ایک واضح حدیث بھی موجود ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ان اللہ لایجمع امتی علی ضلالۃ…. اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر جمع نہیں فرمائیں گے‘‘(سنن ترمذی،حدیث نمبر: 2167) غرض کہ جاوید احمد غامدی صاحب کے بشمول جو بھی دین و شریعت کی کوئی بات بتائے وہ علماء امت کے متفقہ موقف کے خلاف نہیں ہونا چاہئے۔
افکارِ زمانہ سے مرعوبیت:
عام طور پر جو لوگ دین و شریعت کے معاملہ میں کتاب و سنت اور اجماعِ امت سے ہٹ کر اپنا کوئی نیا خیال اور نئی فکرپیش کرتے ہیں، اس کے پیچھے ایک نفسیاتی کمزوری بھی ہوتی ہے اوروہ ہے زمانہ کے افکار و نظریات سے مرعوبیت، یاپھر برسرِ اقتدار طبقہ کی ذہنی غلامی ہے، امام غزالی ؒ (وفات: 505ھ) کے دور میں یونانی فلسفہ کا غلبہ تھا، اس دور میں یونانی فکرو فلسفہ سے مرعوب بل کہ مغلوب مفکرین اور دانشور حضرات اسلامی عقائد و تعلیمات کی ایسی تشریح کرتے تھے کہ وہ یونانی فلسفہ کا چربہ معلوم ہوتی تھی، اس طرح کی تشریحات کے رد میں امام غزالی ؒ اور ان جیسے جید علماء نے نمایاں خدمات انجام دی اور اسلامی افکار و نظریات پر سے یونانی فلسفہ کے گردوغبار کو صاف کیا، اس سلسلہ میں امام غزالی ؒ کی کتابیں ’’تھافۃ الفلاسفۃ‘‘ اور ’’التفرقۃ بین الاسلام والزندقۃ‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں، موجودہ دور چوں کہ مغربی افکار و نظریات کے غلبہ کا ہے، اس لئے بعض دانشور ان اسلامی عقائد و نظریات کی ایسی تعبیر و تشریح کرتے ہیں جو واضح طور پر مغرب سے مرعوبیت کی دلیل ہوتی ہے، ہوسکتا ہے کہ ان کا مقصد اور جذبہ یہ ہو کہ تہذیبی تصادم اور نظریاتی جنگ کی شدت کو ختم کیا جائے، بے شک پُر امن بقاء باہمی کا اصول ایک اچھی چیز ہے، اسلام بھی اس کی تعلیم دیتا ہے، اسلا م کی پہلی ریاست مدینہ منورہ میں رسول اللہ ﷺ کے حکم پر بلا تفریق دین مذہب تمام اہل مدینہ کے لئے تیار کردہ معاہدہ ’’میثاق مدینہ‘‘ اس کی واضح مثال ہے ہے، اس کے علاوہ خلفاءراشدین اور دیگر مسلم حکمرانوں کے دور میں اس کی روشن مثالیں موجود ہیں۔
تہذیبی تصادم اور نظریاتی جنگ کے دوران مکالمہ بین المذاہب (InterFaith dialogue ) اسلامی تعلیمات کو اس انداز سے پیش کیا جائے کہ وہ ’’موم کی ناک‘‘ بن جائے، سیکولرازم،سوشل ازم، کمیونزم، نیشنل ازم اور ہومیونزم وغیرہ ہر نظریہ کا پیروکار اور سہولت کار اپنی مرضی و منشاء کے مطابق اسلامی عقائد و نظریات کو موم کی طرح ڈھالنے لگے، اس سے تواسلام کی اصلیت اور حقیقت ہی ختم ہوکر رہ جائے گی، چائے میں شکر میں ملانے کا مطلب یہ نہیں کہ اُس کی اصل روح اور ماہیت ختم کرکے اُس کو شربت بنادیا جائے۔
غامدی صاحب نے قتل مرتد کے قانون ،پردہ وحجاب اور اسلام کے سیاسی نظام کے حوالہ سے اپنے فکر و نظر کا جوزاویہ پیش کیا ہے، وہ دراصل مغربی مفکرین کی صدائے بازگشت ہے ،یہ کہنے اور سمجھنے میں کوئی تکلف اور ہچکچاہٹ نہیں کہ انھوں نے بعض اسلامی افکارو نظریات کی تعبیر و تشریح میں مغربی فکر و فلسفہ کو ’’قبلہ نما‘‘ کے طور پر قبول کیا ہے، پھر بزعم خود اسلام کا ماڈرنازیشن (جدید کاری) کرنے یا دوسرے لفظوں میں اسلام کا ’’مغربی ایڈیشن‘‘ پیش کرنے کی ایک نامعقول اور ناقابل قبول کوشش کی ہے، بد قسمتی سے مغربی حکومتیں یونیورسیٹز اور دیگر اکیڈمک اداروں میں اس طرح کی شخصیات اور ان کے تربیت یافتہ افراد کا تقرر کرتی ہےاور خود مسلمانوں کے مغرب زدہ اشرافیہ میں ان کی خاص پذیرائی ہوتی ہے۔
اسلام پسند اور دین و شریعت کے پابند مسلمانوں کے لئے اسلامی عقائد وتعلیمات کی ایسی تعبیر و تشریح بالکلیہ طور پر ناقابل قبول ہےجو کتاب و سنت اور اجماعِ امت سے ماخوذ و مستنبط ہونے کے بجائے سکہ رائج الوقت کی طرح مانے جانے والی مغربی فکروفلسفہ کے زیر اثر ہو۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

اشتہارات

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb