Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
Abdul Munim Sahab Farooque

قربانی کے بعد صفائی کا اہتمام ضروری

Posted on 06-06-2025 by Maqsood

قربانی کے بعد صفائی کا اہتمام ضروری

ازقلم:مفتی عبدالمنعم فاروقی
9849270160

اسلام میں صفائی ستھرائی کا حکم صرف انسان کی ذات تک محدود نہیں ہے بلکہ انسان کا جس چیز سے بھی تعلق یا سابقہ پڑتا رہتا ہے ان تمام چیزوں کو صاف ستھرا رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ،جیسے مسجد، مکان ،دکان، گلی ،محلہ ،سڑک،بازاروغیرہ ، صفائی کا اہتمام نہ کرنا ،خود کو پراگندہ رکھنا نیز اپنے ارد گرد صفائی کی طرف توجہ نہ دینا انتہائی قبیح عمل ہے اسلام اس کو ہرگز پسند نہیں کرتا ہے،حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام نے جس قدر صفائی اور ستھرائی پر توجہ دی ہے اور اپنے ماننے والوں کو صاف ستھرا رہنے کا حکم دیا ہے کسی دوسرے مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے اور نہ ہی خصوصیت کے ساتھ طہارت ونظافت کے احکام ملتے ہیں جو اسلام نے اپنے ماننے والوں کو دئے ہیں ،اسلام نے تو پاکی صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے ،یہ جملہ بتارہا ہے کہ اسلام میں صفائی کی کس درجہ اہمیت ہے بلکہ اسلام نے صرف زندوں کو پاک صاف رہنے کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ انہیں یہ بھی تاکید کی ہے کہ ان کے مردوں کو جب دفن کرو تو انہیں بھی نہلا دہلا کر اور صاف ستھرے کپڑے میں لپیٹ کر باعزت طریقے سے قبر کے حوالے کرو،اس سے بھی اسلام میں طہارت ونظافت کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ،غرض یہ کہ اسلام نہ صرف دنیا کا سب سے پاکیزہ مذہب ہے بلکہ اس کی ہر ایک تعلیم نہایت پاکیزہ اور فطرت انسانی عین مطابق ہے ۔

قرآن کریم کے علاوہ بے شمار احادیث مبارکہ ہیں جن میں بڑی اہمیت کے ساتھ طہارت ،نظافت اور صفائی ستھرائی کا حکم دیا گیا ہے، صحابی ٔ رسول حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐہمارے یہاں کسی سے ملاقات کے لئے تشریف لائے تو دیکھا کہ ایک صاحب گرد وغبار میں اٹے ہوئے ہیں ،بال بکھرے ہوئے ہیں ،توآپ ؐنے ارشاد فرمایا ان کے پاس کنگھا نہیں جس سے بال درست کر لیتے ،نیز آپ ؐنے ایک شخص کو میلے کپڑوں میں ملبوس دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ : ان کے پاس کوئی ایسی چیز (صابن وغیرہ) نہیں ہے جس سے یہ اپنے کپڑے دھولیتے؟(ابوداؤد :۴۰۶۲)،حضرت عطاء بن یسار ؒ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ مسجد نبوی میں تشریف فرماتھے کہ اتنے میں ایک شخص داخل ہوئے جن کے سر اور ڈاڑھی کے بال بکھرے ہوئے تھے،آپ ؐ نے اپنے ہاتھ سے ان کی طرف اشارہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ جاکر اپنے سر اور ڈاڑھی کے بال درست کرو،چنانچہ وہ گئے اور بالوں کو ٹھیک کرکے لوٹے ،(جب ان کے بال وغیرہ درست دیکھا تو) ارشاد فرمایا کیا یہ بہتر نہیں ہے اس بات سے کہ آدمی کے بال پراگندہ اور منتشر ہوں ،ایسا معلوم ہوتا ہے گویا شیطان ہے(شعب الایمان:۶۰۴۳) ،رسول اللہؐ صحابہؓ کو نہ صرف صاف ستھرا رہنے کی طرف توجہ دلاتے تھے بلکہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو بھی صاف و شفاف بنائے رکھنے کی تعلیم وترغیب دیا کرتے تھے اور ایسے ہر عمل سے دور رہنے کی تاکید فرماتے تھے جس سے دوسروں کو تکلیف ہوتی ہے ، خاص کر اپنے پڑوسیوں کو تکلیف دینے اور انہیں ایذا پہنچانے پر سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے ،جو لوگ اپنے عمل وکردار سے دوسروں اور بالخصوص اپنے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں یا تکلیف کا باعث بنتے ہیں تو ان کے لئے نہایت سخت لب و لہجہ استعمال فرمایا ہے ،چنانچہ ایک موقع پر ارشاد فرمایا :بخدا وہ ایمان نہیں رکھتا ،بخدا وہ ایمان نہیں رکھتا ،بخدا وہ ایمان نہیں رکھتا،صحابہ ؓ نے گھبراکر پوچھا اے اللہ کے رسول ؐکون ؟تو آپؐ نے ارشاد فرمایا:الذی لا یأمن جار ہ بوائقہ( بخاری :۵۶۷۰)’’وہ شخص جس کا پڑوسی اس کی ایذا کوشی اور تکلیف رسانی سے محفوظ نہ ہو‘‘ ، اسی طرح رسول اللہؐ نے راستے ، بازار ،سایہ دار درخت اور لوگوں کے بیٹھنے کے مقامات پر گند گی پھیلانے اور تکلیف دینے والی چیزوں کے ڈالنے کی سخت انداز میں ممانعت فرمائی ہے ، کیونکہ یہ وہ مقامات ہیں جن سے انسان اور دیگر جاندار بھی فائدہ اٹھاتے ہیں ،یہاں گندگی ڈالنے سے انہیں تکلیف ہوگی اور وہ اس مقام سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے ،یہی وجہ ہے کہ رسول اللہؐ نے راستوں پر قضائے حاجت کرنے اور وہاں پر گندگی پھیلانے والوں پر لعنت فرمائی ہے اور لعنت وملامت والے حرکات واعمال سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے ،چنانچہ آپ ؐ نےارشاد فرمایا: لعنت وملامت کی دوچیزوں سے بچو! ان میں سے ایک وہ ہے جو لوگوں کے راستے میں یا ان کے سایہ میں قضائے حاجت کرے (مسلم: ۲۶۹)۔

اسلام ان تمام کاموں کی طرف توجہ دلاتا ہے جن سے انسانوں کو فائدہ اور راحت وچین ملتا ہے بلکہ اس طرح کے اچھے کاموں کے کرنے پر ان کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ،ان کی تعریف کرتا ہے اور اتنا ہی نہیں بلکہ اس پر انہیں اجر ثواب کی خوشخبری دیتا ہے ،کیونکہ ہر وہ ایسا کام جس سے انسانوں کی مدد ہوتی ہے ،انہیں فائدہ حاصل ہوتا ہے اور انہیں راحت پہنچتی ہے اسلام کی نظر میں بڑا عمدہ کام ہے اور یہ ایسی خوبی ہے جو انسان کو انسانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نظر میں بھی محترم بنادیتی ہے ،ایک موقع پررسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ’’ ایمان کے ستر سے زیادہ شعبے ہیں ان میں سے اعلیٰ ترین شعبہ لا الٰہ الا اللہ کہنا اور ادنیٰ ترین شعبہ راستے سے تکلیف دینے والی چیزوں کو دور کرنا ہے( مسلم :۵۸)‘‘۔

عید قربان (عید الاضحی) کے موقع پر مسلسل تین دن تک مسلمان اللہ تعالیٰ کے حکم پر اور اللہ کے خلیل کے عمل کی نقل اور اللہ کے حبیب ؐ کی اتباع میں جانوروں کو ذبح کر تے ہیں اور اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،یقینا قربانی ایک مہتم بالشان عمل اور ایک عظیم ترین عبادت ہے ،یہ تقرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے ،ایک مسلمان جب جانور کے گلے پر چھری چلاتا ہے تو وہ صرف جانور ذبح نہیں کرتا بلکہ حکم الٰہی پر اپنی انا اور خواہش کو قربان کرنے کا عہد کرتا ہے اور زبان حال وقال سے یہ کہتا ہے کہ جس طرح آج میں حکم الٰہی کی تعمیل میں جانور قربان کر رہاہوں زندگی کے کسی بھی موڑ پر خواہش رب اور خواہش نفس کا ٹکراؤ ہوگا تو اس وقت خواہش رب پر خواہش نفس کو اسی طرح قربان کردوں گا ،قربانی دراصل جذبہ کو زندہ رکھنے کا نام ہے ،اگر قربانی سے یہ جذبہ بیدار نہ ہو تو پھر قربانی سوائے رسم کے کچھ اور نہیں ہے اور اس کا مقصد سوائے گوشت کھانے کے اور کچھ نہیں ہے ،اس سے قربانی کے بعد اپنے اندر تسلیم ورضا کا مزاج پیدا کریں اور اپنے ہر عمل کے ذریعہ سچی غلامی کا اظہار کرتے رہے۔

قربانی کے دنوں میں صرف ہمارے ملک ہندوستان میں لاکھوں مسلمان اپنی اپنی استطاعت کے مطابق جانوروں کی قربانی دیتے ہیں ، ہر شخص اپنی سہولت کے لحاظ سے قربانی کی جگہ کا انتخاب کرتا ہے، بعض لوگ مختص قربان گاہوں کا انتخاب کرتے ہیں تو بعض لوگ آبادی سے دور کھلے مقام پر قربانی کرتے ہیں تو بہت سے لوگ اپنے اپنے گھروں میں ہی جانور ذبح کرتے ہیں ،قربانی کے بعد سب سے بڑا مسئلہ جانور کے خون ، پیٹ کے آلائش اور دیگر غیر منتفع چیزوں کو ٹھکانے لگانے کا ہوتا ہے، ان چیزوں کو مناسب جگہوں پر یا آبادی سے دور لے جاکر ڈلنا بہت ضروری ہوتا ہے ،اس سے نہ یہ کہ صفائی ستھرائی میں مدد ملتی ہے بلکہ محلے اور آبادی تعفن اور بد بو سے محفوظ ہوجاتے ہیں ،عید الاضحی کے موقع پر ریاستی حکومت کی جانب سے صفائی ستھرائی کا نظم کیا جاتا ہے اور حکومت کی جانب سے اس کام کے لئے بلدیہ کے عملے کو بڑھادیا جاتا ہے ، ان تین دنوں میں بلدیہ کا عملہ بھی حرکت میں رہتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ کہیں پر بھی گندگی نہ ہو جس سے یہاں کے رہنے والوں کو تکلیف پہنچے اور وہ کسی وبائی مرض کا شکار ہو جائیں ،بلدیہ کے عملے کی یہ کوششیں قابل ستائش ہیں لیکن اتنی کوششوں کے باوجود بھی بہت سے مقامات پر ،گلی کوچوں ،نکڑوں پر اور کچرا دانوں کے اردگرد جانوروں کی اوجھ ،ہڈیاں اور دیگر چیزیں بکھری ہوئی دیکھائی دیتی ہیں ،جس سے گندگی پھیلی ہوئی نظر آتی ہے ، بہت مسلمان بے حسی ، غیر ذمہ داری اور لاوبالی پن کا مظاہرہ کرکے جانوروں کے آلائش ادھر اُدھر پھینک کر تعفن وگندگی میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے جیسا کہ سطور بالا میں ذکر کیا گیا کہ قربانی ایک عبادت اور شریعت کا اہم ترین حکم ہے ،جس طرح قربانی ایک عبادت ہے اسی طرح صفائی ستھرائی کو بھی اسلام میں عبادت کا درجہ حاصل ہے وہ تو راستہ سے تکلیف دینے والی چیز کو ہٹانے پر صدقہ قرار دیتا ہے بھلا وہ کیسے گوارہ کر سکتا ہے کہ مسلمان کوئی عبادت انجام دے اور اس سے دوسروں تکلیف ہوجائے،قربانی کے موقع پر راستوں پر خون بہانے ، جگہ جگہ گندگی ڈال کر بد بو پھیلانے سے نہ صرف قوم مسلم کے غیر مہذب ،غیر سنجیدہ اور بد تہذیب ہونے کا شبہ ہوتا ہے بلکہ اس سے اسلام کی غلط تصویر برادران وطن کے سامنے جاتی ہے جو ہمارے لئے باعث شرم ہے۔

اگرہم چاہتے ہیں کہ ہماری قربانی اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول ہوجائے تو ہم کو چاہئے کہ قربانی کے ساتھ ساتھ صفائی ستھرائی کا بھی خاص خیال رکھیں کسی کہنے والے نے بڑی اہم بات کہی ہے کہ قربانی کی قبولیت کے لئے جہاں دل کی صفائی (اخلاص نیت) ضروری ہے ویسے ہی قربانی پر اجر ثواب کے حاصل ہونے کے لئے ، قربانی کے بعد مقام قربانی کا صفا ستھرا ہونا بھی ضروری ہے اس لئے کہ وہی عبادت قبولیت کو پہنچتی ہے جس سے کسی کو ضرر نہ پہنچے ،کسی کو ضرر پہنچاکر عبادت کرنا عبادت نہیں بلکہ شامت کا ذریعہ ہے ، اس لئے قربانی کرنے والوں سے گزارش ہے کہ اس موقع پر بڑی احتیاط برتیں ،جس شوق وجذبہ سے قربانی کر رہے ہیں اسی شوق وجذبہ کے ساتھ صفائی ستھرائی کا بھی اہتمام کریں ، بڑی خوشی کی بات ہے کہ چند سالوں سے یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ قربانی کے دنوں میں حکومت وبلدیہ کے علاوہ مسلمانوں کی دینی وفلاحی تنظیمیں بھی میدان عمل میں کود کر اپنے طور پر صفائی ستھرائی کی کوششیں کرتے ہیں جو لائق تحسین ہی نہیں بلکہ لائق تقلید بھی ہیں بلکہ باوثوق ذرائع سے ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ بعض سنجیدہ افراد اپنے اپنے طور پر بھی صفائی ستھرائی کا کام انجام دے رہے ہیں ،ان شاء اللہ ان حضرات کا یہ عمل ان کے لئے اجر عظیم کا باعث ہوگا اور امید ہے اس سے دوسروں کو بھی ترغیب ملے گی اور جو لوگ صفائی کا اہتمام نہیں کرتے انہیں اس سے سبق حاصل ہوگا ،یقینا یہ بڑا اچھا موقع ہے کہ اس کے ذریعہ ہم برادران وطن کو خاموش اسلام اور اس کے اچھائیوں کی دعوت دے سکتے ہیں اور انہیں اپنے عمل سے بتا سکتے ہیں اسلام کس قدر پاکیزہ مذہب ہے اور اس کی تعلیمات کس قدر حسین ہیں ، کیا بعید کہ اسلام کے نظافت وطہارت اور مسلمانوں کی پاکیزگی وصفائی کو دیکھ کر ان کی مذہب اسلام سے دلچسپی بڑھ جائے اور وہ اپنی باطنی گندگی( کفر وشرک) چھوڑکر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پاکیزہ مذہب اسلام میں داخل ہو جائیں ۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

اشتہارات

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb