Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
emotional labor and silent sacrifices of women

تہواروں کی چمک دمک کے پیچھے خواتین کی جذباتی مشقت اور خاموش قربانیاں

Posted on 08-06-202508-06-2025 by Maqsood

تہواروں کی چمک دمک کے پیچھے
خواتین کی جذباتی مشقت اور خاموش قربانیاں

ازقلم: ڈاکٹرصدیقی نسرین فرحت

عید الاضحی بھارت کی کثیر الثقافتی اور متنوع تہذیبی کہکشاں کا ایک ایسا درخشاں ستارہ ہے جو محض ایک مذہبی تہوار نہیں، بلکہ تاریخ، عقیدت، سماجیات اور معاشیات کا ایک نہایت پیچیدہ اور گہرا امتزاج ہے۔ اس کا بنیادی فلسفہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جانب سے پیش کردہ اطاعت و تسلیم کی بے مثال قربانی کی یاد میں پیوست ہے، ایک ایسا عمل جو ذاتی خواہشات کو امرِ الٰہی کے تابع کرنے کی لازوال علامت ہے۔ تاہم، بھارت کے منفرد سماجی تانے بانے میں اس تہوار کی روح نے عصری معاشرت میں متعدد نئی شکلیں اختیار کر لی ہیں، جہاں روحانیت کے ساتھ ساتھ گنگا جمنی تہذیب کی روایات، معاشی حرکیات اور صنفی کرداروں کی ایک بھرپور داستان بھی جڑی ہوئی ہے۔ اس داستان کا سب سے اہم اور اکثر غیر مرئی کردار بھارتی مسلمان عورت کا ہے، جو اس تہوار کی حقیقی معمار بھی ہے اور اس کی سب سے بڑی کارکن بھی۔ عید الاضحی کی تمام تر رونق، اس کے پکوانوں کی لذت، گھروں کی آراستگی اور رشتوں کی گرمجوشی اسی عورت کے دم سے قائم ہے، لیکن اس کی اپنی ذات ان تمام ذمہ داریوں کے بوجھ تلے اکثر ایک خاموش قربانی کی تصویر بن جاتی ہے۔
اس تہوار کا بیانیہ دراصل دو متوازی دھاروں میں بہتا ہے۔ ایک طرف اس کی مذہبی اور روحانی اساس ہے جو ایثار، تقویٰ اور اللہ کی راہ میں اپنی عزیز ترین شے قربان کرنے کے جذبے کو فروغ دیتی ہے۔ دوسری طرف اس کا سماجی اور ثقافتی پہلو ہے، جو جدید بھارت کی صارفیت (Consumerism) اور سماجی دباؤ (Social Pressure) سے گہرا اثر قبول کر چکا ہے۔ بھارتی خواتین ان دونوں جہانوں کے سنگم پر کھڑی نظر آتی ہیں۔ ان کی تیاریوں کا آغاز محض ذوالحجہ کا چاند نظر آنے سے نہیں ہوتا، بلکہ اس کی منصوبہ بندی مہینوں پہلے سے ذہن کے نہاں خانوں میں شروع ہو جاتی ہے۔ یہ تیاریاں محض ذاتی آرائش تک محدود نہیں ہوتیں، بلکہ یہ ایک وسیع سماجی اور خاندانی نظام کو چلانے کی ایک پیچیدہ مشق ہوتی ہیں۔ آکسفیم انڈیا کی ایک رپورٹ صنفی کرداروں پر بحث کرتے ہوئے واضح کرتی ہے کہ بھارتی خواتین کی غیر اجرت شدہ گھریلو محنت (Unpaid Domestic Labor) کا حجم ملک کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) کے تقریباً 3.1 فیصد کے مساوی ہے۔ عید الاضحی جیسے تہوار اس غیر مرئی معیشت کو اپنے عروج پر پہنچا دیتے ہیں۔
تہوار کی آمد سے قبل گھروں کی صفائی ستھرائی اور تزئین و آرائش ایک ایسی روایت ہے جسے عورت اپنے جمالیاتی ذوق اور سلیقے کا اظہار سمجھتی ہے۔ یہ محض گرد و غبار صاف کرنا نہیں ہوتا، بلکہ گھر کو ایک ایسی نفسیاتی پناہ گاہ میں تبدیل کرنا ہوتا ہے جہاں اہل خانہ اور مہمان خوشی اور سکون محسوس کر سکیں۔ اس کے ساتھ ہی ملبوسات اور زیورات کی خریداری کا مرحلہ شروع ہوتا ہے جو اب محض ایک ضرورت نہیں رہا، بلکہ سماجی حیثیت اور فیشن کے شعور کی علامت بن چکا ہے۔ کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری (CII) کی رپورٹس اس بات کی گواہ ہیں کہ تہواروں کے مواقع پر، جن میں عیدین سرفہرست ہیں، ملبوسات اور لائف اسٹائل مصنوعات کی فروخت میں 150 سے 200 فیصد تک کا اضافہ ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ دہلی کے چاندنی چوک، لکھنؤ کے امین آباد، حیدرآباد کے چارمینار اور ممبئی کی محمد علی روڈ کی مارکیٹوں میں ایک معاشی سرگرمی کا طوفان برپا ہوتا ہے جس کا محور عورت کی قوتِ خرید اور اس کا انتخاب ہوتا ہے۔ موسم گرما میں آنے والی عید الاضحی کے لیے لان اور کاٹن کے دیدہ زیب ڈیزائن، جو کبھی سادگی اور آرام کی علامت تھے، اب ڈیزائنرز کی مہنگی کلیکشنز کی صورت میں سماجی مسابقت کا میدان بن چکے ہیں۔
سماجی نفسیات کے ماہرین اس رجحان کو "سماجی توثیق” (Social Validation) کی ضرورت سے تعبیر کرتے ہیں۔ بھارت کے تیزی سے بڑھتے ہوئے ڈیجیٹل منظرنامے میں سوشل میڈیا، بالخصوص انسٹاگرام اور فیس بک، نے اس دباؤ کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ اب عید کی خوشی ایک نجی معاملہ نہیں رہی، بلکہ یہ ایک عوامی نمائش (Public Performance) بن چکی ہے، جہاں ہر تصویر، ہر لباس اور ہر ڈش کو ہزاروں آنکھیں دیکھتی اور پرکھتی ہیں۔ اس ڈیجیٹل اسٹیج پر بہترین نظر آنے کی خواہش خواتین کو نہ صرف مہنگے ملبوسات خریدنے پر اکساتی ہے بلکہ انہیں اپنی جلد، اپنے بال اور اپنی مجموعی ظاہری شخصیت پر غیر معمولی توجہ دینے پر بھی مجبور کرتی ہے۔ بیوٹی پارلرز کی ہفتوں پہلے سے بکنگ، مہندی کے لیے پروفیشنل آرٹسٹس کی خدمات حاصل کرنا، اور جلد کو تروتازہ رکھنے کے لیے خصوصی خوراک اور ٹوٹکوں کا اہتمام، یہ سب اسی وسیع تر تصویر کا حصہ ہیں۔ ہاتھوں پر سجے مہندی کے پیچیدہ ڈیزائن محض ایک روایت نہیں، بلکہ عورت کے اس جمالیاتی اظہار کا تسلسل ہیں جسے وہ گھر کی دیواروں سے لے کر اپنے وجود تک ہر شے پر ثبت کرنا چاہتی ہے۔
تاہم، اس تہوار کا اصل امتحان قربانی کے دن سے شروع ہوتا ہے۔ جس لمحے قربانی کا گوشت گھر کی دہلیز عبور کرتا ہے، اسی لمحے عورت ایک نئے اور کٹھن محاذ پر ڈٹ جاتی ہے۔ یہ باورچی خانے کا محاذ ہے، جو اب محض کھانا پکانے کی جگہ نہیں رہتا، بلکہ ایک ایسی فیکٹری میں تبدیل ہو جاتا ہے جہاں سے مسلسل انواع و اقسام کے پکوان تیار ہو کر تقسیم اور مہمان نوازی کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔ گوشت کی صفائی، اس کی درست طریقے سے تقسیم، حصہ داروں تک پہنچانا، اور پھر اسی گوشت سے لذت و نفاست سے بھرپور پکوان تیار کرنا ایک ایسی کثیر الجہتی ذمہ داری ہے جس کے لیے غیر معمولی مہارت، جسمانی مشقت اور ذہنی دباؤ درکار ہوتا ہے۔ لکھنؤ کے شاہی اودھی قورمے سے لے کر حیدرآباد کی خوشبودار بریانی تک، اور دہلی کے کبابوں سے لے کر بھوپال کی نہاری تک، بھارتی کھانوں کا تنوع اس دن عورت کے ہنر کا امتحان لیتا ہے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (JNU) سے وابستہ معروف ماہر عمرانیات، پروفیسر نندنی شرما، اپنے ایک مقالے میں لکھتی ہیں کہ بھارتی تہواروں میں کھانا صرف پیٹ بھرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ سماجی رشتوں کو مضبوط کرنے، روایات کو اگلی نسل تک منتقل کرنے اور خاندانی وقار کو قائم رکھنے کا ایک اہم آلہ ہے، اور اس آلے کی ماہر صرف عورت ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان تمام مصروفیات کے دوران عورت کو اپنی خوشی منانے کا موقع ملتا ہے؟ کیا اس کی عید محض دوسروں کی خدمت اور ان کی خوشیوں کو یقینی بنانے میں ہی گزر جاتی ہے؟ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اکثر بھارتی خواتین کے لیے عید کا دن آرام کا نہیں، بلکہ سال کے مصروف ترین دنوں میں سے ایک ہوتا ہے۔ مہمانوں کی آمدورفت، بچوں کی دیکھ بھال، اور باورچی خانے کی نہ ختم ہونے والی ذمہ داریاں اسے اتنا موقع ہی نہیں دیتیں کہ وہ سکون سے بیٹھ کر ان نئے کپڑوں اور تیاریوں سے لطف اندوز ہو سکے جن کا اہتمام اس نے اتنے شوق سے کیا تھا۔ اس صورتحال کو ماہرین نفسیات "جذباتی مشقت” (Emotional Labor) کا نام دیتے ہیں، یعنی اپنے ذاتی جذبات اور تھکن کو پسِ پشت ڈال کر دوسروں کی خوشی اور آرام کے لیے مسکراتے چہرے کے ساتھ خدمات انجام دینا۔ یہ وہ غیر مرئی قربانی ہے جو ہر سال بھارت کے لاکھوں گھروں میں خواتین پیش کرتی ہیں، اور جس کا اعتراف شاذ و نادر ہی کیا جاتا ہے۔
اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ خواتین ان ذمہ داریوں کو بوجھ سمجھتی ہیں یا ان سے فرار چاہتی ہیں۔ ان میں سے اکثر کے لیے اپنے اہل خانہ اور عزیز و اقارب کی خدمت ہی اصل خوشی اور روحانی تسکین کا باعث ہوتی ہے۔ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار، چاہے وہ لذیذ پکوانوں کی صورت میں ہو یا گھر کی سجاوٹ میں، انہیں ایک گہرا احساسِ تفاخر عطا کرتا ہے۔ یہ ان کی محبت، ان کی وابستگی اور ان کے ایثار کا عملی مظہر ہوتا ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب معاشرہ ان کی اس محنت کو ان کا فرض سمجھ کر اس کی قدر کرنا بھول جاتا ہے اور ان کی اپنی ذات اور آرام کو یکسر نظرانداز کر دیتا ہے۔
عصرِ حاضر کے بھارت میں، جیسے جیسے معاشی اور تعلیمی ڈھانچے بدل رہے ہیں، ان روایات میں بھی باریک تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ اب بڑے شہروں میں بہت سے خاندان گوشت کی تیاری اور پکوانوں کے لیے پیشہ ور باورچیوں یا ‘زومیٹو’ اور ‘سوئیگی’ جیسی ایپس کے ذریعے کیٹرنگ سروسز کی خدمات حاصل کرنے لگے ہیں۔ کچھ خواتین وقت بچانے کے لیے فروزن یا ریڈی میڈ مسالوں اور کھانوں کا سہارا لیتی ہیں۔ یہ تبدیلیاں اگرچہ ابھی محدود پیمانے پر ہیں، لیکن یہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ آنے والے وقت میں بھارتی خواتین اپنے کردار کو از سرِ نو متعین کرنے کی کوشش کر سکتی ہیں، تاکہ وہ تہوار کی ذمہ داریوں اور ذاتی خوشیوں کے درمیان ایک بہتر توازن قائم کر سکیں۔
خلاصہ یہ کہ عید الاضحی کا تہوار بھارتی خواتین کے حوالے سے ایک دلچسپ تضاد پیش کرتا ہے۔ وہ ایک ہی وقت میں اس تہوار کی روحِ رواں بھی ہیں اور اس کی گمنام کارکن بھی۔ وہ صارفیت پر مبنی معیشت کی سب سے بڑی محرک بھی ہیں اور غیر اجرت شدہ محنت کے نظام کا اہم ستون بھی۔ وہ اپنی ذات کی نفی کر کے حضرت ہاجرہ کی سعی اور حضرت ابراہیمؑ کے ایثار کی ایک جدید مثال قائم کرتی ہیں، لیکن ان کی اس قربانی کا دائرہ اکثر گھر کی چار دیواری تک محدود رہتا ہے۔ اس تہوار کی حقیقی روح کا تقاضا یہ ہے کہ جس طرح ہم جانور کی قربانی کے فلسفے کو یاد رکھتے ہیں، اسی طرح اس عورت کی بے لوث محبت، لازوال محنت اور خاموش قربانیوں کو بھی تسلیم کریں، سراہا جائے اور بھارت کی جامع اور مشترکہ ثقافت کے علمبردار کے طور پر اس کی خوشیوں کو بھی اتنی ہی اہمیت دی جائے جتنی خاندان کے باقی افراد کی۔ عید کی حقیقی مسرت اجتماعی ہے، اور یہ تبھی مکمل ہو سکتی ہے جب اس کا ہر معمار، بالخصوص عورت، اس جشن میں محض ایک کارکن کے طور پر نہیں، بلکہ ایک معزز اور برابر کی شریک کے طور پر شامل ہو۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

اشتہارات

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb