Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حیات مبارکہ کے کچھ درخشاں پہلو

Posted on 12-06-2025 by Maqsood

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حیات مبارکہ کے کچھ درخشاں پہلو

از قلم: مفتی عمر فاروق حسامی
استاذ حدیث جامعہ اسلامیہ ازہر العلوم للبنات،
خطیب: مسجد و مدرسہ اسلامیہ گلزار مدینہ
Gmail id: omerfarooq5208@gmail.com

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا جہاں بھی نام لیا جاتا ہے، تو ہر مسلمان کے ذہن میں سب سے پہلے خلفائے راشدین کا نام آتا ہے؛ کیوں کہ ان صحابہ کا مقام دیگر صحابہ کے مقابلے میں بہت اونچا ہے، زیر نظر تحریر میں انہیں صحابہ میں سے ایک ایسے صحابی کا تذکرہ ہورہا ہے جن کے تصور سے ہی سخاوت جوش میں آجاتی ہے، صفت حیاء کو تازگی ملتی ہے، جن کی زندگی تواضع و للہیت کا ایک سنہرا باب ہے، جن کے نکاح میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں تھیں، جن سے میری مراد خلیفہ سوم امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں۔
نام و نسب
نام: عثمان، کنیت: ابو عبد اللہ اور ابو عمر، لقب: ذو النورین، والد کا نام: عفان، والدہ کا نام: ارویٰ تھا، سلسلہ نسب اس طرح ہے: عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس قریشی اموی، آپ کی ولادت واقعہ فیل کے چھ سال بعد ہوئی، آپ کی نانی بیضاء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھی، اس لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ماں کی طرف سے نبی کے قریشی رشتہ دار ہیں۔ ( الإصابه فی تمییز الصحابه 4/377)
اسلام
جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ایمان لائے، تو انہوں نے اپنے دوستوں پر اس دین کے متعلق محنت کی، جس کی بدولت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی حلقہ بگوش اسلام ہوگئے، اور ابن اسحاق رحمہ اللہ نے کہا: کہ مردوں میں چوتھے نمبر پر یہ مسلمان ہوئے ہیں۔(تاریخ الخلفاء، ص:119)
ذوالنورین
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو وہ شرف حاصل ہوا جس کی وجہ سے دنیا انہیں یاد رکھتی ہے، یعنی یکے بعد دیگرے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں ان کے نکاح میں آئیں، سب سے پہلے حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا جو کہ ابو لہب کے بیٹے عتبہ کے نکاح میں تھیں، لیکن اسلام دشمنی کی وجہ سے ابو لہب نے اپنے بیٹے پر دباؤ ڈال کر طلاق دلوادی، اس کے بعد وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں، جب غزوہ بدر کا موقع آیا تو ان کی طبیعت بہت ناساز تھی، جس کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنی اہلیہ کی تیمار داری کے لیے مدینہ ہی میں رکنے کا حکم دیا، اور فرمایا: إِنَّ لَكَ أَجْرَ رَجُلٍ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا، وَسَهْمَه. ترجمہ: تمہارے لیے بدر میں شریک ہونے والے کے برابر اجر ہوگا، اور مال غنیمتمیں حصہ بھی۔(بخاری، حدیث نمبر: 3698) بالآخر وہ مدینہ ہی میں رکے رہے؛ لیکن مرض ختم نہیں ہوا، اور چند روز بعد ہی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوگیا، انتقال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو ان کے نکاح میں دیا، جس کی وجہ سے آج امت مسلمہ انہیں ذو النورین (دو نور والا) کہتی ہے۔
فضائل
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ بے تکلف لیٹے ہوئے تھے، اس طرح کہ آپ کی ران یا پنڈلی ہلکی سی کھلی ہوئی تھی، حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما تشریف لائے تو آپ اسی طرح لیٹے رہے؛ لیکن جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حاضری کی اجازت چاہی تو اٹھ کر بیٹھ گئے، اور اپنے کپڑوں کو درست کرلیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بعد میں اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا: أَلَا أَسْتَحِي مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ. ترجمہ: کیا میں اس شخصسے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے حیاء کرتے ہیں۔ (مسلم، حدیث نمبر: 2401)
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: لِكُلِّ نَبِيٍّ رَفِيقٌ وَرَفِيقِي يَعْنِي فِي الجَنَّةِ عُثْمَانُ. ترجمہ: ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے، اور جنت میں میرے رفیق عثمان ہیں۔ (ترمذی، حدیث نمبر: 3698)
سخاوت
مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد لوگوں کو پانی کی سخت تکلیف ہورہی تھی؛ کیوں کہ وہاں بیر رومہ نامی ایک کنواں تھا، جس کا مالک یہودی تھا، اور وہ مسلمانوں کو مہنگے داموں میں پانی فروخت کرتا تھا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی سخاوت کے جذبہ کو جوش میں لاتے ہوئے اس کنویں کو خطیر رقم میں خرید کر مسلمانوں کے لیے اسے وقف کردیا، جس کے متعلق نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: مَنْ يَحْفِرْ بِئْرَ رُومَةَ فَلَهُ الجَنَّةُ. جو بیر رومہ کو کھودے گا اس کے لیے جنت ہے، تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے کھودا تھا۔ (بخاری، باب مناقب عثمان بن عفان )
اسی طرح جب غزوہ تبوک کا موقع آیا تو اس غزوہ کی امداد کے لیے آپ صلى اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ابھار رہے تھے، تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، اور فرمایا: سو اونٹ مع ساز سامان اللہ کے راستے میں میرے ذمے ہیں، تھوڑی دیر بعد فرمایا: دو سو اونٹ مع ساز و سامان اللہ کے راستے میں مَیں اپنے ذمے لیتا ہوں، پھر جب آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو امداد کے لیے ابھارا تو پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کے راستے میں تین سو اونٹ مع ساز وسامان کے میں اپنے ذمے لیتا ہوں، اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس عمل کے بعد عثمان جو بھی کریں، انہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا، یہ جملہ آپ نے دو مرتبہ ارشاد فرمایا۔ مشکوۃ، حدیث نمبر: 6072) ابو عمرو نے فرمایا کہ حضرت عثمان نے اس غزوے میں نو سو پچاس اونٹ دیئے، اور پچاس گھوڑے دیے تاکہ ہزار پورے ہوجائیں۔ (توضیحات شرح مشکوۃ 8/412)
خوف الٰہی
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر کے پاس سے گزرتے تو اس قدر روتے کہ داڑھی مبارک تر ہوجاتی، تو لوگ کہتے کہ جنت و جہنم کے تذکرے سے آپ نہیں روتے؛ لیکن قبر کے پاس ٹھہر کر اس طرح روتے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے، اگر اس سے نجات پاگیا تو بعد کی منزلیں آسان ہوجائیں گی، اور جو اس سے نجات نہیں پایا تو بعد کی منزلیں اس کے لیے سخت ہوجائیں گی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے قبر کے منظر سے زیادہ بھیانک کوئی منظر نہیں دیکھا۔ (مشکوۃ، حدیث نمبر: 132) یہی ایک حدیث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے تقوے کو جانچنے کے لیے کافی ہے کہ عشرہ مبشرہ میں سے ہونے کے باوجود اس قدر عذاب قبر کا خوف تھا کہ روتے روتے داڑھی تر ہوجاتی تھی، اللہ عز وجل ہمیں بھی اس نوعیت کا تقوی عطا فرمائے، آمین۔
جمع قرآن
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے بارہ سال کی خلافت میں بہت سے انوکھے کام انجام دیے جن کا تاریخ کی کتابوں میں نمایاں مقام ہے؛ لیکن ان کے دور خلافت میں ایک ایسا کام پائے تکمیل کو پہنچا جس کو زمانہ کبھی فراموش نہیں کرسکتا، اور وہ ہے جمع قرآن کا کارنامہ، یعنی قرآن أصلا قریش کی لغت پر نازل ہوا تھا، لیکن ہر قبیلہ کے لیے لغت قریش میں قرآن کو محفوظ کرنا دشوار ہورہا تھا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سات زبانوں میں قرآن کو پڑھنے کی اجازت دے دی؛ لیکن جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا کہ لوگوں میں قرأت کی وجہ سے اختلاف ہورہا ہے، اور اگر قرآن مجید کو ایک لغت پر جمع نہ کیا گیا تو یہ مسلمانوں کے درمیان اپنی کتاب کے متعلق شدید اختلاف پیدا ہوجائے گا، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے توجہ دلانے کے بعد امیر المومنین نے ایک ٹیم تیار کی، اور قرآن مجید کو لغت قریش پر جمع کرکے چند مصاحف تیار کروائے، اور تمام ملک میں اس کی اشاعت کی، اور یہ اعلان کروادیا کہ سب لوگ اسی نسخے سے نقل کریں گے، اور پرانے مختلف نسخوں کو مٹا دیا گیا، اسی کارنامے کی وجہ سے آج قرآن مجید مصحف کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے، تفصیل بخاری شریف باب جمع القرآن میں موجود ہے۔
شہادت
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی بتادیا تھا کہ تم شہید ہوگے، چنانچہ خلافت کا جب بارواں سال چل رہا تھا تو باغیوں نے چالیس دن تک آپ کے مکان کا محاصرہ کیا، اور آپ پر بہت زیادہ ظلم کرتے رہے؛ لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صبر وتحمل سے کام لیا، اب آخر کار جام شہادت نوش کرنے کا وقت آگیا تھا، 18 ذی الحجہ کی تاریخ تھی کہ آپ مالک حقیقی سے جاملے شہادت کے وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے، اور جس آیت پر ان کا خون گرا وہ آیت فَسَیَكْفِیْكَھُمُ اللّٰہُ، وَ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ تھی کہ اللہ ان کے مقابلے میں آپ کے لیے کافی ہے، اور وہ بہترین سننے والا جاننے والا ہے۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

اشتہارات

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb