Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
The world is a prison for the believer!

دنیا مؤمن کے لیے قید خانہ ہے!

Posted on 19-06-202519-06-2025 by Maqsood

دنیا مؤمن کے لیے قید خانہ ہے!

از قلم: محمد نثار عبدالرشید پربھنی

آہ ! اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ، اسی عبادت و بندگی کو سکھانے کے لیے انبیاء و رُسل کو بھیجا اور اپنی کتابیں نازل کیں، زندگی گزارنے کا طریقہ بتایا اور انبیاء نے اُن باتوں پر عمل کرکے بتایا ، انبیاء علیہم السلام نے اپنی تعلیم کے ذریعہ یہ بات بھی سمجھائی کہ دنیا کی زندگی فانی اور آخرت دائمی ہے، اس فانی اور مختصر زندگی کو اللہ نے اپنے احکامات کا پابند بنادیا کہ ان پابندیوں کو اللہ کی رضا کے لیے بسر و چشم قبول کرلو اور خود کو ان احکامات کا پابند بنالو۔
اس مختصر زندگی کی پابندیاں ، آزمائشیں اور مشقتیں ایک دن ختم ہوجائے گی اور پھر آخرت کی دائمی زندگی خوش گوار بن جائے گی ؛ اللہ اور اُس کے رسول سے زیادہ انسانیت کا کوئی خیرخواہ نہیں ہوسکتا ، ان پابندیوں کا مقصد کسی کو مشقت میں ڈالنا نہیں ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ ان آزمائشوں سے یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون اس کے نام پر یہ ساری مشقتیں برداشت کرکے اُس کی اطاعت کرتا ہے ؛ تا کہ اُس کے بدلے میں دائمی انعام (جنت کی شکل میں) دیا جائے ، دُنیا کی عارضی مشقتیں برداشت کرنے کا انعام دائمی اور ہمیشہ کے لیے ملنے والی راحت ، سکون اور عزت ہے ، تو یہ کتنا سستا سودا ہے ؛ لیکن یہ بات ایک حقیقی مؤمن ہی سمجھ سکتا ہے ، اِسی لیے وہ اللہ اور اُس کے رسول کی رضا کے لیے اپنی ساری خواہشات کو بالائے طاق رکھ دیتا ہے ، مؤمن دُنیا کی اِن آزمائشوں میں بھی راحت وسکون حاصل کرتا رہتا ہے اور اُس آزمائش کو من جانب اللہ سمجھ کر دِل وجان سے اللہ ورسول کی اطاعت میں لگا رہتا ہے۔ ایک مشہور مقولہ ہے ؎
تکلیف کے ڈر سے نیکی نہ چھوڑ ، تکلیف جاتی رہے گی نیکی باقی رہے گی
یعنی لذت کے شوق میں گناہ نہ کر ! لذت جاتی رہے گی گناہ باقی رہے گا۔

دنیا کی حیثیت اور تمثیلی تصویر
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور رسول اللہ ﷺ نے اپنے اعمال و اقوال کے ذریعے مختلف انداز میں دنیا کی مثالیں دی ، دنیا کی بے ثباتی اور اس کا فانی ہونا بتایا ، اس کی ایک مثال یہ دی کہ دنیا کو مؤمن کے لیے ایک قید خانہ کی مانند بتایا گیا ؛ چناں چہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے : "الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ” (صحیح مسلم ، حدیث 2956:)
ترجمہ: دنیا مؤمن کے لیے قیدخانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔
” سجن المومن “ اِس حدیث کے دو مفہوم بیان کیے گئے ہیں پہلا مفہوم یہ ہے کہ دُنیا مؤمن کے لیے قید خانہ کی طرح کا مطلب یہ ہے کہ مومن کے لیے اللہ تعالیٰ نے آخرت میں جو عظیم نعمتیں اور بڑا ثواب اور اجر عظیم تیار کیا ہے اس کے مقابلے میں مومن کے لیے دنیا کی زندگی قید خانہ کی طرح ہے اگرچہ وہ دنیا میں آسائش کی زندگی گزارتا ہو اِسی طرح کافر کے لیے آخرت میں طرح طرح کے عذابات تیار کیے گئے ہیں اس کے مقابلے میں کافر کے لیے دنیا کی زندگی ایسی ہے جیسے وہ جنت میں رہ رہا ہو اگرچہ اس کو یہاں تکلیف بھی ہواور مصیبت میں پڑا ہو، اِسی حقیقت کے پیش نظر ایک دفعہ ایک غریب یہودی نے حضرت حسنؓ سے کہا کہ آپ کے نانا جان کا یہ قول کہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے میری اور آپ کی حالت پر کیسے صادق آسکتا ہے کیونکہ تم گھوڑے پر سواری کرتے ہو عیش وعشرت کی زندگی گزارتے ہو اور میں مصائب و آلام اور تکالیف و بیماری سے بھر پور زندگی گزارتا ہوں؟ اس کے جواب میں حضرت حسنؓ نے مندرجہ بالا مفہوم بیان فرمایا کہ آخرت کے مصائب کے مقابلے میں تم یہاں دنیا میں جنت میں ہو۔ اس حدیث کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ دنیا مومن کے قید خانہ ہے کیونکہ ہر ہر لمحہ مومن اس دنیا احتیاط کے ساتھ گزارتا ہے قدم قدم پر اس کے لیے پابندیاں ہیں اور وہ انتہائی پابندی کی زندگی گزارتا ہے گویا یہ دنیا اس کےلیے قیدخانہ ہے اور وہ اس میں قیدی کی حیثیت سے زندگی گزاررہا ہے اور یہ نعرہ لگا رہا ہےکہ بابر بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
ملا علی قاریؒ نے لکھا ہے کہ یہ دوسرا مفہوم زیادہ واضح اور حدیث کے مطابق ہے، اس کی تائید مشہور بزرگ حضرت فضیل بن عیاضؒ کے قول سے بھی ہوتی ہے آپ نے فرمایا، ترجمہ: جس نے دنیا کی لذتوں اور خواہشات کو چھوڑدیا وہ قید میں ہے، لیکن جو اس کی لذتوں کو نہیں چھوڑتا وہ کس قید میں ہے؟ (تحفۃ المنعم شرح مسلم ج ۸ صفحہ۴۹۵)
اس حدیث میں دنیاوی زندگی کو قید خانہ سے جو تشبیہ دی گئی ہے وہ باہم ایک دوسرے سے بہت زیادہ مطابقت رکھتے ہیں ،
آئیے ہم اسی کو سمجھیں کہ اس میں کیا حکمتیں اور نکات پوشیدہ ہیں ؟

(۱) قید میں آزادی محدود تو دُنیا میں بھی آزادی محدود:
جس طرح ایک قیدی جیل کے قوانین اور عملے کا پابند ہوتا ہے ، وہاں اُس کی اپنی مرضی نہیں چلتی ؛ بالکل اسی طرح مؤمن اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کا پابند ہوتا ہے ، وہ اپنے تمام اعمال وافعال ، عبادات ، معاملات ، اخلاق و معاشرت سب میں اللہ کے احکام کا پابند بناکر ؛ گویا خود کو ان کی حدود میں مقید مانتا ہے ؂
تقدیر کے پابند ہیں نباتات و جمادات
مومن فقط احکامِ اِلٰہی کا ہے پابند

(۲) جیل میں قیدی کا سامان بہت مختصر ہوتا ہے:
سونے کے لیے بستر ، لباس اور ضرورت کا مختصر سامان یہی ایک قیدی کی کل کائنات ہوتی ہے اور اُسی میں کئی سال اپنا گزارہ کرتا ہے ۔ اگر ایسا ہے تو ۔۔
بالکل یہی ایک مؤمن کا طرّہ امتیاز ہونا چاہیے ؛ کیوں کہ تمام انبیاء و رُسل اور ہمارے نبی ﷺ کاطرز زندگی اسی کے مشابہ تھا، اگر ہم قرآنِ کریم اور سیرت کا معالعہ کریں تو ہمیں نظر آئے گا کہ آپ ﷺ کا طرزِ زندگی کتنا سادہ تھا ؛ لہٰذا آپ کا گھر، بستر، لباس ، سواری ، آلاتِ حرب وضرب اور دیگرضرورت کے مختصر سامان کے علاوہ کچھ اور نہیں ملے گا ۔
سیرت نگار ، محدثین ومفسرین نے اپنی کتابوں میں اِسی کی تفصیل لکھی ہے(وہاں دیکھ لیا جائے)، اور اپنے ارشادات میں بھی اِسی کی تلقین کی ہے ؛ غرض اِسی طرح تمام خلفائے راشدین وصحابہ ؓ، تابعین، تبع تابعین، نیز فقہاء ، محدثین و دیگر اسلاف سبھوں کی زندگی میں اگر دیکھا جائے تو ہر ایک قناعت پسند، سادگی اور زاہدانہ زندگی گزارنے والے تھے ، جن کے بارے میں تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔
نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں
کہ پایا میں نے استغناء میں معراجِ مسلمانی

(۳) کھانا نہایت سادہ:
دو وقت کا کھانا ، ناشتہ جو نہایت سادہ ہوتا تھا ، جس کے بارے میں اگر تفصیل سے بتاؤں تو ڈرلگتا ہے کہ کہیں ناشکری نہ ہوجائے (آج کے حالات میں بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جن کو یہ کھانا بھی میسر نہیں)صرف اشارہ کردینا کافی سمجھتا ہوں اور ممکن ہے کہ میرے اس اشارہ سے آپ اس کی ہیئت سمجھ جائیں گے ۔
اِس کی تفصیل لکھنا ضروری بھی نہیں ہے ، ہمیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ اس سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے ؟ ایک مؤمن کا کھانا بھی ایسا ہی ہونا چاہیے ، وہ کھانا اپنی ضرورت کے درجہ میں کھاتا ہے ؛ نہ کہ لذت کے لیے ۔ اور سیرت میں ہم دیکھیں کہ رسول اللہ ﷺ کا کھانا کیا تھا ؟ اکثر تو گھروں میں چولہا ہی نہیں جلتا تھا ؛ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں : ہم آل محمد ﷺ ا یسے تھے کہ ایک ایک مہینہ چولہا نہیں جلاتے تھے ، ہمارا گزر بسر صرف کھجور اور پانی پر ہوتا تھا۔ (ترمذی: حدیث۲۴۷۱)

(۴) قید کی زندگی مشقت والی ، دُنیا بھی آزمائش گاہ:
جس کسی کو جیل کی زندگی سے واسطہ پڑا ہے وہ جانتا ہے کہ وہ کس قدر مشقت کی جگہ ہے ، اِسی طرح دُنیا کی زندگی ایک مؤمن کے لیے مشقت بھری ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ حق کے لیے سرگرداں رہتا ہے ، اللہ کے راستے میں جدوجہد کرتا رہتا ہے اور اللہ کی رضا کے لیے اپنی خواہشات کو روند ڈالتا ہے جس سے اُس کو مشقت تو ہوتی ہے؛ لیکن وہ اُس مشقت کو من جانب اللہ اور عارضی سمجھ کر سہہ جاتا اور اِسی طرح کے مشقت والے اعمال پر ہمت اور استقلال سے جمے رہتا ہے اور اِسی جمے رہنے کا نام صبرہے جس پر اُس کو آخرت میں بہترین بدلہ ملے گا ، قرآن کریم میں صبر کرنے پر بڑے اجر کا وعدہ کیا گیا ہے ، ایک جگہ ارشاد ہے : اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے(سورہ بقرہ ۱۵۳:) دوسری جگہ کہا گیا کہ اللہ صبر کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے (آل عمران ۱۴۶:)
غرض اور بہت سے انعامات کا وعدہ کیا ہے جس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں ، جب اتنے سارے انعامات کا جو وعدہ ہے تو وہ اِسی مشقت کو اللہ کے لیے برداشت کرنے پر ہے ، اور ایک سچا مؤمن ہی اس کو اپنے اعمال وافعال سے کرکے بتاتا ہے ۔
یہ دُنیا کی زندگی کافر کے لیے جنت ہے اور وہ اپنی ساری جدوجہد اِسی دُنیا کو جنت بنانے کے لیے کرتا ہے ، ہر طرح کی خواہش کو پورا کرتا ہے ؛ گویا وہ خود کو ہر بات میں آزاد سمجھتا ہے اور اپنی ہر خواہش کو پورا کرتا ہے۔

(۵) جیل اور دُنیا ایک عارضی قیام گاہ
جس طرح جیل ایک قیدی کے لیے عارضی قیام گاہ ہے ؛ بعینہٖ دُنیا کو بھی ایک مؤمن عارضی قیام گاہ تصور کرتا ہے، ویسے تو تمام ہی انسانوں کے لیے دُنیا عارضی ٹھکانہ ہے ؛ لیکن عملی طور پر ایک مؤمن ہی اُس کو عارضی سمجھ کر اُس کی ظاہری چمک دمک سے دھوکہ نہیں کھاتا ، اور اپنی زندگی کو دُنیا کے معمولی ساز و سامان اور سادگی کے ساتھ گذارتا ہے ؛ چناں چہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا شانہ پکڑ کر فرمایا دُنیا میں اس طرح ہوجا جیسے تو مسافر یا راستہ چلنے والا ہو (بخاری شریف ،حدیث6416:) اِسی نوع کی ایک اور حدیث میں ارشاد ہے کہ دُنیا میں اس طرح رہو جیسے کوئی مسافر یا راہ گذر ہوتا ہے ۔(مسند احمد) ایک اور روایت میں ہے حضرت سلمان فارسی ؓ کا جب آخر وقت قریب آیا تو وہ رونے لگے اور فرمانے لگے کہ نبی ﷺ نے ہم سے عہد لیا تھا اور اِسی عہد پر ہمیں چھوڑا تھا کہ دُنیا میں زیادہ سے زیادہ سامان ہمارے پاس ایک مسافر کے توشے جتنا ہونا چاہیے۔ (مسند احمد)
ہم اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ایک مسافر اپنے ساتھ کتنا سامان لے سکتا ہے، اگر وہ زیادہ سامان اپنے ساتھ لیتا ہے تو وہ(سفر میں) اُس کے لیے راحت کے بجائے مصیبت بن جائے گا۔

(۶) جیل سے جلد رہائی کی تمنا :
ایک قیدی جیل سے جلد رہائی کی تمنا کرتا ہے اور اپنے گھر جلد جانا چاہتا ہے اور اس کے لیے تن من کی بازی لگاتا ہے اور کسی طرح بالآخر اُس سے رہائی حاصل کرتا ہے ، جب رہائی کی خبر سنتا ہے تو اُس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا ، خوشی خوشی اپنے گھر روانہ ہوتا ہے ، اور جب باہر نکلتا ہے تو اپنا سارا ساز و سامان (جو اُس کے استعمال میں تھا) دوسروں کو دیدیتا ہے اور سب چھوڑ کر اپنے گھر چلا جاتا ہے۔ بالکل اِسی طرح ایک مؤمن اپنے اصلی گھر (آخرت اور اللہ سے ملاقات) کا شوق رکھتا ہے اور اس کے لیے عمل کرتا ہے ، چاہتا ہے کہ دُنیا کے قفس سے اور اس کے فتنے سے جلد چھٹکارا پالیں۔ روایت میں مؤمن کی روح نکلنے کا منظر بھی کچھ اِسی طرح ہوتا ہے کہ روح نکلتے وقت اُس کی روح جلد نکل جاتی ہے ؛ گویا دُنیا کی زندگی اُس کے لیے تھی ہی نہیں، اِس کے بالمقابل کافر کی روح نکلتے وقت جسم میں اِدھر سے اُدھر گھومتی رہتی ہے اور فرشتے اُس کے منہ اور پشت پر ضرب لگا کر اُسے نکالتے ہیں جو بہت ہی مشقت سے نکلتی ہے ؛ گویا اُس نے اپنی دُنیا ہی کو مستقل ٹھکانہ سمجھ لیا تھا۔
حضرت وائود طائی کا انتقال ہوگیا تو ایک غیبی آواز آئی کہ اطلق دائود من السجن کہ دائود طائی جیل سے رہا کردیا گیا۔
کسی نے کیا خوب فرمایا ہے:
کون کہتا ہے کہ مومن مرگیا
قید سے چھوٹا وہ اپنے گھر گیا
(تحفۃ المنعم شرح مسلم ج ۸ صفحہ۴۹۵)
کاش ! ہماری دُنیا کی زندگی بھی جیل کی زندگی کی طرح ہوجائے تو تمام خواہشات ختم ہوجائیں اور آخرت میں جواب دہی کا خطرہ بھی نہ رہے ؂
عجب یہ زندگی کی قید ہے دُنیا کا ہر انساں
رہائی مانگتا ہے اور رہا ہونے سے ڈرتا ہے

دنیا کے پردیس میں فکرِ آخرت سے غافل نہ ہو !
نقاشِ قدرت نے روزِ اول سے اس دنیا کی فطرت میں فنائیت و بے ثباتی ودیعت فرمائی ہے ، اس کو پائیداری اور بقا نہیں ، اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے ، وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰی (سورہ اعلیٰ 17:)
پس اپنے دل کی سوئی کو دنیا کی رنگینیوں ، ظاہری چمک دمک اور عارضی آسائشوں کے بجائے آخرت کی حقانیت و صداقت کی جانب پھیرنا چاہیے ؛ کیوں کہ جب دنیا فانی ہے تو یہاں پیش آنے والے حالات و حوادثات بھی عارضی ہیں ؛ البتہ ان پر صبر کرنا ، ہمت کرکے ان کو برداشت کرنا اور خدا تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کو ہر دم پیش نظر رکھنا ہی شانِ عبدیت اور مزاجِ بندگی ہے ۔
چناں چہ دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کے وقوع کا استحضار پیدا کرنے کے لئے چند باتوں کی پابجائی (ان شاء اللہ) مقصد کی تحصیل میں معاون ثابت ہوں گی :
(۱) ہمارے نبی ﷺ کی زندگی ہمارے لیے بہترین اُسوہ ونمونہ ہے، قرآن میں ہے لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا لہٰذا ہم سیرت اور شمائل کا مطالعہ کریں اور اس کو اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنائیں۔
(۲) دنیا کی حقیقت پر غور کریں ۔
(۳) موت اور آخرت کا کثرت سے تذکرہ کریں ۔
(۴) قبرستان کی زیارت اور جنازوں میں شرکت کا اہتمام کریں ۔
(۵) ایسے لوگوں کی ہم نشینی اور صحبت اختیار کرنا کہ جن کی یاری سے خدا یاد آئے اور آخرت کی یاد تازہ ہو ۔
(۶) اہل اللہ اور خاصانِ خدا کی فکرِ آخرت اور دنیا سے بے رغبتی کا مطالعہ کریں ۔
(۷) دنیا میں مسافریا رہ گذر کی طرح زندگی گذارنے کے لئے دعاؤں کا اہتمام کریں ؛ جیسے اس دعا کا اہتمام کریں:
اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ الدُّنْيَا أَكْبَرَ هَمِّنَا وَلَا مَبْلَغَ عِلْمِنَا
(ترجمہ: اے اللہ! دنیا کو ہمارا برا مقصد نہ بنا ، اور نہ ہمارے علم کی انتہا بنا (کہ ہمارا سارا سیکھنا سکھانا صرف دنیا کی خاطر ہو)
(۸) دنیا میں آنے کے مقصد پر غور کریں ۔ إِنَّ الدُّنْيَا خُلِقَتْ لَكُمْ، واِنَّكُمْ خُلِقْتُمْ لِلْآخِرَة ۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ عقل مندی کا تقاضہ یہی ہے کہ بازارِ دنیا میں رہ کر بازارِ آخرت سے غافل نہ ہو ؛ جیسا کہ نبی ﷺ کا ارشاد گرامی قدر ہے :
الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ
(سنن ابن ماجہ: کتاب الزھد 4260: )
ترجمہ: عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے، اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے ۔
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوةً طَیِّبَةً ۚ وَ لَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ O(سورہ النحل 97:)
ترجمہ: جس شخص نے بھی مومن ہونے کی حالت میں نیک عمل کیا ہوگا ، چاہے وہ مرد ہو یا عورت ، ہم اُسے پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور ایسے لوگوں کو ان کے بہترین اعمال کے مطابق ان کا اجر ضرور عطا کریں گے۔
اس سرابِ زندگی کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ ! اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

اشتہارات

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb