Skip to content
برکس+میں ہندوستانی اور ایرانی سفارتکاری
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
عالمی سطح پر منعقد ہونے والے اجلاس اور ان کے اعلامیے ایک بیرومیٹر کی مانند ہر ملک کے سفارتی دبدبہ کے مظہر ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں یکے بعد دیگرے کئی بین الاقوامی اجلاس کا انعقاد ہوا۔ جی ۷ ممالک کےکینیڈا میں جمع ہوئے جہاں بڑی منت سماجت کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کو شرکت کاموقع نصیب ہوا اور اب برازیل کے اندربرکس +کا سربراہی اجلاس ہو جہاں وہ حق کےساتھ گئے۔ جی ۷ کے اجلاس میں مودی جی تقریر نہیں کرسکے کیونکہ ہندوستان اس کا باقائدہ رکن نہیں ہے ۔ مودی جی مشاہد کے طور شریک ہوئے اوررابطے( آوٹ ریچ) کے اجلاس میں خطاب فرمایا۔ وہاں پر وزیر اعظم نے اپنے ’ من کی بات‘ اسی طرح رکھی جیسے بہار کے کسی انتخابی جلسہ کو مخاطب کرکے رکھتے ہیں۔ وہ بولے’’ پہلگام دہشت گردانہ حملہ صرف ہندوستان نہیں بلکہ پوری انسانیت پر حملہ تھا۔ انہوں نے دہشت گردی کی حمایت اور فروغ دینے والے ممالک کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا‘‘۔مودی نے اپنے خطاب میں پاکستان کا نام لینے کی جرأت تو نہیں کی مگر اشارے کنائے میں کہا کہ ہندوستان کا ہم سایہ ملک دہشت گردی کی افزائش کا میدان بنا ہوا ہے نیز اس کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ بھی کردیا ۔
جی ۷ اجلاس میں وزیر اعظم نے صاف صاف کہا تھا کہ دہشت گردی سے نمٹنے میں دوہرا معیار نہیں ہونا چاہیے اور دہشت گردی کی حمایت کرنے والوں کو کبھی انعام نہیں دیا جانا چاہیے۔اس واضح اشارے کے باوجود پاکستان کو پہلے آئی ایم ایف اور پھرایشین ڈیولپمنٹ بنک سے قرض کی سہوت دی گئی۔اس کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک مہینے کے لیے سربراہ بنانے کے علاوہ انسدادِ دہشت گردی کے لیے تشکیل شدہ کمیٹی کی صدارت سونپ دی گئی۔ اس کے معنیٰ تو یہی ہوئے کہ بیچارے مودی جی کی صدابصحرا ثابت ہوئی ۔ پہلگام حملے کے حوالے سےموصوف نے مندرجہ ذیل سوالات کیے :’’ کیا ممالک دہشت گردی سے پیدا ہونے والے سنگین خطرے کو تب ہی سمجھیں گے جب وہ خود اس کا نشانہ بنیں گے؟دہشت گردی کے مجرم اور اس کے متاثرین برابر کیسے ہوسکتے ہیں؟کیا عالمی ادارے دہشت گردی کے خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟کیا عالمی اداروں کو اپنا اعتماد گنوانے کا خطرہ لاحق نہیں ہے ؟ مودی نے بڑی دردمندی سے فرمایا :’’اپنے ذاتی مفاد کی خاطر دہشت گردی کو نظر انداز کرنا یا دہشت و دہشت گردوں کی حمایت پوری انسانیت سے دھوکہ ہے۔ ہم اگر آج دہشت گردی کے خلاف کھڑے نہیں ہوئے تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ مودی جی علامہ اقبال کی مانند پر امید تھے؎
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
آگے چل جی ۷ ممالک کا جو اعلامیہ جاری ہوا اس نے وزیر اعظم مودی کی اثر پذیری کا پول کھول دیا ۔ اس میں کہا گیا :’’ہم، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے G7 وزرائے خارجہ نیز یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندے، 22 اپریل کو پہلگام میں ہونے والے خوفناک دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے کیونکہ بے قصور لوگوں کی ہلاکت یقیناً قابلِ مذمت ہے لیکن مودی جی کے منشاء کے مطابق آگے پاکستان کی مذمت تو نہیں کی گئی الٹا ان کی مرضی کے خلاف دونوں کو ہم پلہ قرار دیتے ہوئے ہندوستان اور پاکستان دونوں سے بیش ازبیش تحمل سے کام لینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا گیا کہ :’’ مزید فوجی کشیدگی علاقائی استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ ہمیں دونوں طرف کے شہریوں کے تحفظ کے لیے گہری تشویش ہے۔ہم فوری طور پر کشیدگی میں کمی کا مطالبہ کرتے ہیں اور دونوں ممالک کو پرامن نتیجہ کے لیے براہ راست بات چیت میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ہم واقعات کی قریب سے نگرانی کرتے رہتے ہیں اور ایک تیز و دیرپا سفارتی حل کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کرتے ہیں‘‘۔ یہ اعلامیہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ مودی جی کا محنت رائیگاں گئی ۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے جی ۷ کے بعد برکس سربراہی اجلاس میں شرکت کی اب اس کا مشترکہ اعلامیہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔اس میں کہا گیا، "ہم 22 اپریل 2025 کو جموں و کشمیر میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، جس کے دوران 26 افراد ہلاک اور بہت سے زخمی ہوئے تھے۔”اس میں مزید کہا گیا، "ہم دہشت گردوں کی سرحد پار نقل و حرکت، دہشت گردی کی مالی معاونت اور محفوظ پناہ گاہوں سمیت دہشت گردی کی تمام شکلوں اور مظاہر سے نمٹنے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔” یہ سب تو ٹھیک ہے مگر مودی پہلگام واقعے میں پاکستان کا نام شامل کروانے کی بھرپور کوشش کرنے کے باوجود نا کام رہے۔ برکس اعلامیے میں الفاظ مکمل طور پر غیر جانبدار نظر آئے حالانکہ وہاں پاکستان موجود نہیں تھا۔یہ سفارتی ناکامیوں کا تسلسل ہے۔ اس سے قبل فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) میں بھی پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کی ہندوستانی کوشش بار آور نہیں ہو سکی ۔ الٹا مودی جی کے قریبی دوست ٹرمپ نے پاکستانی فیلڈ مارشل عاصم منیر کو قصرِ ابیض میں ظہرانے کے بعد ’عظیم انسان‘ کہہ کر مودی جی کے زخموں پر نمک چھڑک دیا کیونکہ انہیں تو ایسے لقب سےنہیں نوازہ گیا۔
جی ۷ اور برکس کے درمیان قواد اور شنگھائی تعاون تنظیموں کےاجلاس ہوئے۔ 26 جون کو چین میں منعقد ہونے ایس سی او اجلاس میں پاکستان اور ہندوستان دونوں کے وزرائے دفاع بھی موجود تھے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اعلامیے میں بھی ہندوستان کی پاکستان مخالف کوشش ناکامی سے دوچار ہو گئیں ۔ پہلگام واقعہ کو پاکستان سے جوڑنے پر کسی ملک نے ہندوستان کے موقف کی حمایت نہیں کی بلکہ اس کا ذکر کرنا تک گوارہ نہیں کیا ۔ اس کے برعکس بلوچستان کے اندر ہونے والی دہشت گردانہ حملے کی مذمت کردی گئی ۔ چین میں غزہ پر اسرائیل کی مذمت بھی ہندوستان کے گلے سے نہیں اتری لیکن کسی نے اس کی پروا نہیں کی اور ہندوستان تنہا ہوگیا۔ اس طرح ناراض ہندوستانی وزیر خارجہ راجناتھ سنگھ نے اعلامیہ پر دستخط کرنے سے انکار کردیالیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ اعلامیہ جاری ہوگیا ۔ حد تو اس وقت ہوگئی جب قواڈ کے واشنگٹن میں منعقدہ اجلاس کے اندر بھی وزیر خارجہ جئے شنکر کی دال نہیں گلی۔وہاں تو صرف امریکہ، آسٹریلیا، ہندوستان اور جاپان کے نمائندے موجود تھے نہ پاکستان تھا اور نہ چین اس کے باوجود پہلگام کا ذکر اور دہشت گردی کی مذمت تو ہوئی مگر مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان کا نام نہیں آیا۔
2009میں جب برکس نامی وفاق بنا تو اس میں جنوبی افریقہ بھی نہیں تھا مگر ہندوستان موجود تھا ۔ 2023کے اندر برکس میں مزید پانچ ممالک کو شامل کرکے برکس +بنایاگیا تو ایران سمیت سعودی عرب، متحدہ عرب امارات ، مصر اور ایتھوپیا یعنی حبشہ شامل ہوگئے اور اب تو خیرانڈونیشیا بھی رکن بن چکا ہے۔ 2024 میں پہلی بار رکن کی حیثیت ایران نے سربراہی اجلاس میں شرکت کی مگر اس بار اعلامیہ میں وہ اپنے خلاف امریکہ اور اسرائیلی حملوں کی مذمت کروانے میں کامیاب ہوگیا ۔ اسے کہتے ہیں ’وہ آیا اور چھا گیا‘۔برازیل کے شہر ریو ڈی جنرو میں برکس کے سربراہی اجلاس کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ ” ہم اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف 13 جون 2025 کے فوجی حملوں کی جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں، مذمت کرتے ہیں‘‘۔ اس کے ساتھ برکس میں شامل ممالک کے سربراہوں نے اپنے اعلامیہ ميں غزہ کے اندر فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ بھی کیا ۔برکس ممالک نے ایک باقاعدہ بیان میں صہیونی حکومت اور امریکہ کی ایران کے خلاف حالیہ فوجی جارحیت کو سخت الفاظ میں مذمت ایران کی بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے۔
برکس کی وسعت امریکہ کی آنکھوں کا کانٹا رہی ہے کیونکہ اس کے کئی حلیف ممالک اس نئے وفاق میں شامل ہوکر دشمن کے شانہ بشانہ کھڑے ہورہے ہیں اس لیے صدر ٹرمپ کی بے چینی بجا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایک پوسٹ میں دھمکی دی ، ” کوئی بھی ملک جو خود کو برکس کی امریکہ مخالف پالیسیوں سے ہم آہنگ کرتا ہے، اس پر 10 فیصد اضافی ٹیرف عائد کیا جائے گا۔ اس پالیسی میں کوئی بھی رعایت نہیں ہو گی۔”برکس نے اس کے جواب میں یکطرفہ ٹیرفس اور نان ٹیرفس اضافے پر شدید خدشات کا اظہار کیا اور اسے تجارت کو مسخ کرنے کے ساتھ عالمی تجارتی تنظیم کے قوانین کی خلاف ورزی بھی بتایا ۔” امریکہ سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہندوستان کے لیے اس بیان پر دستخط کرنا دھرم سنکٹ بن گیا مگر ایسا کوئی مسئلہ ایران کے ساتھ نہیں ہے۔ ٹرمپ کے اشتعال نے تو چین و ایران کو امریکہ کی مخالفت کا سنہری موقع عطا کردیا اور ان کے وقار میں اضافہ بھی ہوگیا۔ 49 ق م میں جولیس سیزر اور پومپیو کے درمیان خانہ جنگی شروع ہوئی تو اس کے دوسال بعد زیلہ کی لڑائی میں مخالف قوتوں کو صرف پانچ گھنٹوں میں مکمل طور پر تباہ کرکے جولیس سیزر نے اعلان کیا تھا’’Veni, Vidi, Vici‘‘ جس کا مطلب ہے’’ میں آیا ، میں نے دیکھا، میں نے فتح حاصل کی‘‘۔ برکس کے اندر ایران نے یہی کارنامہ انجام دیا۔ امریکہ کے حوالے سے اگرحکومت ہند کا یہی ڈھل مل رویہ رہا تو بعید نہیں کہ آگے چل برکس کا ’آئی‘ انڈیا کے بجائے ایران ہوجائے ۔
Like this:
Like Loading...
زبردست تجزيہ-
كيا يه هندوستان كى سفارتى ناكامى نهيں ہے؟
بہت عمدہ تجزیہ. ہم ہندوستانیوں کے لیے لمحہ فکریہ