Skip to content
بہار میں اب کی بار ، لڑائی ہوگی آر پار
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
انگریزی زبان کا مشہور مقولہ ہے کہ تاریخ خود کو دوہراتی ہے۔ 70؍ کی دہائی میں گجرات سے ناراضی کی چنگاری جب بہار پہنچی تو شعلۂ جوالا بن گئی ۔ اس سے گھبرا کر سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کو ملک میں ایمرجنسی لگانی پڑی نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی کانگریس کو مرکزی حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ 11؍ سال دوماہ حکومت کرنے کے بعد اقتدار سے بے دخل ہونےوالی اندرا گاندھی کے نقشِ قدم پر چلنے والے نریندر مودی نے بھی اپنی مدت کار کے11؍ برس مکمل کرلیے ہیں ۔موصوف نے تو سرکار بناتے ہی ایمرجنسی نافذ کردی مگر ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے اس کا اعلان نہیں کیا۔ اپنے شاگرد کی اس حرکت کا مبینہ اعتراف تو ان کے استاد ایل کے اڈوانی نے بھی کیا اور کیوں نہ کرتے خود ان کو گرفتار کیے بغیر اقتدار کے گلیاروں سے جو تڑی پار کردیا گیا ہے۔50؍ سال بعد ایمرجنسی کے خلاف بہار میں ہلچل تیز ہوگئی ہے اور اس نے مرکزی حکومت کی نیند اڑادی ہے۔ وہاں کی سڑکوں پر پھر سے نعرہ لگ رہا ہے ’سنگھاسن کو خالی کرو اب جنتا آئی ہے‘۔
پچھلے دنوں ایمرجنسی کی 50؍ویں سالگرہ منائی گئی تو اس موقع پر وزیر داخلہ امیت شاہ نے اسے ہمیشہ یاد رکھنے کی تلقین کی تھی ۔ بی جے پی کو ایمرجنسی کا انجام یاد کرکے اپنا بوریہ بستر گول کرلینا چاہیے۔ملک کے انصاف پسند دانشور اور حقوق انسانی کی پامالی کے خلاف جدوجہد کرنے والی تنظیمیں حزب اختلاف سے سرکاری جوروظلم کے خلاف سڑکوں پر اترنےکی توقع کررہی تھیں ۔یہ توقعات جھنجھلاہٹ سے مایوسی میں بدلنے لگی تھیں لیکن بہار میں الیکشن کمیشن کے خلاف ہونے والے حالیہ مظاہرے نے یہ شکایت دور کردی۔ مرکزی اور صوبائی حزب اختلاف کے رہنماوں نے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر جب للکارا تو حکومت کی چولیں ہل گئیں۔ عوام کی غیر معمولی حمایت نے پوری ریاست میں چکاّ جام کرکے جئے پرکاش نارائن کے’سمپورن کرانتی‘(مکمل انقلاب) کی یاد دلا دی ۔
کانگریس کے رہنما پپو یادو ریل گاڑی روکنے کے لیے انجن کے سامنے کھڑے ہوگئے تو ریاست کے کئی حصوں میں ریل گاڑی سمیت سب کچھ رک گیا اور ڈبل انجن سرکار کے پہیے کی ہوا کھل گئی۔ مودی سرکار نے چونکہ عبدل پنچر والے سے پہلے ہی پنگا لے رکھا ہے کہ اس لیے کوئی اس کےتار تار دامن کو سینے کے لیے بھی آگے نہیں آیا ۔ عدالتِ عظمیٰ نے بھی مہلت تو دی مگر سرکار کی چاک دامنی میں اضافہ بھی کیا ۔ بہار کے اندر جب انڈیا اور این ڈی اے کی لڑائی بامِ عروج پر پہنچی تو میڈیا نے اس کی جانب سے دھیان بھٹکانے کے لیےبہت سارے شوشے چھوڑے مثلاً ڈاکٹر گوپال کھیمکا کے قتل کا معاملہ اچھال دیا گیا۔ ان کا قتل کس نے کیا ؟ سپاری کس نے دی ؟ شوٹر کون تھا ؟ اس کا انکاونٹر کیسے ہوا؟ جیسی خبریں چلائی گئیں مگر اس کے جواب میں لوگوں نے سوال کرنا شروع کردیا کہ لالو کی حکومت اگر جنگل راج تھی تو یہ کیا ہے؟ یہ تو مہا جنگل راج ہے۔ اس کے بعد سینٹری پیڈ پر راہل گاندھی کی تصویر شائع کرکے اسے اچھالا گیا مگر اس کے بھی سیندور تقسیم کرنے جیسے منفی اثرات ہوئے اورخواتین نے اس کو برا امانا تو معاملہ رفع دفع کردیا گیا۔
ان ناکامیوں کے بعد نشی کانت دوبے جیسے لوگوں کے ذریعہ ہندی مراٹھی کا تنازع اچھال کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی انڈیا محاذ میں شامل شیوسینا ہندی بولنے والوں کی دشمن ہے مگر لوگوں نے یہ سوال کردیا کہ آخرفڈنویس کی بی جے پی سرکار مہاراشٹر کے اندر شمالی ہندوستان کے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام کیوں ہے؟ بھارتیہ جنتا پارٹی کے یہ سارے حربے ناکام ہوگئے تو اس نے چارہ بدعنوانی کا معاملہ پھر سے اچھال دیا ہے۔ نچلی عدالت نے اس معاملے میں لالو پرشاد یادو کو ساڑھے تین سال کی سزا سنائی مگر سی بی آئی زیادہ سے زیادہ سزا سنانے کے لیے جھارکھنڈ کی عدالت میں پہنچ گئی ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کا یہ اقدام اس کے لیے خودکشی کے مترادف ہے ۔ وہ بھول گئی کہ جھارکھنڈ ہی میں ہیمنت سورین کو جیل بھیجنے کی اسے کیا سیاسی قیمت چکانی پڑی تھی؟
بی جے پی کی مرضی کے خلاف ہیمنت سورین کو سپریم کورٹ نے رہا کردیا اور وہ پھر سے نہ صرف وزیر اعلیٰ بن گئے بلکہ ان کی مقبولیت میں بے شمار اضافہ ہوگیا ۔ ان کو مات دینے کی خاطر بی جے پی نے درمیان میں وزیر اعلیٰ بننے والے چمپئی سورین کو توڑ کر اپنے ساتھ لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ برسوں بعد پہلی مرتبہ وہ خود اپنی سیٹ بھی ہار گئے اورہیمنت سورین نے پہلے سے بڑی کامیابی درج کرائی ۔ بی جے پی اگر بہار انتخاب سے قبل لالو پرشاد یادو کو گرفتار کرنے غلطی کرتی ہے تو ان کے حق میں ہمدردی کا سیلاب کمل کو اپنے ساتھ بہا کر لے جائے گا۔ بہار میں بی جے پی مندرجہ بالا اوچھے ہتھکنڈے اپنانے کے لیے مجبور ہے کیونکہ آپریشن سیندور کی فلم بری طرح فلاپ ہوچکی ہے ۔ مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر میں لاڈلی بہن کے نام خواتین میں روپیہ تقسیم کرکے ان کا ووٹ حاصل کیا گیا مگر اب اس کی اد ائیگی وبال جان بنی ہوئی ہے۔ بی جے پی کسی بہانے سے وعدہ خلافی کے فراق میں ہے اس لیے بہار میں وہ غلطی دوہرانے کے بجائے جذباتی استحصال سے کام چلانے کی حکمت عملی اختیار کی گئی جو چل نہیں نہیں سکی۔ آپریشن سیندوراگر ہٹ ہوجاتا تو بی جے پی ان تماشوں کے بغیربہار انتخاب جیت جاتی ۔
ریاستِ بہار کے اندر فی الحال تیجسوی یادو کی قیادت میں ایک زبردست عوامی تحریک چل رہی ہے ۔ اس کا پیغام بہت واضح ہے ۔ وہ کہتے ہیں ’’ہم نوجوان ہیں اور ریاست میں نوجوانوں کی تعداد 60فیصد ہے‘‘۔ اس ایک سادہ سے جملے میں یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ مودی اور نتیش کمار جوان نہیں ہیں۔ وہ اپنی پیرانہ سالی کے سبب نوجوانوں کے مسائل کو حل کرنا تو دور ان کا ادراک بھی نہیں کرسکتے ۔ نوجوان کچھ نیا کرنا چاہتا ہے اس لیے تیجسوی کہتے ہیں کہ ’ہم نیا بہار بنانا چاہتے ہیں‘۔ یہ کام بھی کسی بزرگ کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس طرح ذات پات کے بجائے جدید و قدیم کے فرق کو انتخابی مدعا بنایا جارہا ہے۔ بہار کا انتخاب عام طور پر ذات پات کی بنیاد پر لڑا جاتا ہے لیکن اس روایت سے بغاوت بھی نوجوان ہی کرسکتے ہیں اسی لیے غریب و مسکین نوجوانوں سے ان کے ووٹ کا حق چھیننے کی کوشش بی جے پی کو مہنگی پڑے گی ۔ اس ملک میں ووٹ کاحق بلا امتیازِ ذات پات اوردھن دولت یکساں طور پر سبھی کو حاصل ہونے کے سبب مساوات کی ایک علامت ہے۔
انتخاب کے عصا سے لوگ اپنی خیر خواہ حکومت تو نہیں لاپارہےہیں مگر نااہل سرکار کو سبق سکھا کر کسی حدمطمئن ہوجاتے ہیں۔ اسی کو غنیمت لو لوگ گنوانا نہیں چاہتے اور اگر اسے چھیننے کی کوشش کی گئی ایساکرنے والے کو سزا دینے سے گریز نہیں کریں گے۔اسی سبب بہار میں اب کی بار آر پار کی لڑائی ہے۔اندرا گاندھی کی قدیم آئینی اور محدود وقت کی ایمرجنسی کے مقابلے بی جے پی کی جدید، خفیہ اور لامتناہی ایمرجنسی کا فرق فلمی دنیا کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ امیتابھ بچن اور دھرمیندر کی مشہور فلم شعلے ایمرجنسی کے دور میں ریلیز ہوئی تھی ۔ یہ بلاک بسٹر نغموں اور مکالموں کے علاوہ مرکزی کرداروں کے درمیان دوستی اور دشمنی کے سبب عوام و خواص کی توجہ کا مرکز بن گئی لیکن اس بات سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ شعلے کا کلائمکس آخری لمحات میں بدلنا پڑا تھا ۔ فلم کے آخری منظر میں اس کا اصلی ہیرو ٹھاکرولن گبر کو لات مارنے کی کوشش کرتا ہے لیکن پولیس پہنچ کر اسے یاد دلاتی ہے کہ اسے سزا دینے کا حق صرف قانون کو ہے۔ یہ تبدیلی سنسر بورڈ کی مداخلت کے سبب کی گئی ورنہ اصل کلائمکس میں ٹھاکر نے گبر کوگولی مارکر انتقام لیا تھا۔اس وقت کے سنسر بورڈ نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ ایمرجنسی کے تناظر میں ایک سابق پولیس افسر کا کسی کو قتل کرنا مناسب نہیں ہے۔
اس وقت قانون کی حکمرانی کے پیش نظر کلائمکس میں تبدیلی کا مطالبہ کیا گیااور نتیجتاً رمیش سپی کو ایک نیا کلائمکس شوٹ کرنا پڑا۔اس سرکاری اقدام سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس وقت کی حکومت اپنے مخالف سیاسی رہنماوں پر مظالم تو ڈھارہی تھی مگر عوام کے اندر تشدد کی حوصلہ شکنی کررہی تھی۔اس کے برعکس آج کل فلموں کے ذریعہ فرقہ وارانہ تشدد کی آگ بھڑکائی جارہی ہے۔ کشمیر فائلس سے شروع ہونے والا سلسلہ جئے پور فائلس تک پہنچ گیا۔ اس کے ذریعہ ہندو عوام کے اندر مسلمانوں کے خلاف نفرت کے شعلے بھڑکائے جاتے ہیں ۔ تاریخی فلموں مثلاً سمبھاجی سے بھی جھوٹ پھیلایا جارہا ہے۔ اینیمل جیسی فلموں میں قتل وغارتگری اور خواتین کے ساتھ بدسلوکی کو عام کیا گیا تاکہ لوگ اسے معمولی بات سمجھنے لگیں ۔ویسے اندرا گاندھی اور نریندر مودی کی ایمرجنسی میں فرق تو ہے مگر عوام ان میں سے کسی کو برداشت نہیں کریں گے۔بہار میں الیکشن کمیشن کی احمقانہ حرکت نے موجودہ ایمرجنسی کو بے نقاب کیا تو اس کے خلاف اعلانِ جنگ کرنے کی سعادت بہار کو حاصل ہوئی ہے۔
Like this:
Like Loading...
یہ مضمون جہالت پہ مبنی ہے،کیا نومی فیل بہار کا سی یم بھی بن جائے تو کیا کرسکتا ہے سوائے رنگ داری کے