Skip to content
بنجمن نیتن یاہو:
تاریخِ انسانی کا بد ترین ظالم اور مُستَبِد حکمران
ازقلم: ڈاکٹر محمد عظیم الدین
(اکولہ،مہاراشٹر)
===
تاریخ کے اوراق جب بھی انسانی لہو سے سرخ ہوئے، ظلم و بربریت کو چنگیز خان، ہٹلر اور اسٹالن جیسے چہرے ملتے رہے۔ ان کے نام آج بھی روح کے نہاں خانوں میں خوف اور وحشت کی لہر دوڑا دیتے ہیں۔ لیکن آج ہم ایک ایسے عہدِ تاریک کی دہلیز پر کھڑے ہیں جہاں درندگی پسِ پردہ نہیں، بلکہ ہماری آنکھوں کے سامنے، کروڑوں اسکرینوں پر ہر لمحہ سانس لیتی ہے۔ ملبے کے ڈھیر سے اٹھتی ہوئی چیخیں ، ماؤں کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو اور ہر بے گناہ کا بکھرا ہوا لاشہ اب کوئی خبر نہیں، بلکہ ایک زندہ حقیقت بن کر ہمارے ضمیر پر دستک دے رہا ہے۔
اس عہدِ جدید کی سفاکیت کو اگر ایک چہرہ دیا جائے تو کروڑوں نگاہیں” بنجمن نیتن یاہو” پر جا ٹھہرتی ہیں۔ اس کے ظلم کی داستان کوئی ڈھکی چھپی حکایت نہیں، بلکہ فلسطینی لہو کی روشنائی سے لکھی گئی وہ کھلی کتاب ہے جس کا ہر لفظ عالمی ضمیر کے سینے میں ایک خنجر کی طرح پیوست ہو رہا ہے۔ اُس کا طرزِ حکمرانی ظلم کی ایک نئی فصل بو رہا ہے؛ ایک ایسی فصل جس کی آبیاری معصوموں کے خون اور بے بسوں کی آہوں سے کی جاتی ہے۔ وہ عالمی قوانین کو محض پامال نہیں کرتا، بلکہ انہیں اپنے آہنی جوتوں تلے کچل کر پوری انسانیت کی بے بسی پر ایک سرد قہقہہ لگاتا ہے۔
یہ تحریر محض ایک مضمون نہیں، بلکہ ایک فردِ جرم ہے، ایک چارج شیٹ ، جو ان حقائق، اعداد و شمار اور سسکیوں کی گواہی پر مبنی ہے جو ثابت کریں گی کہ نیتن یاہو کا جنگی جنون کس طرح فلسطینیوں کی زندگی کو ایک جیتی جاگتی جہنم میں بدل چکا ہے، اور کیوں اس کا نام تاریخ کے سفاک اور ظالم ترین حکمرانوں کی صف میں سب سے آگے لکھا جانا چاہیے۔
اسرائیل کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک مسندِ اقتدار پر براجمان، بنجمن نیتن یاہو کا سیاسی سفر شروع ہی سے انتہا پسندانہ دائیں بازو کی صیہونی پالیسیوں اور ایک واضح فلسطین دشمن ایجنڈے پر استوار رہا ہے۔ اسی قیادت کے تحت فلسطینی علاقوں پر غیر قانونی قبضے کو مزید مستحکم کیا گیا، یہودی بستیوں کی تعمیر میں بے مثال تیزی لائی گئی اور غزہ پٹی پر فوجی جارحیت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رکھا گیا۔
چنانچہ 2023 کی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی رپورٹ اس امر کی کھلی گواہی دیتی ہے کہ یہ توسیع پسندانہ عزائم مشرقِ وسطیٰ میں امن کے ہر امکان کو نیست و نابود کر کے خطے میں عدم استحکام کی ایک نئی اور خطرناک لہر کو جنم دے رہے ہیں۔ صیہونیت کی وہ انتہا پسندانہ فکر جو فلسطینیوں کے حقِ خودارادیت کو یکسر مسترد کرتی ہے، نہ صرف لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو تباہی کے دہانے پر لے آئی ہے، بلکہ پورے خطے کو جنگ و خون ریزی کی ایک ایسی آگ میں جھونک رہی ہے جس سے نکلنا محال نظر آتا ہے۔
نیتن یاہو کے بابِ اقتدار کا ہر ورق، فلسطینی خون سے تحریر ایک نئی داستانِ الم ہے۔ یہ سفاکانہ حکمت عملی غزہ پر مسلط کی گئی پے در پے جنگوں میں اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ خواہ وہ 2014 کا ‘آپریشن پروٹیکٹو ایج’ ہو جس نے 2200 سے زائد زندگیاں نگل لیں، جن میں 500 سے زیادہ معصوم بچے شامل تھے، یا 2021 کا ‘آپریشن گارڈین آف دی والز’، جس نے سینکڑوں گھروں کے چراغ گل کر دیے۔ عالمی اداروں، بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اقوامِ متحدہ، کی تفصیلی رپورٹس چیخ چیخ کر گواہی دے رہی ہیں کہ ان تمام کارروائیوں میں رہائشی عمارتوں، ہسپتالوں کی پناہ گاہوں اور اسکولوں کے صحنوں کو جان بوجھ کر آگ اور آہن کی زد میں لایا گیا، جو جنگی جرائم کی کھلی تعریف پر پورا اترتا ہے۔
تاہم، ظلم کی یہ تاریخ اپنے سب سے تاریک اور وحشت ناک باب میں 2023ء کے اواخر میں داخل ہوئی، جب ‘آپریشن آئرن سارڈز’ کے نام پر بربریت کے تمام پردے چاک کر دیے گئے۔ جون 2025ء تک کے اعداد و شمار ایک ایسی قیامت کی تصویر کشی کرتے ہیں جس کا تصور بھی محال ہے۔ اقوامِ متحدہ (OCHA)، مقامی وزارتِ صحت اور دیگر آزاد اداروں کے مطابق، شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 77,000 سے 109,000 کے ہولناک ہندسے کو چھو رہی ہے؛ایک ایسی نسل کشی جس کا ایندھن عورتیں اور بچے بنے۔ زخمیوں کی تعداد دو لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، اور غزہ جو کبھی زندگی سے دھڑکتا تھا، آج محض ملبے کا ایک وسیع و عریض قبرستان ہے، جہاں ہر سانس پر موت کا پہرا ہے۔
غزہ پر 2007 سے جاری ظالمانہ ناکہ بندی نے اسے عملاً ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ 20 لاکھ سے زائد باشندوں کو پانی، بجلی، ادویات اور خوراک جیسی بنیادی ضروریات سے محروم کیا گیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کی تازہ ترین رپورٹس کے مطابق، غزہ کے ہسپتالوں میں ادویات کی شدید قلت ہے، اور بچوں میں غذائی قلت ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے، جس سے ہزاروں بچوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ یہ ناکہ بندی جنیوا کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے، جو اجتماعی سزا کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔ فلسطینی خاندانوں کو روزمرہ کی زندگی میں ناقابل برداشت مشکلات کا سامنا ہے، جہاں بجلی صرف چند گھنٹوں کے لیے دستیاب ہوتی ہے اور صاف پانی ایک خواب بن چکا ہے۔ نیتن یاہو کی یہ پالیسیاں فلسطینیوں کے بنیادی انسانی حقوق کو کچلتی ہیں اور ان کی زندگی کو جہنم کے مترادف بنا دیتی ہیں، جو عالمی قوانین اور انسانی اقدار کی کھلی توہین ہے۔
نیتن یاہو کے دور میں مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں غیر قانونی یہودی بستیوں کی تعمیر میں غیر معمولی تیزی آئی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2334 سمیت متعدد بین الاقوامی قوانین ان بستیوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں، لیکن نیتن یاہو کی حکومت نے ان کی توسیع کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اسے اپنی اہم ترین پالیسیوں میں شامل کیا۔ ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی معتبر تنظیموں نے اپنی رپورٹس میں انکشاف کیا ہے کہ یہ بستیاں فلسطینیوں کی زمینوں پر زبردستی تعمیر کی گئی ہیں، جس سے لاکھوں فلسطینی بے گھر ہوئے ہیں اور انہیں اپنی آبائی زمینوں سے محروم ہونا پڑا ہے۔ یہ پالیسی نہ صرف فلسطینیوں کے حق خودارادیت کو ختم کرتی ہے بلکہ نام نہاد "دو ریاستی حل” کے امکانات کو بھی معدوم کرتی جا رہی ہے، جس سے خطے میں امن کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔ نیتن یاہو کا یہ اقدام فلسطینیوں کے خلاف ایک منظم اور منصوبہ بند ظلم کی عکاسی کرتا ہے، جو انہیں ان کی سرزمین اور شناخت سے محروم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
نیتن یاہو کی ظالمانہ پالیسیوں کا دائرہ فلسطین تک محدود نہیں ہے۔ اندرونی طور پر، وہ اسرائیل کی جمہوری اقدار کو بھی شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔ 2023 میں اس کی عدالتی اصلاحات کی کوششوں نے سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش کی، جس کا مقصد مبینہ طور پر اپنے کرپشن کے مقدمات سے بچنا تھا۔ اس اقدام نے اسرائیل میں وسیع پیمانے پر احتجاج کو جنم دیا اور لاکھوں اسرائیلی سڑکوں پر نکل آئے، لیکن نیتن یاہو نے اسے مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ یہ پالیسیاں اس کی آمرانہ سوچ کو ظاہر کرتی ہیں، جو ایک ظالم حکمران کی بنیادی خصوصیت ہے۔ عالمی قوانین کی پامالی بھی اس کے دور کی ایک نمایاں خصوصیت رہی ہے۔ جنیوا کنونشن کے تحت، مقبوضہ علاقوں میں شہری آبادی کو نقصان پہنچانا یا ان کی زمینوں پر قبضہ کرنا جنگی جرم ہے۔ عالمی فوجداری عدالت (ICC) نے نیتن یاہو کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات کی تحقیقات شروع کی ہیں، جو اس کے ظالمانہ کردار کی بین الاقوامی سطح پر تصدیق کرتی ہیں۔
نیتن یاہو کی پالیسیاں فلسطینیوں پر نہ صرف جسمانی بلکہ گہرے نفسیاتی اثرات بھی مرتب کرتی ہیں۔ غزہ اور مغربی کنارے کے باشندوں میں ڈپریشن، اضطراب، اور پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD) کے کیسز میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یونیسیف (UNICEF) کی ایک رپورٹ (اپریل 2025 تک) کے مطابق، غزہ میں 80فیصد سے زائد بچے نفسیاتی صحت کے مسائل کا شکار ہیں، جو ایک نسل کشی کے مترادف ہے۔ بچوں میں تعلیمی مواقع کی کمی، مسلسل خوف اور بے یقینی کے ماحول نے ایک پوری نسل کو نفسیاتی طور پر تباہ کر دیا ہے اور ان کی امید اور مستقبل کو چھین لیا ہے، جو ظلم کی ایک ایسی شکل ہے جو تاریخی مظالم سے کم نہیں، اور انسانی تاریخ اس طرح کے واقعات خالی نظر آتی ہے ۔
متعدد تجزیاتی رپورٹس، جیسے کہ نیویارک ٹائمز اور دی گارڈین کی تحقیقاتی رپورٹس (2024-2025 کے اوائل تک)، یہ انکشاف کرتی ہیں کہ نیتن یاہو اپنی سیاسی بقا اور اقتدار کو طول دینے کے لیے غزہ کی جنگ کو دانستہ طور پر طویل کرتا جا رہا ہے۔ جنگ بندی کے متعدد مواقع کو مسترد کرتے ہوئے، وہ فلسطینیوں پر بمباری جاری رکھتا ہے تاکہ اس کی سیاسی پوزیشن مضبوط ہو سکے۔ یہ اقدام اس کی ظالمانہ سوچ کو عیاں کرتا ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات اور اقتدار کی ہوس کے لیے انسانی جانوں کو داؤ پر لگانے سے بھی نہیں ہچکچاتا۔ نیتن یاہو کو ہٹلر یا اسٹالن سے موازنہ کرنا بلاشبہ ایک جرات مندانہ دعویٰ ہے، لیکن اس کے مظالم عصر حاضر کے کیمروں اور عالمی میڈیا کی موجودگی میں ریکارڈ ہو رہے ہیں۔ تاریخ کے خونی اوراق پر جب ہٹلر کے ہولوکاسٹ یا اسٹالن کے گلاگ کا ذکر آتا ہے تو سچ اور جھوٹ کی گرد میں حقائق دھندلا جاتے ہیں۔ ایک گروہ اپنے ظالموں کے جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسرا مظلوموں کی آہ و بکا اور لاشوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے۔لیکن آج…جب ہم تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ظلم چھپایا نہیں جا رہا، بلکہ پوری دنیا کے سامنے، بے شرمی سے دکھایا جا رہا ہے۔ نیتن یاہو کا قہر اور اس کی بربریت ایک ایسا آتش فشاں ہے جو ہر لمحہ لاکھوں اسکرینوں پر پھٹ رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر گردش کرتی فلسطینیوں کی لہولہان تصاویر، ملبے میں دبے بچوں کے ٹوٹے ہوئے کھلونے، ماؤں کی دل دہلا دینے والی چیخیں اور باپوں کی بے بسی کی سسکیاں… یہ محض ویڈیوز نہیں، یہ وہ نوحے ہیں جو پتھر سے پتھر دل کو بھی پگھلا دیں۔ یہ اس بات کی زندہ شہادتیں ہیں کہ نیتن یاہو کا ظلم تاریخ کے کسی بھی سفاک حکمران سے کم نہیں، بلکہ اس سے کہیں زیادہ اذیت ناک اور روح کو چھلنی کر دینے والا ہے، کیونکہ اس کا ہر زخم، ہر آنسو، اور ہر چیخ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور ہم بے بسی سے دیکھنے پر مجبور ہیں۔
عالمی سطح پر نیتن یاہو کی پالیسیاں شدید تنقید کو جنم دیتی ہیں۔ متعدد ممالک، بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں، اور حتیٰ کہ کچھ مغربی اتحادی بھی اس کے اقدامات کی کھلے عام مذمت کرتے ہیں۔ سعودی عرب کے سرکاری ٹی وی چینل الاخباریہ نے ایک ڈاکومنٹری نشر کی جس میں نیتن یاہو کو "آج کے دور کا ہٹلر” قرار دیا گیا۔ سوشل میڈیا پر اس کے خلاف نفرت اور غم و غصے کا اظہار عالمی رائے عامہ کی تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ عالمی ردعمل نیتن یاہو کی بڑھتی ہوئی عالمی تنہائی کی عکاسی کرتا ہے، جو اس کے ظالمانہ کردار کی ایک اور بین دلیل ہے۔ عالمی عدالت انصاف (ICJ) میں اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے مقدمے کی سماعت نے بھی عالمی سطح پر اس کے مظالم کو بے نقاب کیا ہے، جس سے اس کا عالمی وقار مزید مجروح ہوا ہے۔
آخر میں یہ کہہ دینا کہ بنجمن نیتن یاہو کی پالیسیاں فلسطینیوں کی زندگی کو جہنم بنا رہی ہیں، ایک ایسا سرد جملہ ہے جو حقیقت کی آتشیں تپش کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اُس نے زندگی کے تصور ہی کو ایک ایسے عذاب میں بدل دیا ہے جس کے سامنے موت بھی ایک راحت معلوم ہوتی ہے۔ غیر قانونی بستیوں کی تعمیر میں لگنے والی ہر اینٹ، اور غزہ کے آسمان سے معصوموں پر گرنے والا ہر بم، انسانیت کے تابوت پر ٹھونکی جانے والی ایک نئی کیل ہے۔
وہ عالمی قوانین کو پامال نہیں کرتا؛ وہ تو ان کی بے بسی کا تماشا لگا کر پوری دنیا کی غیرت کو للکارتا ہے۔ تاریخ نے فرعونوں اور نمرودوں کے قصے سنے ہیں، جن کی دہشت شاید وقت کی دھول میں کہیں کھو گئی ہو، مگر یہ ظلم تو ایک دہکتا ہوا، سلگتا ہوا حال ہے جو مہذب دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُس کے جھوٹے اُصولوں کا ماتم کر رہا ہے۔ یہ پالیسیاں محض حقوق نہیں، نسلوں کی امیدیں کچل رہی ہیں؛ یہ عمارتیں نہیں، انسانیت کی روح کو روند رہی ہیں۔ تاریخ اپنا فیصلہ سنا چکی ہے اور اپنے سیاہ ترین باب پر اُس کا نام خون کی روشنائی سے لکھ چکی ہے۔ وہ محض ایک ظالم حکمران نہیں، بلکہ تہذیبِ انسانی کے ماتھے پر لگا وہ کلنک کا ٹیکا ہے جو کبھی نہیں مٹے گا، ایک ایسا گہرا گھاؤ جو عالمی ضمیر سے ابد تک رستا رہے گا۔
===
Like this:
Like Loading...
عرب اوردیگر مسلم حکمران اپنی خاموشی اور بے حسی کے تحت نتن یاہو اتنے ہی یااس سے بھی زیادہ گناہ گار ہیں ۔ان کی نتن یاہو کو درپردہ مدد انہیں بھی ظالموں کی صف میں لاکھڑا کرتی ہے۔ بے بس اور مظلوم فلسطینی یہی سوچتے ہیں کہ ہمارے اپنے ہی جب بزدل اور ناکارہ ہیں تو یہودی تو آخر دشمن ہی تو ہیں ۔۔۔۔