Skip to content
ظریفانہ : کہیں بے آبرو ہوکر تو نہیں نکلیں گے؟
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
کلن مشرا نے للن شرما سے پوچھا یار یہ اپنے پردھان جی اچانک جھولا اٹھاکر کہاں چل دئیے ؟
وہ پردیس کے دورے پر جارہے ہیں۔ ان کے پاس ۸؍ہزار کروڈ کا ہوائی جہاز ہے۔ اب اگر اسے استعمال نہیں کریں گے تو خراب ہوجائے گا۔
کلن بولا وہ تو ٹھیک مگر یہ بھی کوئی باہر جانے موقع ہے؟
اوہو کلن آج کل موسم دیکھ کر کوئی سفر نہیں کرتا کیونکہ باہر آب و ہوا جو بھی اندر تو سب کچھ ٹھنڈا ٹھنڈا کول کول ہوتا ہے۔
جی ہاں وہ تو ٹھیک ہے مگر ایوان پارلیمان کا اجلاس شروع ہوتے ہی باہر نکل جانا کیا عوامی نمائندوں کے ساتھ ساتھ عوام کی بھی توہین نہیں ہے؟
للن نے کہا ارے بھیا ہمارے پردھان جی کوئی عا م آدمی تھوڑی ناہیں جو لوگوں کا خیال رکھیں۔ وہ تو غیر حیاتیاتی مہامانوہیں ۔
اسی لیے تو میں پوچھ رہا کہ وہ ایوان پارلیمان میں آکرسوالات کا جواب دینے سے کیوں ڈرتےہیں ؟ انہوں نے اچانک راہِ فرار کیوں اختیار کی ؟
کس نے کہا کہ وہ ڈرتے ہیں۔وہ وشو گرو ہیں اور ساری دنیا کی رہنمائی کے لیے جانا ان کا فرضِ منصبی ہے۔
کلن نے سوال کیا اچھا تو کیا برطانیہ کے گوروں کی رہنمائی فرمائیں گے؟
کیوں نہیں ۔ بہت جلد ہندوستانی معیشت برطانیہ سے آگے نکل جائے گی۔
اچھا لیکن وہ مالدیپ کیوں جارہے ہیں۔ وہاں کے رہنما موئزو نے تو ’ہندوستان کو نکل جانے‘ کی سیاست کی تھی اور ہمیں نکلنا پڑا۔
ہاں یار پردھان جی نے مالدیپ کو گھٹنے پر لانے کے لیے لکش دیپ کی سیاحت کو بڑھایا اور وہاں ساحل پر ڈبکی بھی لگائی تھی۔
کلن بولا ہاں ہاں مجھے یاد ہے ۔ ہم میں سے کئی لوگوں نے اپنی مالدیپ کی بکنگ کینسل کروا دی تھی۔ وہاں جانے سے انکار کردیاتھا۔
وہی تو اسی لیےپردھان جی کے وہاں جانے پر تعجب ہے ۔
ارے بھیا وہ لندن سے آتے ہوئے وہ بھارت کے اوپر سے گزر کر مالدیپ جائیں گے مگر ایوان پالیمان میں نہیں آئیں گے‘ یہ تو بزدلی ہے۔
دیکھو بھائی مصلحت کوشی تو ہمارا شعار ہے۔ہم نے ہمیشہ اپنے فائدے کے لیےاگتے سورج کی پوجا کی ہے اور اب بھی وہی کررہے ہیں۔
کلن بولا یار اس سے اچھا ہوتا کہ کیجریوال کی پیشنگوئی درست ہوجاتی لیکن پھر ڈر لگتا ہے۔ اگر ایسا ہوجائے تو غضب ہوجائے گا ۔
للن نے پوچھا تم کس پیشنگوئی کی بات کررہے ہو۔ وہ بھی اپنے پردھان جی کی طرح کچھ نہ کچھ بولتا رہتا ہے ۔آخر ڈی این اے ہمارا ہی ہے نا؟
ارے بھیا جو اس نےپچھلے سال جیل سے نکل کرکانپور میں کہا تھا کہ اگلے سال پردھان جی چلے جائیں گے ۔
کہاں چلے جائیں گے ؟ پردھان جی کو جیل میں ڈالنے والا ابھی پیدا نہیں ہوا ہے۔
ارے بھائی دنیا میں کھلی جیل بھی تو ہوتی ہے جہاں انسان تنہائی کی زندگی گزارتا ہے۔ جیسے ہمارے اڈوانی جی گزار رہے ہیں ۔
اچھا تو کیا تم کو لگتا ہے بھاگوت کی بات سن کر پردھان جی جھولا اٹھا کر چل دیں گے ؟ چنتا نہ کرو ایسا کچھ نہیں ہوگا وہ بڑی موٹی چمڑی کے آدمی ہیں۔
کلن بولا جی ہاں لیکن اگر وہ چلے گئے تو بڑا انرتھ (قیامت ) ہوجائے گا ؟ میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہوگا؟؟
للن نے ہنس کر کہاا تم نے اکبر الہ بادی کا شعر نہیں سنا: مٹھائی کھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا ۔
مٹھائی کھائیں ہمارے دشمن ، ہم بھگتوں کا کیا ہوگا؟ کیا ہم کیا گھاس کھاکر پیٹ بھریں گے؟
ارے تو کیا پردھان جی کے آنے سے پہلے گھاس کھاتے تھے جو ان کے بعد گھاس کھاوگے؟
بھیا پہلے تو کچھ کما کھا لیتے تھے اب تو روزی روزگار ختم ہوچکا ہے ۔ وہ جو پانچ کلو اناج دیتے ہیں اسی پر گزارہ ہے ۔ وہ بھی بند ہوجائے تو کیا ہوگا؟
امیت شاہ نے کہہ دیا ہےکہ 2029تک وہ رہیں گے اورراجناتھ تو 2034تک پرامیدہیں ۔ ویسے بعد میں آنے والا بھی ۵کلو اناج جاری رکھے گا۔
اس کی کیا گارنٹی ہے؟
بھیا ان کو ووٹ پانے کے لیے ہمیں پانچ کلو اناج کا محتاج رکھنا ضروری ہے۔ ہم بھوکے مرجائیں گے تووہ ووٹ کس سےلیں گے؟
ہاں یار یہ بھی درست ہے اگرہم زندہ ہی نہیں رہیں گے تو ان کو ووٹ کون دے گا؟
اور اگر ووٹ نہیں ملے گا تو ان کی سرکار کیسے چلے گی ؟
کلن نے سوال کیا اچھا چلومان لیا ہمارا گزارہ ہوتا رہے گا لیکن اگر پردھان جی کو جانا پڑجائے تو وہ بیچارے کیا کریں گے ؟
ارے بھیا ہندی میں رہنما کو نیتا اور اداکار کو ابھی نیتا کہتے ہیں۔کیا امیتابھ بچن ہنوز اداکاری نہیں کرتا وہی پردھان جی بھی کرتےہیں اور کریں گے۔
کیسی باتیں کرتے ہو للن ۔ کیا نیتا سے ا بھی نیتا بن جانا اتنا آ سان ہے؟
کیوں نہیں ۔ سمرتی ایرانی کو دیکھو ۔ وہ پہلے’ ساس بھی کبھی بہو تھی‘ میں بھولی بھالی تلسی تھی۔ اب سیاست سے لوٹ کر کھوسٹ ساس بنے گی ۔
ہاں یار تم نے صحیح کہا ۔ سمرتی ایرانی نے سیاست میں جو تربیت حاصل کی ہے اس کا بڑا فائدہ ہوگا بلکہ اسے اداکاری کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی ۔
جی ہاں مجھے یاد ہے جس طرح ایوان پارلیمان میں وہ سونیا گاندھی کی جانب دوڑی تھیں ایسا لگا تھا کہ ’خون پی جائیں گی‘۔
بھیا اب وہ سیریل کے پردے پر اپنی بہو کا خون پی کر دادِ تحسین وصول کریں گی ۔
ہاں یار اس کے سامنے بہو کے رول میں تو کوئی اداکارہ ٹک ہی نہیں سکے گی ۔
بھیا میرا خیال ہے اگر کنگنا رناوت بھی سیاست چھوڑ کر بہو کا کردارادا کرنے لگے تو یہ جوڑی ویرو اور جئے کوبھی پیچھے چھوڑ دے گی ۔
اچھا تو کیا تمہارا مطلب ہے سمرتی ایرانی جیسے اپنے پیشے میں چلی گئیں اسی طرح پردھان جی پھر سے بھکشو یا پرچارک بن جائیں گے؟
اور نہیں تو کیا جو کام سمرتی کرسکتی ہیں وہ مودی کیوں نہیں کرسکتے ویسے بھی ’مودی ہے تو کچھ بھی ممکن ہے‘۔
مجھے تو لگتا ہے کہ سمرتی ایرانی کی بددعا نے پردھان جی کو یہ دن دکھایا کہ بے آبرو ہوکر جانا پڑرہا ہے ورنہ الیکشن ہار کر عزت سے چلے جاتے۔
ہاں مجھے بھی سر سنگھ چالک موہن بھاگوت کی بات درست لگتی ہے۔ پردھان جی کب تک جونک کی مانند کرسی سے چپکے رہیں گے ۔
کلن نے کہا یار تمہاری اس بات پر مجھے ارتضیٰ نشاط کا ایک شعر یاد آگیا ۔
کیا بات ہے آج کل خوب شاعری ہورہی ہے۔ خیر شعر سناو وہ بہت عمدہ شاعر تھے۔
ہاں تو سنو وہ فرماتے تھے: کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے
للن نے سوال کیا ارے بھائی وہ کون سا کام ہے جو پردھان جی نہیں کرسکتے۔
کیا کیا گناوں للن وہ بیچارے نہ تومنی پور جاپاتے ہیں اور نہ یوگا کرناان کے بس میں ہے۔ اس بار دن پر ان کی تصاویرکو دیکھ کر رونا ہنسنا دونوں آیا۔
للن بولا لیکن ہمارے دیش میں سیاست سے کون ریٹائر ہوتا ہے؟
کیوں سونیا گاندھی سبکدوش نہیں ہوئیں ۔ ان سے قبل راہل گاندھی نے شکست کی ذمہ داری قبول کرکے صدارت سے استعفیٰ دیا تھا ۔
ہاں یار اس بار اکثریت کھودینے پر جے پی نڈا کو استعفیٰ دینا چاہیے تھا مگر وہ اپنی مدت کار ختم ہونے کے دو سال بعد بھی کرسی سے چپکے ہوئے ہیں ۔
وہ کیوں استعفیٰ دیتے ؟پارٹی کے پرچار منتری تو خود پردھان منتری تھے ۔ اس لیے شکست کی ذمہ داری قبول کرکے انہیں ریٹائر ہوجانا چاہیے تھا۔
للن بولا بھیا ہمارے سنگھ پریوار کے اندر جب تک دھکا ّ دے کر نکالا نہ جائے ہم لوگ اپنے سے استعفیٰ نہیں دیتے ۔
اچھا تو کیاا س روایت سے انحراف کوئی جرم ہے؟ پردھان جی ایک اچھی روایت شروع بھی تو کرسکتے تھے ۔ ان کو کس نے روکا تھا؟
بھائی دیکھو شرد پوا ر83 سال کے ہیں اور82 برس کےکھڑگے بھی تو پارٹی کے صدر بنے ہوئے ہیں ۔ ان کو کوئی کچھ نہیں بولتا ؟
ایسا ہے تو تو نڈا کی جگہ پردھان جی کو بیٹھا دو کیونکہ 91 سال کے دیوے گوڑا اور 86 سال کے فاروق عبداللہ نے بیٹوں کو وزیر اعلیٰ بنایا خود نہیں بنے
لیکن بھیا پردھان جی کا کوئی بیٹا تھوڑی نا ہے جو اس کو اپنا ولیعہد بناتے ۔ جسودھا بین کو یوں ہی چھوڑدینے کی غلطی کا احساس انہیں اب ہورہا ہوگا ۔
یار کیوں نا پارلیمانی انتخاب لڑنے کے لیے جو 25سال عمر کی قید ہے اسے ہٹا کر سبکدوشی کی عمر 75 برس کردی جائے تاکہ جھگڑا ہی ختم ۰۰۰۰۰۔
یار دیکھو ایسا تو امریکہ میں بھی نہیں ہے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی عمر 78سال ہے اور بائیڈن تو 81 برس ہونے پر بھی لڑنا چاہتے تھے۔
کلن ہنس کر بولایار یہ مثال غلط ہے ۔ وہاں دوبار سے زیادہ کوئی صدر نہیں بن سکتا لیکن پردھان جی تو یہاں تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن گئے ۔
لیکن بھیا ہم لوگوں نے خود کئی لوگوں کے لیے اس ضابطے توڑا ہے تو پردھان جی پر اسے سختی سے لاگو کرنے کی کیا تُک ہے؟
ارے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جس ضابطے سے سارے بڑے رہنما ٹھکانے لگا دئیے گئے اس سے کچھ لوگوں کو استثناء مل گیا ؟ تعجب ہے؟؟
ارے بھیا یدورپاّ کو تو بدعنوانی کا الزام ہونے باوجود وزیر اعلیٰ بنایا گیا نیز یوگیش پٹیل،، ناگیندر سنگھ او ر جگناتھ سنگھ رگھونشی کو الیکشن لڑایا گیا۔
یار یہ تو بہت بری بات ہے۔ اس کا مطلب تو صاف ہے کہ پردھان جی نے اپنے حریفوں سے چھٹکارہ پانے کے لیے یہ چال چلی تھی ۔
للن بولا لگتا تو ایسا ہی ہے لیکن اب وہ اپنے جال میں خود پھنس چکے ہیں اس لیے سنگھ ان کی چھٹی کرکے رہے گا ۔
یا ر مجھے سنگھ کی کامیابی پر شبہ ہے کیونکہ تمہیں یاد ہے نڈانے کہا تھا کہ پہلے ہم سنگھ کی حمایت پر منحصرہوا کرتے تھےاب نہیں ہیں۔
بات تو صحیح ہے اب ہمارے پاس ساری ایجنسیاں ہیں ۔ ای ڈی سے لے کر الیکشن کمیشن تک سب ہمارے کٹھ پتلی ہیں۔
تو کیا تمہارا مطلب ہے کہ ان ایجنسیوں کے سبب ہم لوگ آر ایس ایس سے بے نیاز ہوچکے ہیں۔کیا سو سال کے بعد یہ مادرِ تحریک بیکار ہوچکی ہے؟
بھیا مجھے تو ڈرہے اس صد سالہ جشن کے دوران کہیں ہمارے جڑواں ٹاورس یعنی مودی اور بھاگوت بھی ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی مانند نہ ڈھے جائیں۔
ہاں یار سوویت یونین کے مٹ جانے پر خود کو زمین کا واحد سوپر پاور سمجھ کر امریکی بھی بڑی دھوم دھام سے نئی صدی کاجشن منا رہے تھے ۔
للن بولا لیکن کلن مجھے نہیں لگتا کہ ہم سنگھ پریوار سے کبھی بھی بے نیاز ہوسکیں گے۔
کیوں نہیں۔ اب تم ہی سوچو کہ جو کام الیکشن کمیشن اور ای وی ایم مشین کرسکتی ہے کیا وہ سنگھ کے بس کا روگ ہے؟
لیکن بھائی اقتدار تو ہمیشہ کسی کے پاس نہیں رہتا ۔ جب ہم حزب اختلاف میں ہوں گے اور ایجنسیاں دشمنوں کے ہاتھ میں ہوں گی تو کیا ہوگا؟
کلن بگڑ کر بولا ایسا کبھی نہیں ہوگا کلن ۔ اب ہندوستان میں ہمیشہ ہمارا ہی اقتدار رہے گا ۔
یار تاریخ گواہ ہے نہ اشوک رہے اورنہ موریہ ۔ خلجی رہے نہ مغلیہ ۔جب کانگریس اور جنتا دل سے اقتدار چھن گیا تو مکافاتِ عمل ہم کیسےبچیں گے
بھیا تم سے تو بات کرنا بیکار ہے۔ تم تو خوش ہونے ہی نہیں دیتے اپنی منطق اور حجت سے موڈ خراب کردیتے ہو۔
للن بولا بھائی میں آئینہ دکھاتا ہوں تو تم جیسے لوگ اپنا چہرا دیکھ کر ڈر جاتے ۔ اس میں میرایا آئینے کا کوئی قصور نہیں ہے۔
ہاں بھائی مان لیا کہ ہمارا چہرا ہی بگڑا ہوا ہے مگر یہ بولو کہ کیا ہر وقت آئینہ دکھانا ضروری ہے؟ کیا کوئی خوبصورت تصویر نہیں دکھا سکتے؟
للن نے ہنس کر کہا بھیا تم تو برا مان گئے معذرت چاہتا ہوں ۔ یہ روحی کنجاہی کا شعر سنو اور مجھے اجازت دو:
ہر تلخ حقیقت کا اظہار بھی کرنا ہے
موقف پہ ہمیں اپنے اصرار بھی کرنا ہے
Like this:
Like Loading...