Skip to content
مرکز تحفظ اسلام ہند کے’’یوم صحابہؓ ‘‘و’’عظمت صحابہؓ کانفرنس‘‘ کا دس نکاتی اعلامیہ!
از قلم:محمدفرقان
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
8495087865,
mdfurqan7865@gmail.com
مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام دفاع وعظمت صحابہؓ کے موضوع پر ملک گیر سطح پر ایک باوقار، بامقصد اور پراثر آن لائن دس روزہ’’ عظمت صحابہؓ کانفرنس‘‘ کا انعقاد عمل میں آیا، جس میں ملک بھر سے جید علمائے کرام، مفتیانِ عظام، خطباء، مبلغین اور امت کے سنجیدہ طبقات نے شرکت فرمائی۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاست کرناٹک میں 18؍ جولائی بروز جمعہ کو ’’یومِ صحابہؓ‘‘منایا گیا، جس نے دشمنانِ صحابہؓ کے خلاف شعور و بیداری کی ایک نئی لہر پیدا کی۔یومِ صحابہؓ و عظمت صحابہؓ کانفرنس کے اختتام پر مرکز تحفظ اسلام ہند کی جانب سے امت مسلمہ اور تمام ذمہ دارانِ دین و ملت کی خدمت میں درج ذیل دس نکات پر مشتمل اعلامیہ پیش کیا جاتا ہے:
1) عقیدۂ صحابہؓ: ایمان کا لازمی جزو
اہل السنۃ والجماعۃ، احناف، دیوبند کا اجماعی عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ کرامؓ عادل، ثقہ، دین کے سچے محافظ اور نبی کریم ﷺ کے منتخب رفقاء تھے۔ ان پر طعن و تشنیع ایمان کے منافی ہے۔ قرآن و سنت میں ان کی عظمت و عدالت کی گواہی صراحت کے ساتھ موجود ہے: ’’رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ‘‘ (اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے)، ’’أُولَٰٓئِکَ کَتَبَ فِی قُلُوبِہِمُ الْإِیمَانَ‘‘(یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے)۔ ان آیات سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان، تقویٰ، اور راست روی پر مہرِ تصدیق ثبت فرمائی ہے۔ ان کی زندگیوں سے روشنی نہ لینے والا، خود گمراہی کے اندھیروں میں بھٹک جاتا ہے۔
2) صحابہؓ کی گستاخی: نفاق اور الحاد کا دروازہ
صحابہ کرامؓ کی توہین اور ان کے بارے میں بدگمانی روافض، باطنیہ اور مستشرقین کا ایجنڈا ہے۔ ایسی سوچ امت کے اتحاد، دین کی اساسات اور نبی کریم ﷺ کے لائے ہوئے پیغام پر حملہ ہے، جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ آج کے دور میں کچھ نادان یا بدباطن عناصر، صحابہ کرامؓ کی عدالت و دیانت پر سوالات اٹھا کر نہ صرف اپنے ایمان کو خطرے میں ڈال رہے ہیں، بلکہ نئی نسل کے اذہان میں تشکیک و تذبذب پیدا کر رہے ہیں۔ ان فتنوں کا جواب دینا ہر سچے مسلمان کی ذمہ داری ہے، تاکہ نوجوانوں کو صحابہؓ کی سیرت سے جوڑ کر، ان کے دین و ایمان کو بچایا جا سکے۔
3) بغض صحابہؓ، دراصل بغض رسولؐ ہے!
یاد رکھیے! صحابہ کرامؓ کی مخالفت محض افراد کی مخالفت نہیں، بلکہ یہ درحقیقت رسول اللہ ﷺ کے انتخاب، ان کی تربیت، اور ان کے مشن پر اعتراض ہے۔حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو، میرے بعد ان کو ہدف نہ بنانا، کیونکہ جو ان سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کے سبب کرے گا، اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض کے سبب رکھے گا۔‘‘ (صحیح مسلم ،حدیث نمبر2541)۔لہٰذاجو صحابہ کرامؓ کی عدالت پر انگلی اٹھاتا ہے، وہ گویا خود رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و تربیت کو مشکوک بناتا ہے، اور یہ ایمان کے لیے زہر ہے۔جس دل میں بغضِ صحابہؓ ہے، وہ دل کبھی بھی رسول اللہ ﷺ کی سچی محبت سے بھرا نہیں ہو سکتا۔ایسے نفرت انگیز رویے نہ صرف رسول اللہ ﷺ کو اذیت دیتے ہیں، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کو اذیت پہنچانے کے مترادف ہیں، جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا: إِنَّ الَّذِینَ یُؤْذُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ لَعَنَہُمُ اللَّہُ فِی الدُّنْیَا وَالَْاخِرَۃِ وَأَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًاا مُّہِینًا،’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں، ان پر دنیا و آخرت میں لعنت ہے، اور ان کے لیے ذلت کا عذاب تیار کیا گیا ہے‘‘۔(الاحزاب: 57)۔گویا صحابہ کرامؓ کی اہانت، اللہ کے قہر و غضب کو دعوت دینا ہے۔ امت کو ہوش کے ناخن لینے چاہییں!
4) وسعت قلبی اور اعتدال: مسلک دیوبند کی پہچان
مسلکِ دیوبند کے اکابرین نے ہمیشہ صحابہ کرامؓ کے تمام طبقات خواہ وہ مہاجرین ہوں یا انصار، خلفائے راشدین ہوں یا دیگر جلیل القدر صحابہؓ؛ سب کو محبت، ادب اور احترام کی نظر سے دیکھا ہے۔ مشاجراتِ صحابہؓ جیسے اجتہادی اختلافات کو کبھی فتنہ، ناپاک ارادے یا دشمنی کی نظر سے نہیں دیکھا، بلکہ عدل و دیانت کے ساتھ صحابہؓ کی نیتوں پر حسنِ ظن رکھا۔ یہی وسعتِ قلبی، یہی اعتدال اور یہی توازن اہلِ سنت والجماعت، خصوصاً مسلکِ دیوبند کا امتیاز اور شان ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اسی موقف کو مؤثر انداز میں عوام و خواص تک پہنچایا جائے، تاکہ امت اختلافات کے دائرے سے نکل کر وحدت اور احترامِ صحابہؓ کے دائرے میں آ سکے۔
5) منبر و محراب سے عظمت صحابہؓ کا پیغام عام کریں
تمام ائمہ و خطباء سے پرزور اپیل ہے کہ جمعہ و دیگر خطبات میں صحابہ کرامؓ کی سیرت، خدمات اور دین پر قربانیوں کو اجاگر کریں۔ ان نفوسِ قدسیہ کی زندگیاں ایثار، عدل، تقویٰ، جہاد، دعوت اور قربانیوں کا درخشاں نمونہ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے از خود اپنی رضا کے ذریعے اعزاز سے نوازا۔ اس پیغام کو منبر و محراب سے عام کیا جائے تاکہ عوام اور نئی نسل کو ایمان، تاریخ اور عقیدے کی بنیادوں سے جوڑا جا سکے، اور فتنہ پرور ذہنوں کی زہریلی سازشوں کا مؤثر علمی و دینی جواب دیا جا سکے۔
6) نوجوانوں کی ذہن سازی: وقت کی اہم ضرورت
فتنہ پرور عناصر سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے نئی نسل کے ذہن و دل میں صحابہ کرامؓ کے خلاف زہر گھولنے کی منظم کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد نوجوانوں کو ان کے دینی و روحانی ہیروز سے جدا کرنا اور امت کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا ہے۔ ایسے نازک وقت میں والدین، اساتذہ، ائمہ و خطباء، دینی مدارس، اور تربیتی اداروں کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کی فکری و عقیدتی تربیت کریں۔ انہیں صحابہ کرامؓ کی سیرت، علم، تقویٰ، جہاد، عدل، امانت و دیانت، اور قربانیوں سے روشناس کرائیں، تاکہ نئی نسل ایک مضبوط عقیدے، روشن تاریخ اور سچی وفاداری کے ساتھ اپنے دین پر قائم رہے اور باطل پروپیگنڈے کا شکار نہ ہو۔
7) عظمت صحابہؓ پر علمی و تحقیقی کام کو فروغ دیں!
صحابہ کرامؓ کے مقام و مرتبے پر بے بنیاد اعتراضات کا توڑ صرف جوش سے نہیں بلکہ ہوش اور علم و تحقیق کے میدان میں ممکن ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی مدارس، عصری جامعات، تحقیقاتی ادارے، اسلامی مراکز، آن لائن پلیٹ فارم اور میڈیا سینٹرز صحابہ کرامؓ کے فضائل، عدالت، فتوحات، خدمات اور سیرت پر مبنی دروس، تخصصات، نصاب، کتب، رسائل، ڈاکیومنٹریز، ویڈیو سیریز اور کورسز کو باقاعدہ منظم انداز میں ترتیب دیں۔ ان میں قرآن و حدیث کے دلائل، اجماعِ امت کی گواہیاں، تاریخی شواہد، اور معاصر فکری سوالات کا مضبوط علمی و منطقی جواب شامل ہو تاکہ ہر طبقۂ فکر، ہر عمر اور ہر سطح کا فرد، صحابہ کرامؓ کی عظمت کو دلائل کی روشنی میں جان سکے اور ان پر حملوں کا مؤثر جواب دے سکے۔
8) صحابہؓ کا دفاع: ہر سطح پر ضروری
صحابہ کرامؓ کی عظمت کا دفاع محض وقتی جذبات یا وقتی نعروں پر موقوف نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس کے لیے ایک ہمہ جہت اور مستقل حکمت عملی اختیار کی جائے۔ علمی میدان میں تحقیق و دلائل، دینی میدان میں عوام کی تعلیم و بیداری، قانونی سطح پر مناسب چارہ جوئی، اور ابلاغی محاذ پر مؤثر جواب دہی کے ذریعے اس عظیم فریضے کو ادا کیا جائے۔ ہر فرد، ہر ادارہ اور ہر صاحبِ درد شخص اپنی استطاعت کے مطابق اس جدوجہد میں شریک ہو، کیونکہ ناموسِ صحابہؓ کا تحفظ درحقیقت دین کے قلعے کی حفاظت ہے۔
9) فتنوں کے خلاف اتحادِ امت
صحابہ کرامؓ کی ناموس پر کیا جانے والا کوئی بھی حملہ صرف چند شخصیات پر طعن نہیں، بلکہ یہ پورے دینِ اسلام، اس کے بنیادی ماخذ، اور خود رسول اللہ ﷺ کی تربیت و سچائی پر حملہ ہے۔ یہ معاملہ اتنا نازک اور اہم ہے کہ اس پر خاموشی یا تساہل امت کی دینی غیرت اور ملی شعور کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ تمام مسالک، دینی جماعتیں، تعلیمی ادارے، اصلاحی تنظیمیں اور فکری حلقے اپنے باہمی اختلافات سے بالاتر ہو کر ناموسِ صحابہؓ کے تحفظ کے لیے ایک متحدہ اور ٹھوس موقف اپنائیں، تاکہ دشمنانِ دین کے فتنوں کا مؤثر جواب دیا جا سکے اور امت مسلمہ کے ایمان کی بنیادیں محفوظ رہیں۔
10) مرکز تحفظ اسلام ہند کی مہم کا تسلسل: ناموسِ صحابہؓ کے تحفظ کا غیر متزلزل عزم
صحابہ کرامؓ دین اسلام کی وہ روشن ہستیاں ہیں جن پر قرآن نے ”رضی اللہ عنہم” کی مہر ثبت کی، جن کے ایمان، تقویٰ، اخلاص، قربانی، دیانت اور فہمِ دین کو خود اللہ رب العزت نے معیارِ ہدایت قرار دیا۔ ان مقدس شخصیات پر اعتراضات اور طعن و تشنیع، امت کے ایمان پر حملہ ہے۔مرکز تحفظ اسلام ہند اس موقع پر ایک بار پھر یہ واضح کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ صحابہ کرامؓ کی ناموس پر زبان درازی، ایمان پر حملہ ہے۔ ان حضرات پر طعن و تشنیع کرنا دراصل خود قرآن و سنت کے منہجِ مستقیم پر عدمِ اعتماد کا اظہار ہے، جو کسی مومن کے شایانِ شان نہیں۔ مرکز اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ:’’صحابہ کرامؓ کی عظمت پر حملہ ناقابلِ برداشت ہے۔ ہم ان کے دفاع کے لیے ہر محاذ پر کھڑے ہیں، اور رہیں گے، چاہے اس کی کتنی ہی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔‘‘ہر مسلمان، ہر خطیب، ہر عالم، اور ہر اہلِ غیرت کا فرض ہے کہ ان پاکیزہ ہستیوں کے مقام و مرتبہ کو واضح کرے، اور ان کے خلاف ہونے والی فتنہ انگیزیوں کے سد باب کے لیے سرگرم ہو۔مرکز تحفظ اسلام ہند اس مسئلے کو وقتی یا وقتی ردعمل کے طور پر نہیں بلکہ ایک مستقل فکری و ایمانی محاذ کے طور پر دیکھتا ہے، اور عظمتِ صحابہؓ کے پیغام کو گھر گھر، فرد فرد، اور دل دل تک پہنچانے کے لیے ہمہ وقت سرگرم رہے گا۔
اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو صحابہ کرامؓ کی عظمت، عدالت اور مقام و مرتبہ کا سچا شعور عطا فرمائے، ہر قسم کے فتنوں، گمراہیوں اور باطل پروپیگنڈوں سے ہماری حفاظت فرمائے، اور ہمیں ایمان، اخلاص اور جرات کے ساتھ ان کے مقام و مرتبہ کے تحفظ اور دفاع میں صدقِ دل سے کھڑے ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین۔
جاری کردہ : مرکز تحفظ اسلام ہند
Like this:
Like Loading...