Skip to content
جن سنسکرتی منچ کا17 واں قومی کانفرنس منعقد
فاشزم کی تقسیم کرنے والی ثقافت کے خلاف ایکتا، تخلیق اور سنگھرش کا عہد
پورے ہندوستان سے 300 ادبا وشعراء و ثقافتی کار کن اکھٹا ہوئے
مشہور فنکار ظہور عالم قومی صدر، ادیب وصحافی منوج کمار سنگھ جرنل سکریٹری اور احمد صغیر سکریٹری منتخب ہوئے
رانچی (محمد یوسف عالم انصاری)
جن سنسکرتی منچ کا 17 واں قومی کانفرنس 12-13 جولائی کو سوشل ڈیو لپمنٹ سینٹر ، رانچی ، جھارکھنڈ میں فاشزم کی تقسیم کرنے والی ثقافت کے خلاف تخلیق اور سنگھرش کے قرار داد اور آگے کا ایکشن پلان اور حکام ، قومی ایکزکیٹیو و کونسلر کا انتخاب عمل میں آیا۔ اس میں بنگال ، اڈیشہ، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، تلنگانہ، بہار، اترا کھنڈ، اتر پردیش، دلّی، پنجاب، راجستھان، مہاراشٹر صوبوں سے تین سو سے زائد مصنفین، کلا کار اور دانشور شامل ہوئے۔کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے سوشل ایکٹویسٹ ڈاکٹر نور شرن سنگھ نے کہا کہ آج فاشزم کا چو طرفہ حملہ ہو رہا ہے۔ آج لوگوں کے ساتھ ملنا، جلنا اور بیٹھنا بھی مجرمانہ کاروائی مانی جا سکتی ہے، اگر کوئی شخص عقل اور صوابدید سے بھرا ہوا ہے تو وہ مجرمانہ دائرے میں آجائے گا۔
عمر خالد کو فاشزم طاقتوں نے پانچ سال سے جیل میں ڈال رکھا ہے۔ جبر اور تقسیم کے اوزاروں کا وحشیانہ استعمال حکومت کے ذریعہ ہو رہے ہیں نو شرن سنگھ نے سی۔اے۔اے کا خلاف عورتوں کی تحریک اور کسان آندولن کی چرچہ کی۔ ان تحریکوں میں ہم عوامی اتحاد اور سنگھرش کی ثقافت کو دیکھتے ہیں۔ ہم فاشزم وادیوں کی نفرت کو اپنی وراثت ، آپسی محبت اور ایکتا کے سہارے شکست دینگے۔کانفرنس میں جن سنسکرتی منچ کے صدر روی بھوشن نے کہا کہ 2014 سے پہلے آزاد بھارت میں کبھی تقسیم کرنے والی طاقتیں مضبوط نہیں تھیں۔ بھاجپا کو اقتدار ملنے کے بعد اس ملک میں ایک بھی جمہوری اور آئینہ ادارے نہیں بچے ہیں۔جمہوریت کے سبھی ستون بکھر گئے ہیں۔جانے مانے دستاویزی فلم کار ویجو ٹوپپو نے کہا کہ جھارکھنڈ میں نقل مکانی مخالف تحریک کی طویل تاریخ رہی ہے جو بتاتا ہے کہ یہ سنگھرش کی زمین ہے۔
ہم نے جل جنگل زمین اور زبان کو بچانے کی لڑائی لڑی ہے اور اپنے گیت نظموں اور ڈرامے سے فاشزم سے لڑرہے ہیں۔پرگتی شیل لیکھک سنگھ کے مہادیو ٹوپپو نے کہا کہ فاشزم اب کوئی اٹکل نہیں ہے بلکہ عریاں رقص کر رہا ہے۔ جیسا کہ مارکسوادی اعجاز احمد کہتے ہیں ہر ملک اپنے ڈھنگ سے فاشزم کا حقدار ہوتا ہے۔ ہندوستان میں صدیوں سے خواتین، دلتوں، آدی باسیوں کے خلاف تشدد سے جو آنکھ چرائی گئی اس نے فاشزم کے لئے ریڈ کارپیٹ بچھایا۔ عمر خالد سے فادر اسٹین سوامی کے معاملے میں سرکار کا ظالمانہ چہرہ سامنے آیا ہے۔ فاشزم کے خلاف لڑائی میں پرگتی شیل لیکھک سنگھ کندھے سے کندھا ملا کر لڑنے کو تیار ہے۔جموں یو نیور سٹی کے پروفیسر راشد نے کہا کہ آج ایسی چیزیں گھٹت ہو رہی ہیں جس کے بارے میں کچھ سال پہلے تک سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ جیسے بازار میں پانی کا فروخت ہونا، ندی کابہاؤ روکا جانا، ہم لوگ بچپن میں دیش بھگتی کا ایک گیت سنا کرتے تھے۔ بارود کے ڈھیر پر بیٹھی ہے یہ دنیا ۔ تم ہر قدم اٹھانا، ذرا دیکھ بھال کے ۔
لیکن آج حالات یہ ہو گئے ہیں کہ ہمارے قدم ٹھٹھک گئے ہیں۔ انہوں نے غزہ میں ازرائیلی وحشی پن اور ایران پر سامراجی حملے پر بھی بات کی۔دستاویز ی فلم کار سنجے کاک نے جمہوری ثقافتی کام کے اپنے تجربوں کا ساجھا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈیکو مینٹری فلمیں پہلے چند لوگوں تک محدو د تھیں، لیکن اب عوام کے مدعوں پر فلمیں بننے لگی ہیں۔ آڈو ٹوریم بھرنے لگے ہیں لیکن ستہ دھاری بھی اسے دیکھ رہے تھے دھیرے دیرے پابندی لگے۔ اسکریننگ روکی جانے لگی۔ انہوں نے آج کی نسل تک پہنچنے کے لئے یو ٹیوب انسٹرا گرام، فیس بک جیسے نئے اسٹیج کا استعمال کرنے کی صلاح دی۔ ان اسٹیج پر دائیں بازوکی فعالیت کی کاٹ ضروری ہے۔جنوادی لیکھک سنگھ کے ایم۔ زیڈ خان نے کہا کہ ہم نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ ڈر سے لب خاموش ہیں ۔ ثقافت کا ننگا ناچ چل رہا ہے گولورکر کے خوابوں کا بھارت بنانے میں ایک خاص طبقے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دھرم سنسند سے ایک خاص طبقے کے صفایے کا کھلا چیلنج کیا جا رہا ہے اور ہر طرف خاموشی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کو آج سیاست سے زیادہ ثقافتی آندولن کی ضرورت ہے۔ایپٹا کے شیلندر نے کہا کہ ہم ایک خوبصورت دنیا کے ساجھے خواب سے بندھے ہیں کہیں بھی غریب کا خون بہتا ہے تو ہمیں درد ہوتا ہے۔ گراسی کے لفظوں میں کہیں تو یہ ذہنی قابض کا زمانہ ہے۔ بھارت میں اسے برہمن وادی انتظام سے کھاد پانی ملا ہے۔ بازار کی ستتا سے، جلوس سے نہیں بلکہ ثقافت سے لڑا جا سکتا ہے۔ ہماری سوچ، تجربوں کو بازاراور کارپوریٹ طے کر رہے ہیں۔ نریندر مودی بھی کارپوریٹ کا پالیٹکل پروڈیوس ہیں۔ جیسے یہی ہے رائٹ چوائس بے بی بتا کر بیچ دیا گیا۔ ہماری محبت اور خوبصورتی نئی دنیا کی تخلیق کرینگے۔افتتاحی اجلاس کی نظامت کرتے ہوئے پروفیسر آشوتوش نے کہا کہ فاشزم ثقافت ، انسداد انقلاب ہے۔
آج آزادی کی جگہ بھگتی، مذہب نے لے لی ہے اور ورن ویوستھا کو قائم کیا جا رہا ہے۔اس انسداد انقلاب کو ہمیں روکنا ہے۔کانفرنس کے دوسرے دن سانگھٹنک ستر تھا۔ جس میں جنرل سکریٹری منوج کمار سنگھ نے فاشزم دور اس کے حملے و چنوتیاں، جن سنسکرتی منچ کے کام کاج پر تبصرے اور آگے کے کام کو لیکر پیپر پیش کیا۔ اس پر ہوئی بحث میں مختلف صوبوں سے آئے ایک درجن سے زیادہ کار کن نے اپنی رائے رکھی اور ان کے سجھاؤ آئے۔ اس اجلاس کے مجلس صدارت کی طرف سے سیارام شرما (چھتس گڑھ) احمد صغیر (بہار) اور کوشل کشور (اُتر پردیش ) نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس اجلاس کی نظامت پریم شنکر نے کی۔
سانگھٹنک ستر کے دوسرے سیشن میں چناؤ عمل میں آیا ، جس میں مشہور فنکار اور شاعر ظہورعالم کو صدر اور ادیب و صحافی منوج کمار سنگھ کو جنرل سکریٹری کی ذمہ داری دی گئی۔ شیو مورتی، رام جی رائے، مدن کشیپ، بھارت مہتا ، لالٹو، سریندر پرشا د سمن اور کوشل کو نائب صدر منتخب کیا گیا۔ وہیں سدھیر سمن ، انوپم سنگھ، روپم مشرا، احمد صغیر اور راج کمار سونی کو سکریٹری اور کے۔کے پانڈے کو خازن چنا گیا۔ سمیلن میں 52 ممبران کو قومی اگزیکٹو اور 213 قومی کونسلر بھی چنے گئے۔ اردو کی طرف سے احمد صغیر ، ڈاکٹر نزہت پروین، ہریندر گیری شاد کا نام شامل ہے۔
٭٭٭
Like this:
Like Loading...