دھنکر کااستعفیٰ یا آپریشن سیندو ر کی پردہ پوشی ؟
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
صدر جمہوریہ کے بعد ملک میں سب بڑا عہدہ نائب صدر کا ہوتا ہے ۔ وہ بر بنائے عہدہ پارلیمان کے ایوان بالا(راجیہ سبھا) کا سربراہ بھی ہوتا ہے۔ ایوانِ پارلیمان میں مانسون اجلاس کا پہلے ہی دن نائب صدر جگدیپ دھنکر نے اچانک استعفیٰ دے کر سب کو چونکا دیاحالانکہ اس سے پہلے شام تقریباً چار بجے ان کے دفتر نے مطلع کیا تھا کہ وہ دودن بعد 23؍ جولائی کو جے پورجائیں گے۔کیا کوئی ایسا شخص جو اپنی بیماری کے سبب نائب صدرکی آرام دہ ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہو وہ دورے کا منصوبہ بناسکتا ہے؟اپنی صحت کی وجوہات کے سبب استعفی دینے والے دھنکر نے فوری طور پر اسے منظور کرنے کی درخواست کی توانہیں امید نہیں رہی ہوگی کہ صدر جمہوریہ دروپدی مرمو اسے منظور کر نے کے لیے تیار بیٹھی ہیں ۔ جگدیپ دھنکر نے چٹ استعفی دیا اور پٹ اسے قبول کرلیا گیا ۔ کسی نے انہیں سمجھانے منانے کی ذرہ برابر کوشش نہیں کی بلکہ ایک غیر معروف بی جے پی رکن پارلیمنٹ گھنشیام تیواری سے جگدیپ دھنکھر کے استعفیٰ کا صدر جمہوریہ ہند دروپدی مرموکی قبولیت کا اعلان کروا دیاگیا۔

جگدیپ دھنکر کے استعفیٰ پر پوری بی جے پی میں سناٹا چھایا گیا تو وزیر اعظم نریندر مودی نے چپیّ توڑ کر ایکس پر مستعفی نائب صدر جگدیپ دھنکر کی صحت کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا مگر نائب صدر سمیت کئی کرداروں میں ان کی خدمات کا ذکرکرنے بعد سراہنے کی فراخدلی بھی نہیں دکھا سکے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے جنتال دل اور کانگریس سے نکل کر بی جے پی میں آنے والے جگدیپ دھنکر کو سنگھ پریوار ٹِشو پیپر کے طور پہلے ممتا بنرجی کے خلاف استعمال کیا ۔ وہاں کی ان کی دبنگائی سے خوش ہوکر انعام کے طور نائب صدر بنایا ۔ اس کا ایک مقصد کسان تحریک کے سبب بی جے پی سے ناراض جاٹ سماج کی نازبرداری بھی تھا ۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ ستیہ پال ملک کسانوں کی ناراضی کے شعلوں پر پلوامہ کا تیل ڈال رہے تھے جگدیپ دھنکر کو حزب اختلاف سمیت عدلیہ پر آگ برسانے کے لیے لایا گیا اور انہوں نے سرکار کی خوب خدمت کی۔ ایک طرف کالیجیم سے لے کر سپریم کورٹ اور بدعنوان جج یشونت ورما پر ٹوٹ پڑے اور دوسری جانب بیک وقت ڈیڑھ سو سے زیادہ ارکان پارلیمان کو ایوان بالا سے معطل کرکے نیا ریکارڈ قائم کیا مگر اس وفادار ٹامی کی یہ بلی ظاہر کرتی ہے سفاکی میں مودی سرکار لاثانی ہے۔
جگدیپ دھنکر نے اگست 2022 میں نائب صدر کا عہدہ سنبھالا تھا اس لیے اگست 2027 تک تو وہ عیش کرہی سکتے تھے۔ اس کے بعد صدارتی محل میں ان کی ترقی کا امکان تھا لیکن درمیان ہی میں ان کے پیروں تلے سے قالین کھینچ لیا گیا اور وہ آناً فاناً دھڑام تختہ ہوگئے۔ویسے ہندوستانی تاریخ میں اپنی مدت کے اختتام سے پہلے استعفیٰ دینے والے وہ پہلے نہیں بلکہ تیسرے نائب صدر ہیں لیکن ان سے قبل دونوں صدر جمہوریہ کے عہدے پر فائز ہونے کی خاطر نکلے تھے اور اجلاس کے دوران بے آبرو ہوکر فارغ ہونے کا شرف حاصل کرنے والی وہ پہلی شخصیت ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دھنکر کی غیر متوقع وداعی پر بی جے پی کو تو رحم نہیں آیا مگر اپوزیشن کے اراکین پارلیمنٹ اور سیاست دانوں کا پیار امنڈ آیا ۔ کسی زعفرانی نے تو ان کے لیے کلمات خیر نہیں کہے مگر جے رام رمیش نے اچھی صحت کی خواہش کے ساتھ ان سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی درخواست کردی اوروزیر اعظم سے توقع کی وہ ان کا فیصلہ بدلنے کے لیے پہل کریں گے۔یہ تو صیاد سے رہائی کی امید جیسی بات ہے۔ رمیش کا ان کے سبب ملک کی کسان برادری کے لیے راحت امید ناقابلِ فہم ہے کیونکہ وہ تو ایک کسان دشمن زعفرانی ٹولے کےمعمولی آلۂ کار تھے۔
اس عہدے پر ملنے والی زبردست عیش و عشرت کو قربان کرنا ہر کسی کےبس کی بات نہیں ہے َ ۔ اسی لیے ایوان بالا کے کانگریسی رکن جے رام رمیش کے یہ انکشافات چونکا نے والے ہیں کہ استعفیٰ کے دن شام 5 بجے تک راجیہ سبھا کے اندراور شام 7:30 بجے بھی وہ ان کے ساتھ تھے۔اگلے دن دوپہر ایک بجے بزنس ایڈوائزری کمیٹی کی میٹنگ وہ عدلیہ کے حوالے کچھ اہم اعلانات کرنے والے تھے۔ یہ قیاس بھی کیا گیا ہے کہ جسٹس ورماکی برخواستگی پر سرکار کے بجائے حزب اختلاف کی عرضی کو قبول کرکے انہیں کریڈٹ لینے میں مدد کرنے کے سبب بی جے پی ان سے ناراض ہوگئی تھی۔ جے رام رمیش کے مطابق راجیہ سبھا کی بزنس ایڈوائزری کمیٹی ایوان کےقائد جے پی نڈا اور پارلیمانی امور کے وزیر کرن رجیجو سمیت زیادہ تر ارکان کی مقررہ نشست میں غیر موجودگی کو دھنکر نے اپنی توہین پر مہمول کیاکیونکہ اسے اگلے دن تک ملتوی کرنا پڑا تھا۔
دھنکر کے حوالے سےگرم قیاس آرائیوں میں ایک جے پی نڈا کا ایوان میں یہ اعلان بھی ہے کہ جو وہ کہیں گے وہی ریکارڈ میں جائے گا ۔ ایوان کے صدر کی حیثیت سے یہ دھنکر کا مخصوص اختیارِ عمل تھا اس لیے ایسا کہنا نائب صدر کی حق تلفی ہے لیکن جہاں عزت نفس کی کوئی حرمت ہی نہ ہو ایسی باتوں کو اہمیت دینا بے معنیٰ ہے۔ میڈیا کے اندر دھنکر پر سنسد ٹی وی کے اندر ملازمت کے حوالے سے نوکری کے بدلے رشوت لینے کے سبب ہٹائے جانے کی بات بھی کی جارہی ہے مگر بی جے پی کی واشنگ مشین میں تو ہزاروں کروڈ کی بدعنوانی کرنے والے پاک صاف ہوکر نکل آتے ہیں ایسے میں یہ معمولی بدعنوانی کس شمارقطار میں ہے؟ پچھلے اجلاس کے دوران وہ اپنے دل کا علاج کرنے کے لیے اسپتال میں داخل تو ہوئے مگر واپس ہوکر استعفیٰ دینے کے بجائے دوبارہ ایوان میں اپنی ذمہ داری کرنے میں جٹ گئے تھے۔ آگے چل کر اگر طبیعت بگڑی ہوتی تو اجلاس سے پہلے اپنا راستہ ناپ سکتے تھےمگر درمیان میں نکل جانا شکوک شبہات پیدا کرتا ہے۔

جگدیپ دھنکر کاکانٹا نکالنے میں غیر معمولی سرعت کا مظاہرہ اور انہیں الوداعیہ دئیے بغیر راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئرمین ہری ونش نارائن سنگھ کو ایوان کی صدارت سونپ دینا بتاتا ہے کہ بی جے پی نے کسی بہت بڑی مصیبت سے خود کو بچانے کے لیے ان کو بلی بکرا بنایاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جگدیپ دھنکر کے استعفے پر دہلی کی سیاست گرما گئی ہے اور میڈیا سمیت اپوزیشن کی ساری توجہ اس پر مرکوز ہوکر رہ گئی ۔ بی جے پی اعلیٰ کمان یہی چاہتا تھا کہ ایوان بالا کے اندر آپریشن سیندور کے تعلق سے اٹھائے جانے والے ملک ارجن کھڑگے کے سنجیدہ سوالات اور اس پر بی جے پی قائدِ ایوان جے پی نڈا کے اوٹ پٹانگ جواب پر میڈیا میں گفتگو نہ ہو ۔ جگدیپ دھنکر کااگر اس وقت استعفیٰ نہیں آتا تو سبھی کی توجہ کھڑگے اور نڈا کے سوال و جواب پر ہوتی ۔ ایوان میں مشکل یہ تھی کہ سرکار حزب اختلاف کو جس مسئلہ پر بولنے سے روک رہی تھی اس پر خود ایوان کے قائد نے جوش میں آکر اپنی چونچ کھول دی تھی اور ادھورا جواب دے کر خاموش ہوگئے تھے کہ تفصیل میں نہیں جائیں گے۔ اس سے آپریشن سیندور پر حکومت کی کمزوری ظاہر ہوگئی مگر دھنکر کے استعفیٰ نے اس خبر کو پوری طرح غائب کردیا ۔
مودی حکومت کے لیے اس خبر کی جانب سے دھیا ن ہٹانا اس لیے بہت ضروری تھا کیونکہ اس میں ٹرمپ کی مداخلت اور ان کے ذریعہ جہازوں کے گرنے کا حوالہ تھا۔ مرکزی حکومت کا حال یہ ہے کہ نہ تو اس میں ٹرمپ کی تردید کرنے کا حوصلہ ہے اور اسے تسلیم کرنے کا دم خم ہے۔ اس لیےجگدیپ دھنکر کے معاملے کو طول دے کر میڈیا کے ذریعہ عوام کو اس میں الجھائے رکھنے کی خاطریہ شوشا چھوڑا گیا اور اب ان کے جانشین کی بابت طرح طرح کے شگوفے چھوڑے جارہے ہیں۔ بعض لوگ سابق چیف جسٹس چندرچوڑ کو نائب صدر بناکر ان کے احسانات کوچکانااور عدلیہ پر گاجر لٹکانے کی اٹکل لگا رہے ہیں توکوئی کہہ رہا ہے کہ نتیش کمار نائب صدر بننے کے خواہشمند تھے ۔ ان کا یہ ارمان پورا کیا جائے گا ۔ اس سے وہ خود بھی جھوم اٹھیں گے اور بہاری رائے دہندگان بھی خوش ہوکرووٹ دے دیں گے۔ اس حکمت عملی سے بہار کے اندر بی جے پی وزیر اعلیٰ کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوجائے گا اور زعفرانی اقتدار کی راہ ہوجائے گی ۔
آپریشن سیندور کے تعلق سے بھی یہی خوش فہمی تھی کہ اس کی مدد سے بہ آسانی بہار فتح ہوجائے گا مگر اب اس کی جانب توجہ ہٹانے کی قوائد ہورہی ہے۔ ماضی میں ایوان کے اجلاس سے قبل اڈانی کی بدعنوانی پر ہنڈن برگ کی رپورٹ آئی تو اس کی جانب سے دھیان ہٹانے کےلیے راہل گاندھی کو عدالت سے سزا دلوا کر رکنیت منسوخ کردی گئی۔پورے سیشن میں لوگ مودی اور اڈانی کے بجائے راہل گاندھی میں الجھے رہے اور جب ہنڈن برگ کو بھول گئے تو راہل کی رکنیت بحال ہوگئی مگر بی جے پی کا کام بھی ہوگیا۔ اس بار بھی یہی ہوگا۔ اجلاس کےختم ہوجانے پر نیا نائب صدر آئے گا اور لوگ دھنکر سمیت ان کے استعفیٰ کو بھول جائیں گےلیکن بی جے پی کی ہیڈ لائن منیجمنٹ کی ترکیب کامیاب ہوجائے گی الاّ یہ کہ حزب اختلاف اس میں نہ الجھے اور آپریشن سیندور پر توجہ مرکوز کرکے حکومت کی ناکامی کو بے نقاب کردے۔


بہت شکریہ ۔ تجزیہ کا انداز بہت اثر انداز کرنے والا ہے ۔