Skip to content
جشنِ آزادی یا آئینی حقوق کی پامالی کا نوحہ؟
(دستور کی کتابی باتیں اور تلخ زمینی سچائیاں: کیا ہم سب واقعی آزاد ہیں؟)
بقلم: ڈاکٹر محمّد عظیم الدین (اکولہ، مہاراشٹر)
—-
جب کوئی قوم اپنی آزادی کا سورج طلوع ہوتا دیکھتی ہے تو درحقیقت وہ ان آفاقی اقدار کا جشن مناتی ہے جن پر اس کی بنیاد رکھی گئی تھی: وقارِ انسانی، مساواتِ کامل، انصافِ بے ریا اور ہر شہری کے بنیادی حقوق کا غیر متزلزل عہد۔ لیکن جب اسی ملک کی سب سے بڑی اقلیت، جس کی آبادی چوبیس کروڑ سے متجاوز ہو اور جس کی جڑیں اسی خاک میں صدیوں سے پیوست ہوں، کا اجتماعی تجربہ منظم امتیاز، عدمِ تحفظ کے گہرے ہوتے مہیب سائے، اور سماجی و سیاسی حاشیہ بندی کی زندہ تصویر بن جائے، تو جشن کی چکاچوند روشنیوں میں ایک روح فرسا سوال جنم لیتا ہے: کیا یہ آزادی سب کے لیے ہے؟ یہ سوال محض ایک جذباتی ردِ عمل نہیں، بلکہ ایک سنجیدہ علمی اور تحقیقی استفسار ہے جس کا جواب دستور کی خشک عبارتوں میں نہیں، بلکہ زمینی حقائق کی سنگلاخ چٹانوں، مستند اعداد و شمار کے آئینے، اور ان معتبر عالمی اداروں کی رپورٹس میں تلاش کرنا ہوگا جو انسانی حقوق اور جمہوری صحت کے بیرومیٹر سمجھے جاتے ہیں۔ بالخصوص گزشتہ دہائی میں، مودی سرکار کے دورِ حکومت میں، بھارت کے مسلمانوں کے لیے شہری، مذہبی اور سیاسی آزادیوں کا دائرہ جس برق رفتاری اور منظم طریقے سے سکڑا ہے، وہ نہ صرف ملک کے سیکولر ڈھانچے کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے بلکہ عالمی سطح پر اس کے جمہوری تشخص پر بھی ایک گہرا سوالیہ نشان ہے۔
اس سوال کی گہرائی کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب ہم دستورِ بھارت کے مقدس عہد نامے کا زمینی حقائق سے موازنہ کرتے ہیں۔ دستور کا دیباچہ اپنے تمام شہریوں کے لیے انصاف، آزادی، مساوات اور اخوت کو یقینی بنانے کا عہد کرتا ہے۔ آرٹیکل 25 تا 28 ضمیر اور مذہب کی آزادی کے ضامن ہیں، جبکہ آرٹیکل 14 اور 15 قانون کی نگاہ میں مساوات اور مذہب، نسل یا ذات کی بنیاد پر ہر قسم کے امتیاز کی قطعی ممانعت کرتے ہیں۔ لیکن ان آئینی وعدوں اور عملی حقیقت کے درمیان حائل خلیج اس وقت ایک وسیع و عمیق کھائی میں بدل جاتی ہے جب ہم امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (USCIRF) جیسی تنظیموں کی سالانہ رپورٹس کا مطالعہ کرتے ہیں، جہاں بھارت کو مسلسل "خاص تشویش ناک ممالک” کی فہرست میں شامل کرنے کی پْرزور سفارش کی جاتی رہی ہے۔ ان رپورٹس کے مطابق، امتیازی قوانین، نفرت انگیز تقاریر، اور اقلیتوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں حکومتی اداروں کا ردِ عمل یا تو مجرمانہ حد تک ناکافی رہا یا بعض اوقات حوصلہ افزا بھی۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی 2024 کی رپورٹ میں واضح کیا کہ کس طرح وزیراعظم نریندر مودی کی انتخابی مہم میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز زبان کا کثرت سے استعمال کیا گیا، جس نے امتیازی سلوک اور تشدد کے ماحول کو مزید ہوا دی۔
یہ منظم ماحول سازی محض بیانات تک محدود نہیں رہی، بلکہ اس نے ایک کثیر جہتی حکمت عملی کی شکل اختیار کر لی ہے جس کا مقصد مسلم شناخت کے ہر پہلو پر حملہ آور ہونا ہے۔ اس کی ابتدا سماجی سطح پر من گھڑت اور تضحیک آمیز اصطلاحات کے ذریعے کی گئی، جن میں "لو جہاد” جیسی سازشی تھیوری سرفہرست ہے۔ اس تصور کے تحت بین المذاہب شادیوں، بالخصوص جہاں مرد مسلمان ہو، کو ہندو خواتین کو جبراً مسلمان بنانے کی ایک منظم مہم قرار دیا جاتا ہے۔ اس بے بنیاد نظریے کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہوئی اور اس نے نوجوان جوڑوں کو ہراساں کرنے، ان پر حملے کرنے اور ان کے خاندانوں کو دھمکانے کا ایک لائسنس فراہم کر دیا۔ اس کے متوازی "گھر واپسی” کے نام سے ایک مہم چلائی گئی جس کا مقصد مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوبارہ ہندو مذہب میں شامل کرنا تھا۔ یہ دونوں مہمات دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ تھے، جن کا مقصد مسلمانوں کی سماجی زندگی اور ذاتی انتخاب کے حق کو سلب کرنا اور ان پر مسلسل نفسیاتی دباؤ برقرار رکھنا تھا۔
جب سماجی تانے بانے کو اس طرح زہریلا کر دیا جائے تو اگلا ہدف اجتماعی شناخت کی علامتیں، یعنی عبادت گاہیں بنتی ہیں۔ مودی حکومت کے دور میں یہ حملہ کئی محاذوں پر کیا گیا۔ ایک طرف تو تاریخی مساجد پر قانونی اور انتظامی دعوؤں کی حوصلہ افزائی کی گئی، جس میں عبادت گاہوں کے سروے کروانے اور ان کے تاریخی کردار کو متنازع بنانے کا عمل شامل تھا۔ یہ حکمت عملی بابری مسجد کے انہدام کے بعد پیدا ہونے والے ماحول کا تسلسل تھی، جسے 1992 میں ہندو قوم پرستوں نے مسمار کر دیا تھا۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اور خود وزیر اعظم مودی کے ہاتھوں اس کا افتتاح، اس بات کا واضح اعلان تھا کہ ملک کی سمت اب سیکولر آئین کے بجائے اکثریتی مذہبی جذبات طے کریں گے۔ دوسری طرف، محض انتظامی بہانوں کی آڑ میں مساجد اور اسلامی مدارس کو مسمار کرنے کا سلسلہ شروع ہوا، جسے "بلڈوزر جسٹس” کا نام دیا گیا۔ فروری 2024 میں اتراکھنڈ اور دہلی میں صرف چند دنوں کے وقفے سے دو مساجد کا انہدام اس کی واضح مثال ہے۔ یہ کارروائیاں محض قانون کے نفاذ کی کارروائیاں نہیں تھیں، بلکہ یہ مسلمانوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش تھیں کہ ان کی مذہبی علامات اور تاریخی ورثہ اب ریاست کے تحفظ میں نہیں ہے۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (USCIRF) نے اپنی اکتوبر 2024 کی اپڈیٹ میں دہلی کی ایک تاریخی مسجد کے انہدام سمیت ان متعدد واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا، جہاں مذہبی مقامات کو دانستہ طور پر نشانہ بنایا گیا۔
شناخت پر حملے کا دائرہ جب مزید وسیع ہوا تو اس نے خواتین کے لباس کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ حجاب پر پابندی کا تنازع، جو کرناٹک سے شروع ہوا، دراصل مسلم خواتین کو تعلیم اور عوامی زندگی سے بے دخل کرنے کی ایک کوشش تھی۔ یہ دلیل دی گئی کہ تعلیمی اداروں میں یکسانیت ہونی چاہیے، لیکن اس دلیل کی آڑ میں مسلم طالبات کو ان کی مذہبی شناخت اور تعلیم میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے پر مجبور کیا گیا۔ معاملہ جب سپریم کورٹ پہنچا تو دو ججوں پر مشتمل بینچ نے ایک منقسم فیصلہ دیا؛ ایک جج نے پابندی کو برقرار رکھا جبکہ دوسرے نے اسے بنیادی حقوق، بالخصوص انتخاب کی آزادی، کے منافی قرار دیا۔ یہ قانونی اختلاف خود اس گہرے سماجی اور نظریاتی تصادم کی عکاسی کرتا ہے جو ملک میں پیدا ہو چکا ہے۔
اس سماجی اور ثقافتی یلغار کے ساتھ ساتھ، قانونی اور آئینی سطح پر بھی مسلمانوں کے تشخص اور حقوق کو کمزور کرنے کی منظم کوششیں کی گئیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال مسلم پرسنل لاء میں مداخلت اور وقف ایکٹ میں ترامیم ہیں۔ مودی حکومت نے خود کو مسلم خواتین کے "محافظ” کے طور پر پیش کرتے ہوئے تین طلاق پر پابندی کا قانون تو بنایا، لیکن اس کی اصل نیت یونیفارم سول کوڈ (UCC) کے نفاذ کی راہ ہموار کرنا تھی، جو طویل عرصے سے ہندو قوم پرست تنظیموں کا ہدف رہا ہے۔ اس کے بعد وقف املاک، جو مسلمانوں کے مذہبی اور فلاحی امور کے لیے وقف ہوتی ہیں، کو نشانہ بنایا گیا۔ وقف (ترمیمی) بل 2024 کے ذریعے حکومت نے وقف بورڈز پر اپنا کنٹرول بڑھانے اور ان کے معاملات میں مداخلت کرنے کے وسیع اختیارات حاصل کر لیے۔ حکومت کا موقف تھا کہ یہ اصلاحات بدعنوانی ختم کرنے کے لیے ہیں، لیکن ناقدین نے اسے مسلمانوں کے مذہبی اداروں کو کمزور کرنے اور ان کی املاک پر قبضہ کرنے کی کوشش قرار دیا۔ یہ سوال اٹھایا گیا کہ اگر حکومت کو اداروں کی شفافیت سے اتنی ہی دلچسپی ہے تو وہ کھربوں روپے کے اثاثے رکھنے والے ہندو مندروں کے ٹرسٹ کو ریگولیٹ کرنے کے لیے کوئی مرکزی قانون کیوں نہیں بناتی؟ یہ دوہرا معیار اس امتیازی سلوک کو بے نقاب کرتا ہے جو ریاست کی پالیسیوں کا خاصہ بن چکا ہے۔
اس سب پر مستزاد، جسمانی تشدد اور عدمِ تحفظ کا وہ خوف ہے جو ہجومی قتل (Mob Lynching) کی صورت میں پورے ملک میں پھیل گیا ہے۔ ‘گاؤ رکشک’ (گائے کے محافظ) کے نام پر ہندو انتہا پسندوں کے گروہوں نے مسلمانوں کو محض شک کی بنیاد پر، کہ وہ گائے کا گوشت کھاتے ہیں یا اس کی اسمگلنگ کرتے ہیں، بے دردی سے قتل کرنا شروع کر دیا۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی 2019 کی رپورٹ میں 2015 سے 2018 کے دوران "44 ہلاکتوں” کو دستاویزی شکل دی، جن میں "36 مقتولین مسلمان” تھے۔ یہ رجحان مودی حکومت کے تیسرے دور میں بھی جاری ہے، جہاں محض چند ہفتوں کے اندر درجنوں مسلمانوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ واقعات اس وقت مزید سنگین صورت اختیار کر گئے جب گائے کے تحفظ کے نام پر تشدد کرنے والے ایک مجرم کو حکمران جماعت بی جے پی نے انتخابات میں ٹکٹ سے نوازا۔ اس طرح کے اقدامات نے قاتلوں اور پرتشدد گروہوں کو یہ پیغام دیا کہ انہیں ریاست کی پشت پناہی حاصل ہے، اور اس نے "لِنچستان” کی اصطلاح کو ایک خوفناک حقیقت میں بدل دیا۔
عدمِ تحفظ کے اس گہرے احساس کو سیاسی بے وزنی اور ساختی امتیاز ایک ناقابلِ برداشت بوجھ میں بدل دیتا ہے۔ کونسل آن فارن ریلیشنز (CFR) کے ایک تفصیلی تجزیے کے مطابق، بھارتی پارلیمان میں مسلمانوں کی نمائندگی ان کی آبادی کے تناسب سے حیرت انگیز حد تک کم ہے۔ 2019 کے بعد ایک طویل عرصے تک حکمران جماعت کا کوئی بھی منتخب مسلمان رکنِ پارلیمان نہ ہونا اس سیاسی خلا کی علامت ہے جو مسلمانوں کو بے آواز کر رہا ہے۔ اور جب سیاسی نمائندگی ختم ہو جائے اور اداروں پر اعتماد متزلزل ہو، تو سب سے بڑا خطرہ یہ ہوتا ہے کہ خود قانون کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جانے لگے۔ 2019 میں منظور ہونے والے شہریت ترمیمی قانون (CAA) کے قواعد کا 2024 میں نفاذ، جسے قومی شہری رجسٹر (NRC) کے ساتھ ملا کر دیکھا جاتا ہے، عالمی ناقدین کے نزدیک ایک ایسا امتزاج ہے جو مذہبی شناخت کی بنیاد پر شہریت کی ازسرِنو تعریف کرتا ہے اور بالخصوص مسلمانوں کے لیے بے وطنی کا ایک ممکنہ خطرہ پیدا کرتا ہے۔
اس پیچیدہ اور مایوس کن منظرنامے میں سوال یہ نہیں کہ جشن منایا جائے یا ماتم۔ سوال یہ ہے کہ اس جشن کو حقیقت کی زمین پر کیسے اتارا جائے؟ ایک بالغ اور ذمہ دار جمہوریت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں کا سامنا کرے اور انہیں دور کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ یہ اصلاحات صرف بھارت کی عالمی ساکھ کے لیے نہیں، بلکہ خود آئینِ بھارت کی روح(سیکولرازم، جمہوریت اور بنیادی حقوق)کی بقا کے لیے ناگزیر ہیں۔ جب ایک ہی گلستاں میں کچھ پھول جشن منا رہے ہوں اور کچھ اپنی بقا کے لیے کانٹوں سے لڑ رہے ہوں، تو یہ اس ملک کی اجتماعی روح کے لیے لمح? فکریہ ہے۔ جشن تبھی بامعنی اور حقیقی ہوگا جب وہ سب کے لیے ہو۔ جب کسی شہری کو اپنی خوراک، لباس یا عبادت کی وجہ سے خوفزدہ نہ ہونا پڑے، جب قانون کا بلڈوزر صرف غریب اور اقلیت پر نہ چلے، جب انصاف کے ترازو سب کے لیے برابر ہوں، اور جب پارلیمان میں ملک کی حقیقی تکثیریت کی جھلک نظر آئے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا، یومِ آزادی کا سورج کروڑوں بھارتی مسلمانوں کے لیے محض ایک تاریخ کا عنوان ہی رہے گا:ایک ایسے نامکمل وعدے کی یاد دہانی، جو ہر سال ان کے احساسِ محرومی کو مزید گہرا کر جاتا ہے۔ اس وعدے کی تکمیل ہی ایک سچے اور مشترکہ جشن کا سویرا طلوع کر سکتی ہے۔
=====
Like this:
Like Loading...