Skip to content
مودی سرکار کومانسون اجلاس نے دھو ڈالا
ازقلم: ڈاکٹر سلیم خان
ایوان پارلیمان کے مانسون اجلاس میں موجودہ سرکار کی جو دھلائی ہوئی ہےماضی میں اس کا تصور محال تھا ۔ کون سوچ سکتا تھا کہ اختتامی دن وزیر اعظم نریندر مودی کے ایوان میں داخل ہوتے ہی ان کا استقبال ’ووٹ چور گدیّ چھوڑ‘ کے نعرے سے ہو گا۔ ایسے مواقع پر کیمرا ہٹا کر مائک بند کردیاجاتا ہے مگرجب جہاں پناہ ہندو ہردیہ سمراٹ پدھار رہےہوں تو کیمرے کی کیا مجال کہ دوسری جانب دیکھے اور ایک فرد نہیں بلکہ سیکڑوں لوگ نعرہ لگا رہے ہوں تو مائک کی کیا ضرورت؟ وزیر اعظم نریندر مودی کی رعونت ان کو ایوان پارلیمان کے اندر آکر کسی کی تقریر سننے کی اجازت نہیں دیتی ۔ اس لیے وہ پارلیمانی کارروائی کے دوران بڑی بے نیاز ی سےملک کےا ندریا باہر دوروں میں مصروف رہتے ہیں۔ دہلی میں ہوکر بھی اپنے دفتر کے اندر تقریر کی مشق کررہے ہوتے ہیں لیکن مخالفین کی تقریر سننے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے اس لیے آخری دن ان کا آنا ضروری تھا لیکن قسمت میں لکھی ذلت و رسوائی ان کو کھینچ کر وہاں لے آئی اور کیمرے کی آنکھ نے اسے محفوظ کرکے دنیا بھر میں پھیلا دیا ۔ نام نہاد ’وشووگرو ‘ کو ارکان پارلیمان نے ایسی گرو دکشنا دی کہ جسے وہ زندگی بھر بھول نہیں سکیں گے ۔ اس کے بعدکم ازکم ایک بارتوانہوں نے اپنی 75؍ ویں سالگرہ پر سبکدوشی کے بارے میں ضرور سوچا ہوگا؟
وزیر اعظم نریندر مودی اگر اس رسوائی کے بعد بفرضِ محال سبکدوش ہوجائیں تب بھی ان کے جانشین امیت شاہ کے لیے کوئی خوشخبری نہیں ہے کیونکہ ایوان بالا میں ان کی تقریر کے دوران ’تڑی پار ، گوبیک ‘ کے نعرے لگے۔ امیت شاہ کے لیے یہ لقب بہت عرصے تک استعمال ہوتا رہا ہے لیکن ۱۱؍ سال قبل پارٹی کا صدر بن جانے کے بعد اس کا استعمال کم ہوگیا تھا۔ آگے چل کر جب وزیر اعظم نے ان کو وزیر داخلہ کے عہدے پر فائز کردیا اور وہ ای ڈی و سی بی آئی کا بے دریغ استعمال کرنے لگے تو لوگ خوف کے مارے اس نعرے کو بھول ہی گئے مگر ایک ایسے وقت میں جبکہ وہ ہر دن وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہونے کے سپنے سجا رہے ہیں ’تڑی پار‘ کے لقب کی واپسی ان کے لیے بہت بری خبر ہے۔ ایک زمانے میں ایوان بالا میں وزیر اعظم نے سینہ ٹھونک کر کہا تھا ’ایک اکیلا سب پر بھاری ہے‘ لیکن آج کل وہ راجیہ سبھا کے قریب نہیں پھٹکتے ۔ آپریشن سیندور اور پہلگام جیسے سنگین مسئلہ پر بحث کا جواب دینے کی خاطر وہاں جانے کی ہمت نہیں جٹا سکے ایسے میں یہ بوجھ ان کے جانشین کو ڈھونا پڑتا ہے مگر اس بار اس کی اجرت ’تڑی پار واپس جاو‘ کے نعرے سے ملی جو نہایت شرمناک صورتحال ہے۔
پارلیمانی اجلاس کے اختتامی لمحات میں امیت شاہ قدرتی آفات کے بندوبست سے متعلق ترمیمی بِل 2024 کو منظور کروانے کے لیے ایوان بالا میں گئے تھے۔ یہ کام ان کے نائب بھی کرسکتے تھے کیونکہ ایوانِ زیریں نے تو اس بِل کو پچھلے سال دسمبر میں ہی منظوری دے دی تھی اس لیے ایوانِ بالا میں یہ ایک رسمی کارروائی سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ امیت شاہ نے سوچا ہوگا کہ اس پر بھی اپنی عادت و ضرورت کے مطابق حزب اختلاف شور شرابہ کرے گا تو وہ انہیں اپنی بھڑاس نکالنے کا موقع مل جائےگا۔ اپنی روایتی شان کے ساتھ وہ اس کو برا بھلا کہنے کے بعد ڈانٹ ڈپٹ کر رسوا کریں گے۔ آج کل ایوان پارلیمان کے اندر وہ یہی سب کرکے اپنا قد اونچا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کون جانتا تھا کہ ان کے منہ پر ایسا نعرہ لگے گا؟ امیت شاہ کو اس کا علم ہوتا تو وہ خود بھی اپنے گرو مودی جی کی مانند کنی کاٹ لیتے۔ایوانِ بالا میں حزب اختلاف کو توقع تھی کہ وزیر اعظم خود تشریف لاکر آپریشن سیندور پر ارکان پارلیمان کو اعتماد میں لیں گے لیکن انہوں نے اپنے مداحوں کو مایوس کرکے وہاں جانےسے گریز کیا ۔ ایسے ان کے مخالفین کو مودی جی کا مشہور چیلنج ’ایک اکیلا سب پر بھاری ‘ یاد آگیا۔ یہ وقت وقت کی بات ہے کہ مشیت ایک ایک غرور کو خاک میں ملا دیا۔
امیت شاہ جس بل کی توثیق کرانے کے لیے آئے تھے اس کا مقصد ملک بھر میں قدرتی آفات سے نمٹنے کی تیاریوں میں اضافہ کرنا ہے۔آج کل آئے دن بادل پھٹنے کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ہماچل پردیش میں تو سیلاب کا پانی اور کیچڑ ایک پورے گاوں کو بہا لے گیا۔ سرکاری ادارے اس سے متاثرین کو راحت پہنچانے میں بری طرح ناکام رہے حالانکہ اس حوالے سے پہلے ہی ایک قانون موجود ہے جس پر موجودہ حکومت عمل نہیں کرپارہی ہے اب ان قدرتی آفات کے بندوبست میں کام کرنے والی قومی اتھارٹی اور ریاستی اتھارٹیز کے کام کاج میں بہتری لانے کے لیے ایک ترمیم پیش کی گئی جس کی چنداں ضرورت نہیں تھی لیکن اس کی منظوری دراصل امیت شاہ کے لیے ایک سیاسی آفت بن گئی۔ اس بل پر بحث کا جواب دیتے ہوئے مرکزی وزیر امیت شاہ نے کہا کہ قدرتی آفات کے حجم اور رفتار میں تبدیلی آئی ہے لہٰذا ان سے نمٹنے کے طریقہ ٔ کار میں بھی تبدیلی ہونی چاہیے۔ مودی اور شاہ کو بارانی اجلاس میں احساس ہوا ہوگا کہ سرکار کے لیے سیاسی آفات کے حجم اور رفتار میں بھی غیر معمولی تبدیلی آئی ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے اب ڈانٹ ڈپٹ اورمسخرہ پن کافی نہیں ہے۔
دنیا میں جب کوئی اقتدار عروج کی جانب رواں دواں ہوتا ہے تو وہ مشکلات کو بھی اپنے لیے مواقع میں بدل دیتا ہے۔ وزیر اعظم کا نعرہ ’آپدا میں اوسر ‘ اسی حقیقت کا غماز ہے اور انہوں نے کورونا جیسی وباء کے دوران بھی اسے استعمال کیا تھا لیکن کوئی زوال پذیراقتدار کا معاملہ اس کے برعکس ہوجاتا ہے۔یہ پارلیمانی اجلاس آپریشن سیندور کے فتح کا جشن اس لیے قرار دیا گیا تھا کیونکہ اس میں مذکورہ فوجی مہم پر بحث ہونی تھی۔ مباحثے کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر دفاع نے حزب ِ اختلاف کویہ پوچھنے کے بجائے کہ ہمارے کتنے جہاز گرے الٹا دشمن کے کتنے جہاز گرائےیہ سوال کرنے کی نصیحت لگائی۔ سوال یہ ہے اس خوشخبری کا انکشاف کرنے کے لیے موصوف حزب اختلاف کی جانب سے استفسار کے محتاج کیوں ہیں؟ انہیں بغیر پوچھے یہ بات ملک اور دنیا کو بتانی چاہیے جیسے پاکستان کے وزیر خارجہ نے بتائی۔
وزیر دفاع کے نصیحت آمیز پروچن کے بعد وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ نے بھی ایوان سے خطاب کیا ۔ وہ دونوں بھی اس بابت خاموش رہے جبکہ اپوزیشن کی جانب سوالات کی بوچھار جاری رہی اور حملے ہوتے رہے۔اپنے سارے سپہ سالاروں کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی آئے تو ان سے امید تھی کہ کم ازکم وہی یہ مژدہ سنا دیتے لیکن ایسابھی نہیں ہوا۔ اپنی طول طویل تقریر میں موصوف نے دنیا جہان کی باتیں کیں مگر یہ نہیں بتایا ہم نے پاکستان کے کتنے ہوائی جہاز گرائے۔ ایوان کا اجلاس ابھی ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ درمیان میں اچانک ہوائی فوج کے سربراہ جنرل اے کے سنگھ نے بنگلورو شہر میں جاکر ایک مذاکرے کے اندر پاکستان کے ۶؍ جہازوں کو گرانے کا دعویٰ کردیا اور اس کے حق میں کوئی ثبوت بھی پیش نہیں کیا۔ حیرت کی بات یہ بھی تھی کہ اس اہم ترین انکشاف سے ا پناخظاب شروع کرنے کے بجائے بالکل آخر میں اسے رکھا گیا ہے۔ اس سےبظاہر ایسا محسوس ہوا کہ گویاحکومت فوج کے پیچھے چھپ رہی ہے۔
حالیہ مانسون اجلاس میں شروع سے ہی حکومت کے ستارے گردش میں رہے۔ پہلے جسٹس یشونت سنہا کے مواخذے کی خاطر حزب اختلاف کی تحریک کو جگدیپ دھنکر نے ایوانِ بالا میں بحث کے لیے منظور کرلیا۔ اس جرم عظیم کی انہیں دوہری سزا ملی یعنی استعفیٰ دینے باوجود ہنوز لاپتہ کردئیے گئے۔ اس کے بعد پہلگام میں حفاظتی کوتاہی اور آپریشن سیندور میں جہازوں کی تباہی کا جواب دینے میں حکومت ناکام ہوگئی۔ درمیان میں آپریشن مہادیو کے نام پر پہلگام کے حملہ آوروں کوہلاک کردینے کا امیت شاہ نے اعلان تو کردیا مگر اس پر بھگتوں نے بھی اعتبار نہیں کیا ہوگا۔ ٹرمپ کی جنگ بندی کو لے کر راہل گاندھی کے چیلنج کا جواب دینے کے بجائے وزیر اعظم مودی پانی کے کڑوے گھونٹ پیتے نظر آئے۔بہار کی ایس آئی آر پر الیکشن کمیشن کے خلاف سپریم کورٹ کے تبصروں نے حکومت و کمیشن دونوں کا وقار خاک میں ملا دیا۔الیکشن کمشنر کی پریس کانفرنس کا داوں الٹا پڑگیا اور اختتام کے وقت ’ووٹ چور گدیّ چھوڑ ‘ اور ’تڑی پار گوبیک‘ کے فلک شگاف نعروں نے پردہ گرایا۔ یہ ایسا اینٹی کلائمکس ہے کہ مبادہ وزیر اعظم اب دوبارہ اپنی تقریر کے علاوہ ایوانِ پارلیمان میں قدم رکھنے کی جرأت نہیں کریں گے۔ بیچارے امیت شاہ کا حال تو یہ ہے کہ ’ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن ‘ یعنی کہا بھی نہ جائے اور سہا بھی نہ جائے لیکن اقتدار کی خاطر یہ سب کرنا پڑتا ہے۔ ان کی حالت زار پر غلام بھیک نیرنگ کے یہ دو اشعار صادق آتے ہیں؎
اک ہجوم غم و کلفت ہے خدا خیر کرے
جان پر نت نئی آفت ہے خدا خیر کرے
جائے ماندن ہمیں حاصل ہے نہ پائے رفتن
کچھ مصیبت سی مصیبت ہے خدا خیر کرے
Like this:
Like Loading...