Skip to content
مدرسوں کو سیل کرنے کا معاملہ: جمعیۃ علماء ہند کی عرضی پر اتراکھنڈ حکومت کو نوٹس جاری
نیو دہلی،27اگسٹ(ایجنسیز)
صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کی عرضی پر 21 اکتوبر 2024 کو سابق چیف جسٹس وی آئی چندرچوڑ کی سربراہی والی 3 رکنی بینچ نے مدارس اسلامیہ کے خلاف کسی بھی کارروائی پر اور ان تمام نوٹسوں روک لگا دی تھی جو مختلف ریاستوں، خاص پر اترپردیش اور اتراکھنڈ حکومت کے ذریعے مدارس کو جاری کئے گئے تھے۔ اس میں کہا گیا تھا کہ عدالت کی طرف سے مزید نوٹس جاری کئے جانے تک کی مدت کے دوران اس تعلق سے اگر کوئی نوٹس یا حکم نامہ مرکز یا ریاست کی طرف سے جاری ہوتا ہے تو اس پر بھی بدستور روک جاری رہے گی۔ اس کے باوجود اترپردیش، تریپورہ اور اتراکھنڈ وغیرہ میں مدارس کے خلاف ہونے والی غیر منصفانہ اور امتیازی کارروائی ہو رہی تھی، جس کے خلاف جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی تھی۔ اس پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے 14 مئی 2025 کو جمعیۃ علماء ہند کو اتراکھنڈ ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔
اس ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اتراکھنڈ ہائی کورٹ میں ایک عرضی داخل کی گئی تھی، جس پر آج سماعت ہوئی۔ اپنی اس عرضی میں جمعیۃ علماء ہند نے کہا ہے کہ اتراکھنڈ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ 2016 میں رجسٹریشن کو لازمی قرار نہیں دیا گیا ہے اور نہ ہی غیر رجسٹرڈ شدہ مدرسوں کو غیر قانونی کہا گیا ہے۔ پٹیشن میں اس بات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے کہ حق تعلیم ترمیمی ایکٹ 2012 میں واضح طور پر مدرسوں، ویدک پاٹھ شالاؤں اور اس نوعیت کے دیگر تعلیمی اداروں کو اس قانون سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ عرضی میں سپریم کورٹ کے ایسے متعدد فیصلوں کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جن میں اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور انہیں چلانے کے غیر محدود حق کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں ریاست کی مداخلت سے تحفظ بھی فراہم کیا گیا ہے۔ عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اتراکھنڈ میں صرف مدرسوں کو نشانہ بنانا غیر آئینی، امتیازی اور بدنیتی پر مبنی عمل ہے۔
Like this:
Like Loading...