Skip to content
لاپتہ جگدیپ دھنکر کا استعفیٰ:دیا کس نے؟ لیاکس نے؟؟
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
مشیت الٰہی کے انتقام نے سنگھ پریوار کو اپنی عمر کے 100؍ ویں سال میں خانہ جنگی کا شکارکردیا ۔ اس کاثبوت یہ ہے کہ تھکے ماندےوزیر اعظم نریندر مودی کو حالیہ مانسون اجلاس میں ایوانِ زیرین کی تقریر کے دوران تین بار پانی پینا پڑا اور ایوان بالا میں تو وہ گئے ہی نہیں ۔ ایسے میں ان کے دستِ راست امیت شاہ سرکار چلارہے ہیں ۔ وزیر اعظم انہیں کو راج پاٹ سونپ کر اپنی باقی زندگی صدارتی محل میں گزارنا چاہتے ہیں مگر آر ایس ایس کو یہ منظور نہیں ہے کیونکہ سنگھ کو اندیشہ ہے کہ یہ جلدباز انسان نہایت قلیل عرصے میں اس کی سو سالہ محنت پر پانی پھیر دے گا۔ امیت شاہ کے بگڑیل طریقۂ کار کی تازہ ترین مثال جگدیپ دھنکرکا استعفیٰ اور سیاسی افق سے غائب ہوجانا ہے۔ ان پر مودی سرکار کو گرانے کی خاطر حزب اختلاف کو ترغیب دینےکا الزام ہے۔ یہ اگر حقیقت ہو تب بھی اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے؟ امیت شاہ ملک بھر میں نہ جانے کتنی ریاستی سرکاریں گرا کر فخرجتا چکے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی مودی سرکار کو گرانا چاہے تو یہ اس کا حق ہے۔ امیت شاہ کو چاہیے تھا کہ وہ سیاسی طور پر اس کوشش کو ناکام بناتے اور یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا لیکن ان کی نااہلی نے اس آسان کام کو حکومت کے گلے کی ہڈی بنادیا۔
جگدیپ دھنکر اگر مودی سرکار کو گرانے کی سازش میں ملوث ہو بھی گئے تھے تو ان کاکانٹا نکالنے کے لیے اسپتال میں داخل ہونے کا ڈرامہ کیا جاسکتا تھا۔ ویسے بھی چند ماہ قبل ان کے قلب کاعلاج ہوچکا تھا۔ دوچار دن اسپتال میں آرام فرمانےکے بعد وہاں سے استعفیٰ بھیج دیتےتو کسی کو شبہ نہیں ہوتا۔ سانپ بھی مرجاتا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی لیکن ایک حماقت نے زندہ سانپ کو ٹوٹی ہوئی لاٹھی کی مدد سے یرغمال بنانے پرمجبور کردیا ہے۔ اس پر ذرائع ابلاغ میں اتنا ہنگامہ کھڑا ہوا کہ بادلِ نخواستہ خود وزیر داخلہ کو انٹرویو دے کر صفائی دینی پڑی۔ اس کے باوجود کسی سوال کا جواب تو نہیں ملا الٹا نئے سوالات پیدا ہوگئے۔ آر ایس ایس کو امیت شاہ کی اس کمزوری کا علم ہے اس لیے وہ نہیں چاہتا کہ ان کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور آئے لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کو ان کے سوا کسی پر اعتماد نہیں ہے۔ انہیں تو ڈر ہے کہ اگر کوئی موہن بھاگوت کا پسندیدہ فرد وزیر اعظم بن جائے تو وہ انتقام لینے کی خاطر ان کی حالت لال کرشن اڈوانی سے بھی بری کردے گا۔ وہ بھی گھٹ گھٹ کر مرنے کے لیے مجبور کردئیے جائیں گے اور ان کی حالتِ زار پر کسی آنکھ میں ایک آنسو نہ ہوگا بلکہ بہت سارے لوگوں کے دل ٹھنڈے ہوجائیں گے۔
سابق نائب صدر جگدیپ دھنکر کی گمشدگی پر پسری ہوئی پر اسرار خاموشی کے تالاپ میں پتھر مارنے کا کام سب سے پہلے آزاد رکن پارلیمنٹ کپل سبل نے کیا ۔ انہوں نے کہا تھاکہ لاپتہ لیڈیز نامی فلم کے بارے میں تو خوب سناہے مگر ’’لاپتہ نائب صدر‘‘ کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ موصوف کے اہل خانہ اور قریبی ساتھی بھی کوئی تازہ اطلاع فراہم نہیں کر پارہے ہیں۔سبل نےپوچھا ’’وزارت داخلہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ دھنکر کہاں ہیں؟کیا انہیں نظر بند رکھا گیا ہے؟ انہیں میڈیا سے گفتگو کیوں نہیں کرنے دی جاتی؟سبل کے مطابق وزارتِ داخلہ کو ملک کے سابق نائب صدر کی موجودہ صورتحال اور سلامتی سے متعلق مکمل معلومات کو اپوزیشن اور عوام سے شیئر کرنا چاہئے ۔‘‘ سبل نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ وزیر داخلہ امیت شاہ وضاحت کریں ورنہ وہ سپریم کورٹ میں دھنکر کے تعلق سے مجبوراً سپریم کورٹ میں حبس بے جا کی عرضی داخل کریں گے تاکہ دھنکر کو عدالت میں پیش کرنے پر مودی حکومت کو مجبور کیا جاسکےیا کم از کم ان کی خیریت کے بارے میں حتمی معلومات فراہم ہو جائے۔
کپل سبل اگر اپنے ارادوں پر عمل کرتے تویہ ایک غیرمعمولی قانونی قدم ہوتاکیونکہ عموماً لاپتہ افراد یا غیرقانونی حراست کے معاملات میں ایسا کیا جاتا ہے لیکن کسی سابق نائب صدر کیلئے اس کااستعمال قومی ہزیمت کی علامت ہے۔انہوں نےخبردار کیا تھاکہ ایسی راز داری جمہوریت میں نہیں ہونی چاہیے۔ سبل اس حد تک جانےکی یہ وجہ بتائی تھی کہ چند روز قبل جب انہوں نے جگدیپ دھنکر کو فون کیا تھا تواس کا جواب ان کے ذاتی عملے نے دیااور کہا کہ وہ آرام کر رہے ہیں۔ اس کے بعد کئی کوششوں کے باوجود کوئی رابطہ ممکن نہیں ہوا۔ یہی تجربہ کئی دیگر اپوزیشن رہنماوں کو بھی ہوا۔ ان سبھی نے کہا کہ یا تو کالز ریسیو نہیں ہو رہی ہیں یا گول مول جواب دیا جارہا ہے۔ اسی کے بعد سے یہ شبہ جڑ پکڑ رہا ہے کہ کہیں نہ کہیں دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ کپل سبل نے یاد دلایا کہ دھنکرتو حکومت کے حامی سمجھے جاتے تھے۔ اگر واقعی استعفیٰ کے پیچھے کوئی دباؤ یا اختلاف ہے تو یہ انتہائی اہم ہے۔کپل سبل کے مطابق یہ معاملہ محض ذاتی یا طبی نوعیت کا نہیں ہے بلکہ اس میں ممکنہ طور پر کچھ پوشیدہ خطرات بھی شامل ہیں۔ وہ بولے اگر امیت شاہ یا حکومت کی جانب سے واضح بیان نہیں دیا گئی تو یہ معاملہ عدالت تک جا سکتا ہے جس سے آئینی اور سیاسی دونوں محاذوں پر زبردست ہلچل مچے گی ۔ جگدیپ جیسے وفادار کی حالتِ زار پر حفیظ میرٹھی کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
ہاں اک نظر حفیظؔ پہ عبرت کے واسطے کیا رہ گئی ہے قدر وفا دیکھتے چلیں
سابق نائب صدرجمہوریہ جگدیپ دھنکر سے متعلق یہ کہانی بنائی گئی تھی کہ ۲۱؍ جولائی کو انہوں نے اچانک صدر جمہوریہ سے ملاقات کیلئے وقت لیا اور صحت کا حوالہ دیتے ہوئے استعفیٰ دےدیا ۔ اس پراجے باسودیو بوس نامی آر ٹی آئی رضاکار نے راشٹر پتی بھون سے یہ معلوم کرنے کیلئے آرٹی آئی داخل کردی کہ دھنکر صدر جمہوریہ سے کب ملے؟ تو جواب میں راشٹر پتی بھون نے لاعلمی کااظہار کردیا ۔ ایسے میں بوس پوچھتے ہیں کہ سابق نائب صدر کو صدر جمہوریہ سے ملاقات کا وقت دیابھی گیاتھا یا ملاقات کےبغیر ہی مودی حکومت نے انہیں استعفیٰ بھیج دینے پر مجبور کیا ؟ کیونکہ صدر جمہوریہ سے نائب صدر کی ملاقات ہواور اس کا ریکارڈ نہ رکھا جائے یہ تو ناممکن ہے۔ اجے باسودیو بوس نے آر ٹی آئی میں یہ سوال بھی کیاتھا کہ صدر جمہوریہ نے جگدیپ دھنکر کا استعفیٰ کس وقت قبول کیا؟اس کا سیدھا جواب دینے کے بجائے بتایاگیا کہ وزارت داخلہ نے 22؍ جولائی 2025ء کو دھنکر کے استعفیٰ کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے صدر مملکت نے استعفیٰ ہی منظور نہیں کیا اور وزارت داخلہ تو یہ حق ہی نہیں تھا ۔ اس سے لحاظ سے وہی نائب صدر ہیں اور نئی انتخابی مشق غیر قانونی ہے۔ سچ تو یہ کہ امیت شاہ نے مودی حکومت کو بہت بڑی مصیبت میں مبتلا کر دیا ہے۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ مذکورہ بالا وضاحت اسی دن آئی جب راہل گاندھی نے جگدیپ دھنکر کے استعفیٰ پر مرکزی حکومت پر تنقید کی تھی۔ انہوں نے 20 اگست کونئی آئینی ترمیم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاتھاکہ، ’ہم قرون وسطی کے دور میں واپس جا رہے ہیں جب بادشاہ اپنی مرضی سے کسی کو بھی ہٹا سکتا تھا۔ منتخب شخص کیا ہوتا ہے اس کا کوئی تصورباقی نہیں ہے۔ اسے آپ کا چہرہ پسند نہیں ہے، اس لیے وہ ای ڈی سے مقدمہ درج کرنے کو کہتا ہے اور پھر جمہوری طور پر منتخب شخص کو 30 دنوں کے اندر ہٹا دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ نہ بھولیں کہ ہم ایک نئے نائب صدر کا انتخاب کیوں کر رہے ہیں۔ ابھی کل ہی میں کسی سے بات کر رہا تھا اور میں نے کہا، آپ جانتے ہیں، پرانے نائب صدر کہاں گئے؟‘ اس کے ایک دن بعد شیوسینا کے رکن پارلیمنٹ سنجے راؤت نے روز مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو خط لکھ کر سابق نائب صدر جگدیپ دھن کھڑ کی موجودہ حالت اور مقام کے بارے میں تشویش کا اظہار کرکےوضاحت طلب کی تھی ۔
راوت نے سابق نائب صدر کو ’’گھر میں نظر بند‘‘ کرنےیا غیر محفوظ ہونے کی افواہوں کا تذکرہ کرکے امیت شاہ کو لکھا تھا کہ ’’سپریم کورٹ کے دروازے کھٹکھٹانے سے پہلے میں نے مناسب سمجھا کہ یہ معلومات آپ سے طلب کروں۔‘‘ اس چہار جانب سے بڑھتے دباو کے سبب وزیر داخلہ امیت شاہ کا ایک کھوکھلا انٹرویو سرکاری آلۂ کار آئی اے این ایس نے نشرکیا جس میں کسی سوال کا معقول جواب موجود نہیں تھا۔ وزیر داخلہ امت شاہ کے بیان پر جئے رام رمیش نے کہا کہ ملک کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی نائب صدر کے استعفیٰ کے ساتھ ہی انہیں خاموش کرنے کی بھی بات ہوئی ہے۔اب پی ٹی آئی کے حوالے سےیہ خبرپھیلائی جارہی ہے کہ وہ اپنے خیر خواہوں کے ساتھ ٹیبل ٹینس کھیل رہے ہیں لیکن وہ نامعلوم خیر خواہ کون ہیں یہ کوئی نہیں جانتا۔ اس کے ثبوت میں کوئی تصویر یا ویڈیوزکا نہ ہونا بھی شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ اس غیر ضروری تنازع کی وجہ وہ آمرانہ ذہنیت کہ ’تم نےبغاوت کی جرأت کیسے کی ہم نہایت بھونڈے طریقے سے تمہیں ایسا سبق سکھائیں گے کہ نسلیں یاد رکھیں گی اور کوئی دوسرا یہ ہمت کرنے کی سوچے گا بھی نہیں‘۔ امیت شاہ کی اسی کمزوری کے سبب سنگھ پریوار انہیں وزارت عظمیٰ کی کرسی پر نہیں دیکھنا چاہتا اور یہی مودی اور سنگھ کے درمیان برپا سرد جنگ کی بنیادی وجہ ہے۔
Like this:
Like Loading...