مولانا آزادؒ کا گاندھی جی اور سرکردہ قائدین کے سامنے جمعیۃ علماء کی قربانیوں کا تذکرہ ۔ مولانا حافظ پیر شبیر احمدکا بیان
حیدرآباد(14/ اگست 2024ء)
حضرت مولانا حافظ پیر شبیر احمد صدر جمعیۃ علماء تلنگانہ و آندھرا پردیش نے اپنے بیان میں کہا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کی ہمہ گیر شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ان کی شخصیت کے بہت سے پہلو ہیں۔ وہ اگر مجاہد آزاد تھے تو ایک عالم دین بھی تھے۔ انہیں قرآن، فقہ، علم الکلام، علم الحدیث پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔ ایک عظیم خطیب، زبردست صحافی، عالی مرتبت مجتہد، عظیم دانشور، بلند پایہ مفکر، فلسفی اور جنگ آزادی کے عظیم قومی رہنما تھے۔ آپ نے ملک کی آزادی کی جد وجہد میں بہت اہم رول ادا کیا بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مولانا کی آزادی کے لئے کی جانے والی جدوجہد ان گنت نقوش مہاتما گاندھی جی پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
آپ نے اس ملک و قوم کے لیے جو خدمات انجام دی ہیں وہ ہمیشہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔(1930ء) میں کانگریس کے اجلاس عام کے بعد جمعیۃ علماء ہند کا سالانہ اجلاس جو کراچی میں بصدارت مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم منعقد ہوا تھا۔جمعی? علماء ہند کے اس عظیم الشان اجلاس میں تحریک آزادی ہند کے تقریباً تمام ہی صف اول کے رہنما شریک تھے اور غیر مسلم رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد مسلم رہنماؤں کے نقطہائے نظر سننے کے لئے آئی تھی گاندھی جی اور دوسرے غیر مسلم رہنماؤں کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں مولانا آزاد نے اپنی بصیرت افروز صدارتی تقریر میں ارشاد فرماتے ہوئے گاندھی کو خطاب کر کے فرمایا تھا کہ۔
ہندوستان کی تاریخ میں اس حقیقت کو کبھی بھلایا نہ جاسکے گا کہ جب وہ وقت آیا کہ ہندوستان کے ہاتھ غلامی کی زنجیروں میں بندھ گئے اور وطن عزیز کے پیروں میں بدیسی سامراج کی بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں ایسے وقت میں فرزندان وطن کا وہ طبقہ جو جدید تعلیم کی اعلیٰ امتیازات سے بہرہ مند اور نئی روشنی کو اپنے دل و دماغوں میں سمائے ہوئے تھا کالجوں۔ یونیورسٹیوں سے نکلی ہوئی وکیلوں۔ پروفیسروں۔ ڈاکٹروں اور تربیت یافتہ دماغوں کی وہ فوجیں جنھوں نے فلسفہ اور تاریخ کو بار بار دھرایا تھا۔ جنھیں انقلاب امریکہ و فرانس کی داستانیں از بر یاد تھیں
ان کے کان خود اپنے وطن میں انقلاب کی صداؤں کو نہ سن سکے اور ان کی نگاہیں کوئی را تلاش نہ کر سکیں غیر ملکی اقتدار و شوکت سے وہ اس درجہ مرعوب ہوئے کہ علم وعمل کے دروازے پر کنجیاں ان کے ہاتھ سے گر گئیں لیکن ٹھیک اسی وقت ایک دوسرا طبقہ جو قدیم روایات کا حامل اور پرانی تعلیم و طریقہ کا علمبردار تھا اْٹھا اور وقت کے تقاضوں کے پورے احساس اور جوش عمل کیسا تھ میدان کی طرف بڑھا۔ آج ہم اس طبقہ کو جنگ آزادی کے صف اول میں دیکھ رہے ہیں وہ طبقہ غریب شکستہ حال بوریہ نشیں علماء کرام کا تھا جو آج آپ کے سامنے اشارہ کرتے ہوئے اس اجلاس میں موجود ہے۔
مولانا آزاد جنگ آزادی کے ایک ہیرو ہی نہیں تھے بلکہ انگریزوں کے خلاف لڑنے والے آزادی کے لئے ایک حوصلہ مند سپہ سالار تھے۔ انہوں نے زندگی کے آخری لمحات تک ملک و قوم کی خدمت کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ قوم کے سچے سپوت ہیں۔ مولانا کی قومی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے گاندھی جی نے کہا تھا ’’مولانا آزاد انڈین نیشنل کانگریس کے اعلیٰ ترین سردار ہیں اور ہندوستانی سیاست کا مطالعہ کرنے والے ہر ایک شخص کو چاہئے کہ وہ اس حقیقت کو نظر انداز نہ کرے۔وہ اس میدان میں اپنی مستقل مزاجی کے ساتھ قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کرکے حب الوطنی، قومی یکجہتی کے اعلیٰ سے اعلیٰ مثالیں پیش کیں۔