جنگ آزادی سے بھاگنے والوں کا برسا منڈے کو خراجِ عقیدت
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
78؍ ویں یوم آزادی کے موقع پر امسال 15؍ اگست کو وزیر اعظم نریندر مودی نے لگاتار 11 ویں مرتبہ لال قلعہ سے خطاب کیا ۔ پچھلے سال انہوں نے کہا تھا ’’ آئندہ 15؍ اگست کو میں دوبارہ آؤں گا۔‘‘ ان کی یہ بات درست نکلی لیکن کون جانتا تھا کہ’’اب کی بار چارسو پار‘‘ کرکے آنے والے وزیر اعظم دو عدد بیساکھیوں کے سہارے تھکے ماندے لڑ کھڑاتے ہوئے تشریف لائیں گے۔ پچھلی اور اس بار کی تقریر میں بہت ساری باتیں مشترک تھیں مثلاً انتخاب سے پہلے اور بعددونوں میں وہ پردھان منتری کم اور پرچار منتری زیادہ نظر آئے۔ قوم سے ان کا خطاب ہریانہ اور جموں کشمیر کی انتخابی مہم کا حصہ تھا۔ مودی جی کی مصیبت یہ ہے کہ انہیں بھاشن بازی کے سوا نہ کچھ آتا ہے اور نہ اچھا لگتا ہے۔ پہلے ان کی پارٹی کو ایسا لگتا تھا کہ موصوف کے آنے سے کامیابی مل جاتی ہے اس لیے وہ خوب بلائے جاتے تھے اور انہیں اپنے ارمان نکالنے کا موقع مل جاتا تھا ۔ اب ان کا دورہ ناکامی کی گارنٹی بن گیا اس لیے کوئی بلانے کی زحمت نہیں کرتا ورنہ ابھی تک ان چار ریاستوں میں جہاں ریاستی و ضمنی الیکشن ہونے والے تھے نہ جانے کتنی بار وہ مختلف بہانوں سے خطاب کرچکے ہوتے۔ اس لیےوزیر اعظم اب غیر ملکی دوروں اور سرکاری تقریبات پر گزارہ کررہےہیں ۔
لال قلعہ کی فصیل سے وزیر اعظم کی تقریر نے سنیل گاوسکر کی یاد تازہ کر دی ۔ وہ لِٹل ماسٹر اپنے کیریر کے آخری ایام میں یک روزہ میچ کے اندر جب دھیمے دھیمے اپنی سنچری مکمل کرتا تو ٹیم ہار جاتی۔ اس لیے مخالفین ان کی طویل العمر اننگز کے لیے دعاگو ہوتے اور اپنی ٹیم کے لوگ چاہتے کہ وہ جلد ازجلد آوٹ ہوکر پویلین میں لوٹ جائیں۔ مودی جی اس تقریر کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ حزب اختلاف چاہتا تھا کہ وہ زیادہ سےزیادہ بول کر ان کو مخالفت کا مواد فراہم کریں اور حامی پریشان تھے کہ کس طرح ان کی چونچ بند کرکے پارٹی کوخسارے سے بچایاجائے۔ وزیر اعظم نے پچھلی بار کی طرح اس مرتبہ بھی اپوزیشن اور کانگریس پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’آج اقربا پروری نے ہمارے ملک کو برباد کر دیا ہے‘‘۔ملک کی ترقی کے لیے خاندان پرستی سے آزادی ضروری ہےحالانکہ وہ بھول گئے کہ بی جے پی ارکان پارلیمان میں بانسری سوراج سے لے کر انوراگ ٹھاکر تک اور وکرما دیتیہ سندھیا سے اشوک چوہان تک بیشتر ارکان پارلیمان کو سیاست وراثت میں ملی ہے۔
وزیر اعظم نےخوشامد کی سیاست کو سماجی انصاف کا قاتل قرار دیاحالانکہ ذات پات کی بنیاد پر رائے شماری کی مخالفت کرکے وہ خود عدلِ اجتماعی کے سب سے بڑے دشمن بن چکے ہیں۔ ہندووں کی خوشامد کے لیے انہوں نے بنگلہ دیش کے اندر اقلیتوں پر مظالم کے خلاف آواز اٹھائی ۔ اس طرح وزیر اعظم نے پہلی بار اعتراف کیا کہ اقلیتیں ظلم و جور کا شکار بھی ہوتی ہیں ورنہ پہلے تو وہ اس کے قائل ہی نہیں تھے۔ بنگلہ دیش میں تو عوامی لیگ کے مسلم و ہندو حامی تشدد کا شکار ہوئےہیں ۔ وہاں مذہب کی بنیاد پر نہ تو ماب لنچنگ ہوئی اورنہ عبادتگاہوں پر حملے ہوئے۔ الٹا مسلم طلبا نے ہندو مندروں اور چرچوں کی پہرہ داری کی۔ وطن عزیز میں ایسا نظارہ دیکھنے کو آنکھیں ترس جاتی ہیں۔ اس کے باوجود اقلیتوں نے اپنے تحفظ کا مطالبہ کرنے کے لیے امن مارچ نکالا ۔ وطن عزیز میں تو اقلیتوں کی حمایت میں صدا بلند کرنے والا اکثریتی طبقہ بھی معتوب کیا جاتا ہے۔ ہرش مندر سے لے کر پرشانت بھوشن اور سنجیو بھٹ جیسے نہ جانے کتنے لوگ اس کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس کے برعکس عبوری حکومت کے نگراں ڈاکٹر محمد یونس نے مندر میں جاکر ہندووں کو تحفظ کا یقین دلایا۔ ۲۲؍سال قبل اٹل جی نے مودی کو جس راج دھرم کی تلقین کی تھی اس پر محمدیونس نے عمل کیا ؟
بنگلہ دیش کےبارے میں وزیر اعظم نے کہا ہندوستان ہمیشہ چاہتا ہے کہ ہمارے پڑوسی ممالک خوشی اور امن کی راہ پر چلیں۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ بہت جلد بنگلہ دیش ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا۔بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے اندر شیخ حسینہ کے خلاف عوامی جذبات کا اندازہ لگانے میں مودی سرکار بری طرح ناکام ہوگئی اور ایک فرد کے لیے پورے ملک کو اپنا دشمن بنالیا۔ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ملزمین کی واپسی کا معاہدہ ہے ایسے میں اگر وہاں سے مطالبہ آئے تو شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش کے حوالے کرنا مودی سرکار پر لازم ہوگا۔ اس لیے انہیں مستقل پناہ دے کر مودی جی آگ سے کھیل رہے ہیں۔ اس طرح پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات کی باتیں ازخود بے معنیٰ ہوجائیں گی۔ بنگلہ دیش کے حوالے سے اپنی سفارتی ناکامی کا اعتراف کر کے اصلاح ِ حال کی کوشش کرنے کے بجائے وزیر اعظم اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ بنگلہ دیش کی اقلیت کے بارے میں وزیر اعظم کا فکر مند ہونا درست ہے ۔ ان کے مطابق 140 کروڑ ہم وطن وہاں ہندو اور اقلیتی برادریوں کی حفاظت کے حوالے سے متفکر ہیں ۔بنگلہ دیش میں تقریباً ایک کروڈ سترّ لاکھ ہندو ہیں اور ان کی فکر بجا ہے لیکن مودی جی کو ہندوستان میں اس کے دس گنا زیادہ اقلیتوں کی فکر بھی ہونی چاہیے۔
وزیر اعظم جب بنگلہ دیش کے ہندووں پر فکرمندی جتا رہے تھے بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے انکشاف کردیا کہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران نریندر مودی نے اپنی 173 تقریروں میں سے 110 میں مسلم مخالف تبصرے کیے۔ مودی کے اسلامو فوبک ریمارکس سے اکثریتی ہندو برادری میں خوف پیدا ہوا ۔ایچ آر ڈبلیو ایشیا کی ڈائریکٹر ایلین پیئرسن نے کہا کہ ان اشتعال انگیز تقاریر نے مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتی برادریوں کے خلاف بدسلوکی کو معمول بنا دیا اوربین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی "خلاف ورزی” کی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے راجستھان کے بانسواڑہ میں مسلمانوں کو ‘درانداز’ اور ‘زیادہ بچے پیدا کرنے والے’ قرار دے کر کہا کہ اگر کانگریس آئی تو عوام سے ایک بھینس چھین لے گی اور گھرچھین ونگل سوتر چھین کر مسلمانوں کی بانٹ دے گی تک کہا اس کے باوجود وہاں پر بی جے پی ہار گئی مگر انتخابات کے بعد ملک بھر میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف کم از کم 28 حملے ہوئے، جن میں 12 مسلمان مرد اور ایک عیسائی خاتون ماری گئی ؟
وزیر اعظم نےلال قلعہ کے خطاب میں بدعنوانی کو ملک ترقی کے راستے میں روڑا بتایا۔بدعنوانی کے خلاف وہ شخص پروچن دے رہا ہے جس پر رافیل گھوٹالے کا الزام لگا تو سار ملک پکار اٹھا’چوکیدار چورہے‘۔ اس کے بعد ہنڈن برگ کی رپورٹ نے مودی کے یارِ غار گوتم اڈانی کو عالمی سطح پر معیشت کی تاریخ کا سب سے بڑا گھوٹالے باز قرار دیا تو وزیر اعظم اس کے محافظ بن کر کھڑے ہوگئے۔ اب ہنڈن برگ کی دوسری رپورٹ میں ثابت ہوگیا کہ گوتم اڈانی پر تفتیش سے رکاوٹ کے لیے مودی سرکار نے مادھابی پوری بُچ کو سیبی کا سربراہ بنایا ۔ اس رپورٹ کے اندر مادھابی اور ان کے شوہر دھول کا اڈانی سے تعلق شواہد کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے۔ اب تو یہ حالت ہے کہ خود مودی جی بھی اپنا پرانا نعرہ ’نہ کھاوں گا نہ کھانے دوں گا‘ بھول چکے ہیں اور ’جھولا اٹھاکر چل دوں گا‘ کی بات بھی نہیں کرتے کیونکہ اگر غلطی سے بھی ان کی زبان پر وہ جملہ آجائے تو ان کے اپنے اور پرائے سوال کریں گے جناب عالی یہ بتائیے کہ آپ کا جھولا کہاں ہے ؟ ہم اسے اٹھاکر آپ کو ایک سال پیشگی کیلاش پربت پر ’ون آشرم‘ میں چھوڑ آتے ہیں۔
وزیر اعظم نے یومِ آزادی کے موقع پربرسا منڈا پر اپنی لن ترانی سےیہ ثابت کردیا کہ ان کے ریٹائرمنٹ کا دن دور نہیں ہے۔ بڑھاپے میں انسان کی یادداشت کمزور ہوجاتی ہے یہ تو سبھی جانتے ہیں لیکن اس کا کامن سینس بھی چلا جاتا ہے اس کا انکشاف مودی جی نے کیا۔ اس معاملے میں تاریخ کے علاوہ ریاضی کے پرچے میں بھی وہ فیل ہوگئے ۔ مودی جی نے فرمایا 1857سے قبل برسا منڈا نے انگریزوں کے دانت کھٹے کردیئے تھے اور اس کے بعدخود انہوں نے ہی کہا کہ بہت جلد ان کی 150؍ویں جینتی آنے والی ہے۔ 1857 کے بعد 171سال گزر چکے ہیں اور بقول مودی اس سے پہلے انگریزوں کے دانت کھٹے کرنے والےکی پیدائش کو 150 سال نہیں ہوئے۔بات دراصل یہ ہے برسا منڈے کی پیدائش ہی 1875میں ہوئی ۔ مودی جی کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں 1857کی تحریک آزادی کے قائد بہادر شاہ کا نام لینے میں شرم آتی ہے کیونکہ سنگھ پریوار کو جنگ آزادی سے بھاگ کھڑا ہواتھا اور ساورکر نے وفاداری کی قسم کھا رکھی تھی اس لیے برسا منڈے کو پیدائش سے قبل مجاہدِ آزادی بنادیا ۔ حالیہ اولمپک میں ہندوستان 6؍ میڈل جیت کر بھی 71نمبر پر تھا کیونکہ اسے کوئی طلائی تمغہ نہیں ملا جبکہ پاکستان صرف بھالا پھینک میں ایک گولڈ میڈل جیت کر 62 پر آگیا۔ اس ٹورنامنٹ میں اگر نعرہ پھینک کا بھی مقابلہ ہوتا تو مودی جی سونے کا تمغہ جیت کر ملک و قوم کا نام روشن کردیتے۔ لال قلعہ سے وزیر اعظم کی پھیکم پھاک سن کر فلم اجنبی کا مشہورنغمہ یاد آتاہےجس کے بول تھے ’بڈھا سٹھیا گیا‘۔