کل آسام کے برپیٹا میں غیر ملکی قرار دیے جانے والے 28 لوگوں کو غیر ملکی ٹریبونل کی جانب سے غیر ملکی قرار دیا گیا جس میں 9 خواتین اور 19 مرد شامل تھے سخت سیکیورٹی اور جذباتی انداز میں ان کے رشتے داروں کو پولیس کی گاڑیوں کے باہر روتے اور بلکتے دیکھا گیا۔ آسام کے مسلمان ایک مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں۔
آسام کے گوالپارا ضلع میں ماتیہ "ٹرانزٹ کیمپ” بھارت کا سب سے بڑا حراستی مرکز ہے، جو 3,000 افراد کے لئے بنایا گیا ہے۔ فی الحال یہاں تقریباً 300 قیدی موجود ہیں، جن میں سے 69 افراد کو ریاست کے فارنرز ٹربیونلز نے "غیر ملکی” قرار دیا ہے۔ساتھ ہی وہاں آسام کے نئے قانون کے مطابق کم عمری میں کی گئی شادی کے جرم میں بھی لوگوں کو یہاں قید کیا گیا ہے ۔یہ ٹربیونلز زیادہ تر اُن لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں جن پر شبہ ہوتا ہے کہ وہ بنگلہ دیش سے غیر قانونی طور پر آئے ہیں۔ قیدیوں میں بنگلہ دیش کے مشتبہ مسلمان اور میانمار کے پناہ گزین شامل ہیں۔
آسام کے ماتیہ ٹرانزٹ کیمپ میں حالات سخت اور پابندیوں سے بھرپور ہیں، اور وہاں رہائش کی حالت کو جیل سے بھی بدتر قرار دیا گیا ہے۔ قیدیوں کو محدود نقل و حرکت اور ناکافی سہولیات کا سامنا ہے۔ اگرچہ کیمپ کو جیل کے طور پر نہیں بنایا گیا، لیکن اس میں بنیادی سہولیات اور مشغولیت کے مواقع کی کمی ہے، جس کی وجہ سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا یہ بین الاقوامی معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ ناقدین نے کیمپ میں غیر انسانی حالات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
آسام کے حالات کا علم ملک میں دوسری جگہوں پر زیادہ نہیں ہو رہا ہے کم عمری کی شادیوں کے جرم میں درجنوں افراد جیلوں میں قید و بند کی صعوبتوں سے گزر رہے ہیں۔ اگلے سال آسام میں انتخابات ہونے والے ہیں وہاں بھاجپا سرکار ماحول کو کشیدہ کر کے انتخابات جیتنا چاہتی ہے وزیر اعلی بار بار مسلمانوں کا ذکر خیر کرتے رہتے ہیں ابھی حال میں اسمبلی میں جمعہ کی نماز کے لیے جو وقفہ تھا وہ ختم کیا گیا ہے۔ اس سنگین صورتحال میں حزب اختلاف کو خصوصی طور پر انڈیا اتحاد کو آسام کے لیے ایک متحد اسٹینڈ لینے کی ضرورت ہے۔