Skip to content
صحابہ ؓ اور اطاعت ِ رسولؐ کے تابندہ نقوش
ازقلم:مفتی عبدالمنعم فاروقی
9849270160
پوری امت مسلمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ روئے زمین پر سب سے مقدس ترین اشخاص حضرات انبیاء کرام ؑ ہیں ،ان اشخاص کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نبوت ورسالت کے لئے منتخب فرمایا ہے ، ان کے ذریعہ انسانوں میں اپنا تعارف اور اپنی پہچان کروائی ہے ،ان ہی کے ذریعہ انسانوں کو وحدانیت کی تعلیم دی ہے اور انہیں کے ذریعہ بتایا کہ پوری کائنات کا تنہا خالق ومالک اور پالنہار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے ،اسی کے کلمہ کُن سے ساری کائنات وجود میں آئی ہے اور اسی کے حکم پر پوری کائنات کا نظام چل رہا ہے اور جب تک اس کی مرضی رہے گی تب تک یہ نظام چلتا رہے گا ، اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں تک اپنے احکام و پیغام کو پہنچانے کے لئے انہیں مبارک اور برگزیدہ اشخاص کا انتخاب فرمایا ہے اور براہ راست اپنی نگرانی میں ان مبارک ہستیوں کی تربیت فرمائی ہے اور انہیں وہ مقام عطا فرمایا ہے کہ جس کا کوئی انسان تصور بھی نہیں کر سکتا ہے ،
درحقیقت جماعت انبیاء ورسل منتخب اور چنندہ جماعت ہے ،اس مبارک جماعت کے سردار وسالار محبوب کبریا ،رحمت عالم ،محسن انسانیت اور خاتم النبین والمرسلین حضرت محمد مصطفیٰ ؐ ہیں ،اللہ تعالیٰ نے آپؐ پر نبوت ورسالت کے باب کو بند فرمایا ہے اور آپؐ کے سر مبارک پر ختم نبوت کا تاج رکھا ہے ،آپؐ کو قیامت تک کے لئے نبی ورسول بنایا ہے اور آپ ؐ کی لائی ہوئی تعلیمات اور آپؐ کی مبارک حیات طیبہ کو قیامت تک پوری انسانیت کے لئے آب حیات اور نمونہ واسواء بنایا ہے جس پر چل کر ہی انسان کامیابی وکامرانی کو پہنچ سکتا ہے اور دنیا میں سر خرو اور آخرت میں نجات اور ابدی نعمتوں کا حقدار بن سکتا ہے ۔
بلا شبہ اس بات پر بھی پوری امت کا اتفاق ہے کہ روئے زمین پر حضرات انبیاء ؑ ورسل ؑ کے بعد اگر کوئی گروہ اور جماعت سب سے زیادہ محترم و معظم و مقدس و برگزیدہ اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں قابل قدر ہے تو وہ حضرات صحابہؓ کی جماعت مبارکہ ہے ،اس مقدس جماعت کی افضلیت اور ان کے مقام ومرتبہ کو بتاتے ہوئے رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے نبوت ورسالت کے لئے میرا انتخاب فرمایا اور میرے لئے میرے صحابہؓ کو منتخب فرمایا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ مبارک جماعت اور اس کا ہر ایک فرد اللہ تعالیٰ کا منتخب کردہ وچنندہ اور اللہ کے رسول ؐ کی براہ راست صحبت یافتہ وتربیت یافتہ ہے ، ان کے اعزاز اور مرتبہ کے لئے یہ بات کافی ہے کہ انہوں نے اپنی سر کی آنکھوں سے رسول ؐ کا دیدار کیا ،اپنے سر کے کانوں نے ارشادات نبوی سماعت کیا اور انہیں براہ راست مشکوٰۃ نبوت سے فیض پانے کا موقع نصیب ہوا ہے ، یقینا یہ وہ شرف اورسعادت ہے جس نے انہیں پوری امت میں ممتاز بنادیا ہے ، قیامت تک دنیا کا کوئی بھی برگزیدہ شخص ان کی جوتیوں کی دھول بھی پا نہیں سکتا ،
انہوں نے مجلس نبوت میں بیٹھ کر رسول اکرمؐ سے بھر پور استفادہ کیا ہے ، یہی وہ اشخاص ہیں جنہوں نے نزول قرآن کا زمانہ پایا اور بلا واسطہ رسول اللہ ؐکے ارشادات سماعت کئے ہیں ، قرآن کریم کے اولین مخاطب اور احکام دین پر پہلے عمل کرنے والے بھی یہی لوگ ہیں، یہی وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے کفر کی وادی میں کھڑے ہوکر وحدت کا گیت گایا تھا ،تلوار کے سایہ میں کلمہ توحید کا ورد کیا تھا اور پوری برادری سے دشمنی مول کر اللہ اور اس کے رسول ؐ ؐ سے دوستی کی تھی ، ان ہستیوں نے دین و ایمان کی خاطر وطن عزیز کو چھوڑا تھا اور اللہ کی وحدانیت اور رسول ؐ کی رسالت کی خاطر گھر بار کو لٹایا تھا اور رسول اللہؐ سے سچی غلامی اس طرح نبھائی کہ جب تک جسم میں جان رہی اپنی جان کو رسول اللہ ؐ کی محبت واطاعت میں نچھاور کرتے رہے اور زندگی کی آخری سانس تک آپ ؐ کے دامن رحمت سے وابستہ رہے اور عقیدت ، عظمت ،محبت اور اطاعت کی ایسی مثال پیش کی کہ جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا قاصر و عاجز ہے۔
ان سچے غلاموں نے جس طرح آپ ؐ کی محبت واطاعت کی تاریخ انسانی میں اس کی نظیر ملنا ممکن ہی نہیں ہے ، اگر کوئی ان جیسی محبت واطاعت کا دعوی کرتا ہے تو اسے جھوٹا ہی کہا جاسکتا ہے ، حضرات صحابہ ؓ کی ایثار وقربانی،محبت وعقیدت اور اطاعت وفرماں برداری کے واقعات سے تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں ، ان برگزیزہ اشخاص نے رسول اللہ ؐ سے اس طرح محبت واطاعت کی جنہیں دیکھ کر دیکھنے والے رشک کرنے پر مجبور ہوگئے اور دشمن ان کی تعریف کرنے پر مجبور ہوگئے ،جب کوئی ان حضرات کو اپنے رسول ؐ سے محبت کرتے ہوئے دیکھتا تو بے ساختہ پکار اٹھتا تھا کہ اگر محبوب سے محبت کرتا دیکھنا ہو تو رسول اللہ ؐ کے محبین کو دیکھ لیں کہ وہ کس طرح اپنے محبوب سے محبت کرتے ہیں اور کس طرح ان کے ایک اشارہ پر جان نچھاور کرنے کے لئے بے تاب رہتے ہیں، تاریخ نگاروں نے ان کی بے مثال محبت وباکمال اطاعت کو دیکھ کر یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ان جیسی محبت واطاعت نہ پہلے کسی نے کی اور نہ ہی آئندہ کسی سے یہ امید ہے بلکہ ان کے اس طرز عمل پر زمین وآسمان بھی رشک کی نظر سے دیکھتے ہوں گے ۔
اصحاب رسول ؐ کی اپنے رسول ؐ سے عقیدت ، عظمت، محبت اور اطاعت کے جو بے شمار واقعات ہیں ان میں سے چند کو یہاں ذکر کیا جارہا ہے تا کہ ہم بھی اپنے اندر ان ہی جیسی عقیدت ،محبت اور اطاعت پیدا کر سکیں اور اگر محبت واطاعت میں مکمل ان کی اطاعت نہ کر سکیں تو کم ازکم ان کی نقل کرتے ہوئے ان کی غلامی بھی حاصل ہوجائے تو امید ہے کہ اس پر ہماری مغفرت اور نجات حاصل ہوجائے، ’’صلح حدیبیہ‘‘ کے موقع پر عروہ بن مسعود مشرکین کی طرف سے بات کرنے آیا اور رسول اللہ ؐ سے بات کرنے لگا ،جب وہ آپؐ سے بات کرتا تھا تو آپؐ کی ڈاڑھی پر باربار ہاتھ لگاتا تھا ،وہاں پر حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کھڑے تھے ،ان کے پاس تلوار تھی اور سر پر خود ،انہوں نے تلوار کے پر تلے کے بچلے حصہ سے عروہ بن مسعود کے ہاتھ پر مارا اور کہا: اپنا ہاتھ رسول اللہ ؐ کی ڈاڑھی سے دور رکھ،عروہ نے اپنا سر اٹھایا اور بولا یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا مغیرہ بن شعبہؓ ہیں۔
جب عروہ نے حضرات صحابہ ؓ کی اپنے رسول ؐ کی عقیدت ،محبت ،اطاعت اور جانثاری وفداکاری دیکھی تو اس کے ہوش اُڑ گئے ، واپس آکر قریش مکہ سے اس کا کچھ اس طرح ذکر کیا کہ ’’اے قوم !واللہ میں نے قیصر وکسریٰ اور نجاشی اور بڑے بڑے بادشاہوں کے دربار دیکھے ہیں مگر خدا کی قسم عقیدت ومحبت ،تعظیم وجلال کا عجیب وغریب منظر کہیں نہیں دیکھا،جب وہ حکم دیتے ہیں تو ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ سب سے پہلے میں اس حکم کو بجا لاؤں،جب کبھی آپ کے دہن مبارک سے تھوک یا بلغم نکلتا ہے تو وہ زمین پر گرنے نہیں پاتا ہاتھوں ہاتھ اسے لے لیتے ہیں اور اپنے چہروں سے مل لیتے ہیں،جب آپ ؐ وضو فرماتے ہیں تو آپ ؐ کے غُسالہ وضو پر بھی لوگوں کا یہی حال ہوتا ہے ،قریب ہے کہ آپس میں لڑپڑیں ،آپ ؐ کے جسم سے کوئی بال گرنے نہیں پاتا کہ فوراً اس کو لے لیتے ہیں ،جب آپ ؐ کلام فرماتے ہیں تو ایک سناٹا ہوجاتا ہے ،گویا ہر شخص سراپا گوش بنا ہوا ہے،کسی کی مجال نہیں کہ نظر اُٹھا کر دیکھ سکے‘‘ ، (سیرت ابن ہشام :۲؍۳۱۳)، ’’کدو سے رغبت‘‘ خادم رسول ؐ حضرت سیدنا انس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک درزی نے رسول اللہ ؐ کو اپنے پکے ہوئے کھانے کی دعوت دی ،میں بھی رسول اللہ ؐ کے ساتھ کھانے میں شریک تھا ،دستر خوان پر جو کی روٹی، گوشت اور کدو کا شور با تھا ، تو میں نے دیکھا کہ آپ ؐ کھانے کے دوران سالن کے کٹورے میں سے کدو تلاش کرکے تناول فرمارہے ہیں ،بس کیا تھا کہ اس روز سے مجھے بھی کدو کے ساتھ محبت ہوگئی ،( مسلم:۵۳۲۵) ،
کھانے میں کسی چیز کا مر غوب ہونا ایک طبعی اور فطری چیز ہے ،کسی کی پسند کچھ اور ہے تو کسی کو کچھ اور چیز مرغوب ہوتی ہے ،لیکن صحابی ٔ رسول حضرت سیدنا انس ؓؓ کی اپنے محبوبؐ سے محبت وعقیدت ، تعلق ووابستگی کس قدر گہری تھی کہ جب دیکھ لیا کہ آپ ؐ کو یہ چیز مرغوب ہے تو ان کا بھی ذوق بدل گیا اور طبیعت اس چیز کوپسند کرنے لگ گئی، ’’ زندگی بھر بٹن نہ لگانا‘‘ ایک مجلس میں رسول اللہ ؐ تشریف فرما تھے ،صحابہ ؓآپ ؐکے ارد گرد پروانوں کی طرح جمع تھے،آپ ؐ کچھ بے تکلف بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ؐ کا گریبان کھلا ہواتھا ،اتنے میں ایک صحابی ؓتشریف لائے تو دیکھا کہ آپ ؐکا گریبان کھلا ہوا ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ اس تصویر کو میں نے بھی سجا لی اور زندگی بھر اپنا گریبان کھلا رکھا کبھی بھی بٹن نہیں لگایا ،حالانکہ آپ ؐ کی عادت شریفہ گریبان کھلا رکھنے کی نہ تھی ،یہ اتفاقی بات تھی کہ آپ ؐ کچھ بے تکلف ہوکر بیٹھے تھے ،مگر جونہی ان صحابی ؓ کی نظر اس پر پڑی یہ خاص انداز ان کے دل میں گھر کرگیا اور زندگی بھر اس کی نقل واتباع کرتے رہے ، اسی طرح کا ایک اور واقعہ ابن ماجہ میں نقل کیا گیا ہے کہ حضرت قرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ؐ کے پاس آیا اور آپ ؐ سے بیعت کی ،اس وقت آپؐ کے کرتے کی گنڈیاں کھلی ہوئی تھیں ،عروہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت معاویہ ؓ اور ان کے بیٹے کو کواہ سردی ہو یاگرمی ہمیشہ اپنی گھنڈیاں (بٹن) کھولے دیکھا (ابن ماجہ: ۳۵۷۸)
قربان جائیں ان حضرات کی اتباع پر کہ انہیں آپؐ کی پیروی کا کتنا خیال تھا ،جس حال میں آپ ؐ کو دیکھ لیا ساری عمر وہی وضع اور طریقہ اختیار فرمایا ،آفریں ان کے جذبہ محبت واطاعت پر،’’ ابومحذورہ ؓ کا طرز عمل‘‘ حضرت ابومحذورہ ؓ ابھی بچے تھے ،مسلمان نہیں ہوئے تھے،ایک دفعہ رسول اللہ ؐ باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ کفار ومشرکین کے چند بچے کھڑے ہوکر مسلمانوں کی اذان کی نقل کر رہے ہیں ،آ پ ؐ نے ان بچوں میں سے حضرت ابومحذورہ ؓ کو طلب کیا اور اذاان سنانے کی خواہش کی ،انہوں نے اذان شروع کی اور اللہ اکبر کو بلند آواز سے چار مرتبہ کہا،لیکن جب کلمہ ٔ شہادت کا موقع آیا تو ڈر گئے کہیں اسے اعزہ واقاریب سن لیں تو تنبیہ وپٹائی نہ کر دیں اس لئے شہادتین کو آہستہ کہا، رسول اللہ ؐ نے ان کے سر پر دست شفقت پھیرکر فرمایا اسے بھی بلند آواز سے کہو ،بس پھر کیا تھاکہ ان کی دنیا ہی بدل گئی ،دل میں توحید ورسالت گھر کر گیا ، محبت رسول ؐ پورے جسم میں سرایت کر گیا ،مسلمان ہوگئے ،اس کے بعد سے عمر بھر یہی معمول رہا کہ جب کبھی اذان دیتے تو پہلے شہادتین دبی آواز میں کہتے اس کے بعد بلند آواز سے کہتے تھے (نسائی:۶۳۲)،
حضرت ابومحذورہ ؓ کی محبت اور ان کا عشق تو دیکھو کہ محبوبؐ کی زبان سے جملہ نکلا پوری زندگی اس پر قائم رہے ،حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ محبوب ؐ کے فرمانے کا مقصد کیا ہے مگر اطاعت کا یہ حال تھا کہ کیا مجال کبھی اس کے خلاف بھی ہوجائے ،اسے کہتے ہیں عشق وہ ہے جو سرچڑھ کر بولے،اور انہی کے بارے میں ہے کہ جب رسول اللہ ؐ نے ان کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرا تب سے زندگی بھر کبھی بھی سر کے بال نہیں منڈوائے ،اس تصورسے کہ اس پر آقا ؐ نے دست مبارک رکھا ہے ،اُن کے عشق کا تو یہ عالم کہ محبوب ؐ کا ہاتھ لگا عمر بھر ان بالوں کی حفاظت کی اور آج ہمارا یہ معاملہ ہے کہ محبوب کی شباہت اختیار کرنے پر آمادہ نہیں ،ان کی سنت کو روزانہ بے دردی سے ذبح کیا جاتا ہے جنہیں آپ ؐ نے اپنے رخ انور پر سجایا تھا اور قرآن مجید میں جس کی قسم کھا ئی گئی ہے ، ’’ عثمان ؓ کا طواف سے انکار‘‘ سن چھ ہجری میں رسول اللہ ؐ نے اپنے چودہ سو جانثار صحابہ ؓ کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت اور عمرہ کے ارادہ سے نکلے تو مکہ مکرمہ کے قریب حدیبیہ مقام پر مکہ والوں نے آپ ؐ کو مع اصحاب کے روک دیا ،اس موقع پر مکہ والوں سے بات کرنے کے لئے آپؐ نے حضر ت سیدنا عثمان غنی ؓ کو اپنا قاصد بنا کر بھیجا،
حضرت سیدنا عثمان ؓ نے بات چیت کی تو سبھوں نے اتفاق رائے ہوکر کہا کہ اس سال آپ ؐ مکہ میں داخل نہیں ہوسکتے اگر تم چاہو تو طواف کر سکتے ہو،اس پر حضرت عثمان ؓ نے جواب دیا کہ میں رسول اللہ ؐ کے بغیر کبھی طواف نہ کروں گا(طبری:۲؍۶۳۱) ،یہ سن کر مشرکین مکہ خاموش ہوگئے گویا ان پر سکتہ طاری ہوگیا کہ اتنی بڑی سعادت سے یہ منہ موڑ رہے ہیں ،مگر حضرت سیدنا عثمان جانتے تھے کہ رسول اللہؐ کی اطاعت ہی سب سے بڑی سعادت ہے ،ان کی اطاعت کے بغیر کوئی عمل قابل قبول نہیں اور کوئی عبادت سرے سے عبادت ہی نہیں، ’’ تعمیل حکم‘‘ حضرت سیدنا خریم اسدیؓ ایک صحابی تھے جونیچی تہبند باندھتے تھے اور لمبے بال رکھتے تھے ،ایک روز آپ ؐ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ خریم اسدی کتنا اچھا آدمی تھا ،اگر وہ لمبے بال نہ رکھتا اور نیچی تہبند نہ باندھتا ،جب انہیں اس کی اطلاع ملی تو فوراً قینچی منگوائی اس سے سر کے بال کترواتے اور تہبند اونچی (نصف ساق تک) کر لی،
حضرت ابودرداء ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن ہمارے پاس سے ان کا گزر ہوا تو میں نے ان سے کہا کوئی ایسی بات بتائے جو ہمیں فائدہ دے اور جس سے آپ کو کوئی نقصان نہ ہو،تو آپؓ فرمایا :میں نے رسول اللہ ؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :اب تم اپنے بھائیوں سے ملنے والے ہو (یعنی سفر سے گھر واپس ہونے والے ہو) تو اپنی سوریاں اور اپنے لباس درست کرلو تاکہ تم اس طرح ہو جاؤ گویا تم تل ہو یعنی ہر شخص تمہیں دیکھ کر پہچان لے کیونکہ اللہ تعالیٰ فحش گوئی اور قدرت کے باوجود خستہ حالت (پھٹے پرانے کپڑے) میں رہنے کو پسند نہیں کرتا ( ابوداؤد: ۴۰۸۹)،کیسی اطاعت وکس قدر فرماں برداری کہ محبوب ؐ کا منشامعلوم ہوتے ہی بلا تامل اور بلا توقف اس پر عمل کرکے دکھا دیا کہ عشا ق نہ تاویل کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی عذر پیش کرتے ہیں بلکہ اپنی مرضی کو آقا کی مرضی میںضم کر لیتے ہیں ، یہی ان کی پہچان ہے اور انکا امتیازی وصف ہے جو انہیں مثالی بنادیا ہے ۔
حضرات صحابہؓ کی ایمان افروز واقعات سے سیرت اور تاریخ اسلام کے صفحات بھرے ہوئے ہیں ،انہوں نے اپنے محبوب کی جس انداز سے محبت واطاعت کی ہے دراصل وہی سچی محبت واطاعت ہے ،اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کی سیرت کی حفاظت کے لئے صحابہ ؓ کا انتخاب فرمایا تھا ،اگر کوئی رسول اللہ ؐ کی سیرت پر چلنا چاہتا ہے اور کامیاب ہونا چاہتا ہے تو اس کے لئے لازمی ہے کہ وہ صھابہ ؓ کی اطاعت واتباع کو اپنے اوپر لازم کرلیں ،یقینا صحابہؓ کی اتباع کے بغیر کوئی بھی رسول اللہ ؐ سے نہ سچی محبت کر سکتا ہے اور نہ ہی آپؐ کی سیرت طیبہ کی اتباع کر سکتا ہے،ہم کو اپنے رسول ؐ سے ایسی ہی عقیدت رکھنا ہوگا جیسی صھابہ ؓ نے رکھی تھی ،ان سے اس طرح محبت کرنا ہوگا جس طرح سے انہوں نے اپنے آقا ؐ سے محبت کی تھی اور اس انداز سے اطاعت کرنا ہوگا جس طرح سے انہوں نے آپؐ کی اطاعت کی تھی ،کیوں کے ان حضرات نے عقیدت ،محبت اور اطاعت کا حق ادا کیا تھا اور اس طرح محبت واطاعت کرکے بتایا تھا جس کا قرآن مجید اور رسول اللہ ؐ کی سیرت میں حکم دیا تھا تھا ،چنانچہ قرآن وحدیث میں ان حضرات کی تعریف کی گئی اور ہر معاملہ ان کے نقش قدم کو صحیح جانا گیا ہے ، ان ہی کے راستے کو مستند مانا گیا ہے ، ان کی اس دیوانگی کو سب سے بڑی ہوش مندی بتاکر اس کے مطابق چلنے کو کامیابی قرار دیا گیا ہے ؎
مستند رستے وہی مانے گئے
جن سے ہوکر رب کے دیوانے گئے
٭٭٭٭
Like this:
Like Loading...