شمار اپنا غلامان محمدؐ مصطفےٰ میں ہے
اہانت رسولؐ کا جواب سیرت کے سانچے میں ڈھل کر دیجیے؟
ازقلم:عبدالغفارصدیقی
9897565066
حضور ؐ میرے ماں باپ آپ ؐ پر قربان۔ ملک میں اہانت رسول کے واقعات رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔کبھی نوپور شرما،کبھی نوین جندل،کبھی سوامی رام گری تو کبھی یتی نرسنگھ آنندآپؐ کی شان اقدس میں گستاخی کرتے رہتے ہیں اور آپؐ پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرنے والوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کردیتے ہیں۔ان سب کی سرپرستی ایک ایسی جماعت کررہی ہے جو زبان سے تو سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ لگاتی ہے،مگر وکاس کسی کا نہیں کرتی۔اسے مسلمانوں سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ مسلمانوں کا ساتھ دینے پر بھی اپنی پارٹی سے نکال دیتی ہے۔ اس کو آپؐ کی کوئی ادا اچھی نہیں لگتی۔وہ آپ ؐسے بھی نفرت کرتی ہے اورآپ ؐکے دین سے بھی۔آ پؐ کے غلاموں کو ہر طرح کا نقصان پہنچاتی ہے۔یہ اس کی پالیسی کامستقل حصہ ہے۔وہ چاہتی ہے کہ بھارت سے اسلام اور مسلمان چلے جائیں۔اس لیے کبھی طلاق اورحلالہ کا مسئلہ اٹھاتی ہے،کبھی این آرسی کا خوف دلاتی ہے۔کبھی مسجدوں سے لاؤڈاسپیکر اترواتی ہے کبھی وہاں بھگوان کی مورتیاں تلاش کرتی ہے۔فی الحال اس کی نظر اوقاف پر ہے۔ مگر حضورؐ یہ تو ہمیشہ سے ہی ہوتا رہا ہے کہ آپ ؐکے ماننے والوں، آپ ؐکے دین پر عمل کرنے والوں اور آپؐ کی تعلیمات کی طرف دعوت دینے والوں کو لوگ تنگ کرتے رہے ہیں۔خود آپؐ پر بھی پتھر اسی لیے تو برسائے گئے تھے کہ آپ ؐ لوگوں کو اللہ کے دین کی دعوت دے رہے تھے،آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو کیا کیا اذیتیں نہیں دی گئیں کہ سوچ کر ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔اس کے بعد اسلام کے داعیوں اور مبلغوں کو ستانے،شہید کرنے اور اذیت دینے کا ایک پورا سلسلہ ہے جو کربلا سے بالا کوٹ تک دراز ہے۔اس سلسلہ کی تازہ کڑیاں ڈاکٹر ذاکر نائک کی ہجرت،مولانا کلیم صدیقی ااور عمر گوتم کی گرفتاریاں اور سزائیں ہیں۔اگر بھارت کے مسلمان بھی اسی لیے ستائے جاتے تو حضور ؐ ہم سرخ رو ہوجاتے،ہمارے نصیبے بن جاتے اور آپ ؐ بروز حشر اپنے دامن رحمت میں پناہ عنایت فرماتے،لیکن بھارت میں آپ ؐکے نام لیواؤں پر یہ مصیبتیں اس لیے نہیں آرہی ہیں کہ وہ آپؐ کے لائے ہوئے دین پر عمل کررہے ہیں۔ یہاں یہ سب کچھ سیاست کے نام پر ہورہا ہے۔میں یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کہ بھارت کے مسلمان آپؐ کے لائے ہوئے دین و شریعت کو کب کا چھوڑ چکے ہیں۔ان کے پاس آپؐ کے نام کے لاحقے کے سوا کچھ نہیں بچا ہے۔آپ کی شان میں گستاخی آپ کو نہ ماننے والا تو کبھی کبھار کرتا ہے وہ بھی کروڑوں میں ایک دو ہی اس کی جسارت کرتے ہیں۔ ایک سوچالیس کروڑ کی آبادی میں چار چھ ہی ہیں جنھوں نے یہ گستاخی کی ہے۔چند ہزارلوگ اپنے سیاسی فائدے کی خاطر ان کی پشت پناہی کررہے ہیں۔لیکن معاف کیجیے آپ ؐکے نام لیوا تو آپ ؐ کو آئے دن رسوا کرتے رہتے ہیں۔وہ آپؐ کے لائے ہوئے دین کی ایسی تصویر پیش کررہے ہیں کہ غیروں نے اس کی طرف دیکھنا ہی چھوڑ دیاہے۔آپؐ کی شریعت کا مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔حضور ؐ کیا جان بوجھ کرآپ کی مسلسل نافرمانی کرنا آپ ؐ کی توہین نہیں ہے؟
توحید کو ہی دیکھ لیجیے۔ ہم نے اس کی صورت کیا سے کیاکردی ہے۔ہماری اکثریت کے گلے یا بازو میں آپ کو کالایا لال دھاگا نظر آئے گا،بازؤں پر بازو بند یا تعویذ ہوں گے۔یہ دھاگا اور تعویذ انھیں آفتوں اور مصیبتوں سے بچاتا ہے۔حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ ساری مصیبتیں اسی کی وجہ سے آرہی ہیں۔ہر قبرستان میں ایک نہ ایک مزار ہم نے بنا لیا ہے۔کچھ تو بہت مشہور ہیں۔آپ ؐ کو سب معلوم ہے کیوں کہ فرشتے آپ کو ساری رپورٹ دیتے ہیں۔ان مزاروں پر ہم سجدے کرتے ہیں،چراغاں کرتے ہیں،صاحب مزار سے کہتے ہیں کہ وہ خدا سے ہماری بگڑی بنوادے،کچھ لوگ ٖبراہ راست انھیں ہی اپنادکھڑا سنانے لگتے ہیں،ہر سال ان کاہم عرس لگاتے ہیں۔ان کی بارات تک نکالتے ہیں۔کئی قطب اور ابدال شریک خدائی ٹھہرالیے گئے ہیں۔یہ سب عبادت کے نام پر ہوتا ہے حضورؐ!اس میں کیا عالم کیا جاہل سب شریک ہوتے ہیں۔غرض آپ کی لائی ہوئی توحید شرک کے حسین پردے چھپ گئی ہے۔
حضور ؐ آپ حسن اخلاق کی تکمیل کے لیے آئے تھے۔لیکن ہم نے بداخلاقی کے مظاہرے میں عمر گذار دی ہے۔آپؐ نے فرمایاتھا کہ مومن کو گالی دینا فسق ہے مگر ہمارے مسلم سماج میں عام مسلمانوں کا جملہ بغیر گالی کے مکمل ہی نہیں ہوتا۔ ماں باپ تک کو گالیاں دی جارہی ہیں،ان پر ہاتھ اٹھایا جارہا ہے،ان کی نافرمانی کا فیصد تو بہت زیادہ ہے،ان کی تمناؤں کا خون کرنا آج کل مسلم نوجوانوں کا شیوہ بن گیا ہے۔اس کے علاوہ جھوٹ،بے ایمانی،وعدہ خلافی،الزام تراشی،غیبت،چغل خوری،دھوکے بازی،بدنگاہی،تو عام بات ہے۔ حضور!ہماری اکثریت سودمیں ملوث ہے،ہم زکاۃ کی وصولیابی میں بھی کمیشن لیتے ہیں،دینی تعلیم گاہوں میں فرقہ پرستی اور عصبیت پر مبنی تعلیم دی جارہی ہے۔علماء جو خود کو آپ کا نائب کہتے ہیں اسلام دشمن پارٹی کا آلہ کار بن گئے ہیں،وہ آپ کے نظام کو رجیکٹ کرنے کا اعلان بڑے فخر سے اور سینہ ٹھونک کر کرتے ہیں۔ خواتین،جن پر آپؐ نے رحم کرنے اور حسن سلوک کی تلقین کی تھی انھیں تو ہم پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں،انھیں وراثت سے بے دخل کردیا گیاہے۔حضور! عجیب معاملہ ہے کہ آپؐ کی محبت میں کوئی حجاب اتارنے کو تیار نہیں تو کوئی حجاب پہننے کو راضی نہیں۔
حضور ؐ آپ نے بہت سی جاہلانہ اور مشرکانہ رسومات ختم کردی تھیں،مگر ہم نے انھیں دوبارہ زندہ کرلیا ہے بلکہ مزید اضافہ کرلیا ہے،پیدائش، شادی اور موت پر اتنی رسمیں ہیں جن کا شمار بھی ممکن نہیں۔آپ ؐ نے بی بی فاطمہ ؓ کی شادی کا خرچ حضرت علیؓ پر ڈالا تھا۔ہم نے سارا خرچ آج فاطمہ کے ولی پر ڈال دیا ہے۔بی بی جیؓ کے نام کا تو صرف حق مہر باقی ہے،وہ بھی بوقت نکاح لکھا جاتا ہے، دینے والے تو آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔آپؐ نے زنا کو مشکل اور نکاح کو آسان کیا تھا ہم نے الٹا کردیا ہے۔شادی کے ہر مرحلے پر آپؐ کا وہ مذاق اڑایا جاتا ہے کہ آپؐ سے سچی محبت کرنے والے کا دل بے چین ہوجاتا ہے۔ہر وہ کام ہوتا ہے جو آپؐ کو نہ ماننے والے کرتے ہیں بس نکاح کے دو بول ضرور ہیں جو آپ کی سنت کے مطابق ادا ہوتے ہیں۔
مرے آقاؐکیا عرض کروں جدھر دیکھتا ہوں آپؐ کا مذاق بنتے دیکھتا ہوں،نماز میں چوری عام بات ہے۔مسجدوں میں قرآن کی جگہ قصے کہانیاں پڑھی جارہی ہیں،مدارس دین کی جگہ مسلک کی تعلیم دے رہے ہیں،جماعتیں اپنے خود ساختہ حصار میں قید ہیں،سیاست ابلیس کے حوالے کردی گئی ہے وہاں تو آپؐ کا نام لینا آپؐ کے نام لیوؤاں کو بھی پسند نہیں آتا،معیشت میں حرام کی آمیزش ہے۔آپ ؐ کے قول اختلاف امتی رحمۃ(میری امت کا اختلاف رحمت ہے)کو ہم نے گرہ میں باندھ لیا ہے اسی لیے ہم نے مخالفت اور انتشار کو شیوہ بنالیا ہے۔آپ نے ایمان والوں کو بھائی بھائی بنایا تھا ہم نے اپنے سگے بھائیوں کو بھی بھائی سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔ آپ نے کہا تھا جو دھوکا دے گا وہ ہم میں سے نہیں،ہم نے کہہ دیا جو ایمان داری برتے گا وہ ہم میں سے نہیں۔ہر شعبہ ئ حیات سے آپؐ کو اور آپ کے قانون کو بے دخل کردیا گیا ہے،اس کے باوجود بھی ہم عزت اور غلبے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔حضور ؐہماری حماقت اور جہالت کا حال یہ ہے کہ ہمارا امام خود اپنے اور ہمارے لیے بددعا کرتا ہے اور اسے احساس تک نہیں ہوتا۔وہ ہر جمعے کو برسر منبرکہتا ہے ”واخذل من خذل دین محمد“(اے اللہ انھیں رسوا کردے جو محمد ؐ کے دین کو رسوا کرتے ہیں) شاید اسی کا اثر ہے کہ ہماری رسوائیوں میں ہر ہفتے اضافہ ہورہا ہے۔
حضور ایسا نہیں ہے کہ ہم سب سب کے خراب ہیں،لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہماری نوے فیصد سے زیادہ تعداد برائے نام آپ سے وابستہ ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ آپ ؐ کی شان اقدس میں زبان سے گستاخی کرنا بہت بڑا جرم ہے۔اس کا مجرم سخت ترین سزا کا مستحق ہے لیکن اسے سے کہیں بڑا جرم اور ظلم آپؐ کی نافرمانی کرکے عملاًآپ کی توہین کرنا ہے۔اگر آپ ؐکے نام لیوا آپ ؐکا ادب سے نام لینے کے ساتھ ساتھ آپؐ کی اطاعت اور فرماں برداری کرتے تو کسی کی ہمت نہیں تھی کہ آپ ؐکی شان میں کوئی بے ادبی کرتا۔ہمارے عمل سے متاثر ہوکر شاید لوگ ایمان میں داخل ہوجاتے،اسلامی تعلیمات پر عمل آوری کفر و ظلم کو مٹانے کا سبب بن جاتی۔میرے سرکارؐ! آپ کے گستاخ یتی نرسنگھ آنند کے خلاف ہم سڑکوں پر نکل آئے ہیں،لبیک یا رسول کا نعرہ ہماری زبانوں پر ہے،آپؐ کے نام پر جان دینے کا جذبہ ہمارے دولوں میں موجزن ہے۔یہ ہمارا آخری اثاثہ ہے حضور!۔حضور ؐ آپ سے التجا ہے کہ بارگاہ ایزدی میں سفارش فرمادیجیے کہ ہمارا یہ اثاثہ باقی رہے،ہمارے گھروں میں اسی سے اجالا ہے۔حضور ؐ اپنے رب سے سفارش فرمادیجیے کہ بھارتی مسلمانوں کے اس اثاثہ کی حفاظت فرمائی جائے،انھیں شعورو آگہی کی دولت عطا کی جائے،انھیں توبہ کی توفیق مل جائے،اسلام پر عمل کرنا ان کے لیے آسان ہوجائے۔حضور! ہم بے عمل بھی ہیں اور بد عمل بھی مگر یہ کیا کم ہے کہ ہم آپؐ کے نام لیواہیں۔
یہی اک چیز بخشش کی مری فرد خطا میں ہے
شمار اپنا غلامان محمد مصطفےٰ میں ہے