Skip to content
الٹ گئی بازی پلٹ گیا کھیل
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
ہریانہ اور جموں کشمیر کے انتخابات کی گنتی کا دن تو کسی ایکشن تھرلر سے بھی زیادہ دلچسپ ہوگیا کیونکہ نہ ہوا چلی اور نہ آندھی آئی ۔ سونامی کا تو کہیں دور دور تک نام و نشان نہیں تھا اں یہ ضرور ہوا کہ صبح میں کچھ بادل چھائے تو ہاتھ والوں کی امید بندھی مگر وہ بھی بہت جلد چھٹ گئے اور سورج چمکنے لگا ۔ بس پھر کیا تھا اِدھر سورج نکلا اُدھر کمل کھلا اور پھر سورج مکھی کی مانند مسکرانے لگا۔ دیکھتے دیکھتے ٹیلیویژن کے پردے پر بی جے پی ترجمانوں کے چہرے بھی کھِل اٹھے اورکانگریس والوں کا منہ لٹکتا چلا گیا یہاں تک بھوپندر سنگھ ہُڈا بھی کیمرے کے سامنے اپنی جیت کی پیشنگوئی کرنے سے کترا گئے۔ انہوں انتظار کرنے کی بات کرکے ہار مان لی ۔ ان سے قبل شیلجا کماری کافی پر اعتماد تھیں ان کو یقین تھا وقت کے ساتھ منظر بدلے گا مگر بیچارے ہُڈا کے چہرے پر مایوسی بتا رہی تھی کہ وزیر اعلیٰ کی کرسی کے حوالے سے ’دل کے ارماں آنسووں میں بہہ گئے‘۔
ہریانہ کے برعکس جموں کشمیر میں دوسرا ماحول تھا ۔ وہاں کمل کے اوپر برف ایسی جمی کہ پگھلنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اس کی بی ، سی اور ڈی تمام ٹیموں کا حال خراب تھا ۔ وادی تو دوروہ جموں کے اندر بھی قدم جمانے میں دقت محسوس کررہی تھی ۔ اس70 سال پرانا 370 ہٹا کر اپنا وزیر اعلیٰ بنانے کا خواب مسلمان مٹی میں ملارہے تھے۔انہوں نے کملا بائی کا منگل سوتر چھین کر کانگریس کے گلے میں ڈال دیا۔ہریانہ کی اس جیت سے بی جے پی سمیت مودی جی نے ایک تیر سے کئی شکار کرلیے۔ مودی جی کا سب سے پہلا فائدہ تو یہ ہوا کہ ان کا برانڈ پھر سے چل گیا ۔ اس خیال کا قلع قمع ہوگیا کہ وہ بی جے پی کے لیے سرمایہ( asset)کے بجائے بوجھ(liability) بن گئے ہیں۔ یہ کہنے والوں کی زبان گنگ ہوگئی کہ جو کہتے تھے اب وہ انتخاب نہیں جیت سکتے اس لیے انہیں سبکدوش ہوجانا چاہیے۔
ہریانہ کے انتخاب نے ایک طرف بی جے پی کے مایوسی کا شکار ہونے والےعام کارکنان کا حوصلہ بڑھایا ہے اور دوسری جانب ان کو ہٹا کر اپنی پسند کا وزیر اعظم اور پارٹی صدر تھوپنے کا خواب دیکھنے والے آر ایس ایس کو کانگریس اور مسلمانوں سے زیادہ مایوس کردیا۔میڈیا میں کئی لوگ یہ سوال کررہے ہیں کہ پچھلے پندرہ سال سے ہریانہ کے ساتھ مہاراشٹر کا انتخاب ہوتا رہا ہے اس بار مہاراشٹر کا انتخاب کیوں ملتوی کیا گیا حالانکہ سچائی یہ ہے کہ ہریانہ کا الیکشن اپنے وقت سے پہلے منعقد کرکے اس کے نتائج کا اعلان جموں کشمیر کے ساتھ کیا گیا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی کو وادی میں ہار کا یقین تھا اور جموں کی نشستیں بڑھانے کے باوجود اس کو کامیابی کا امکان دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ جموں کشمیر میں ستمبر تک انتخاب کروانے کا حکم عدالتِ عظمیٰ نے دے رکھا تھا اس لیے اسے نومبر تک ڈھکیلنا ممکن نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ ہریانہ کو اس کے ساتھ نتھی کردیا گیا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ذرائع ابلاغ میں فی الحال ہر کوئی جموں کشمیر میں بی جے پی کی شکست کے بجائے ہریانہ میں اس کی فتح پر بات کررہا ہے۔ ایسا اس لیے بھی ہورہا کیونکہ سارے کے سارے اوپینین اور ایکزٹ پول کا نگریس کی آندھی پر متفق ہوگئے تھے۔اس موقع پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بار آخر گودی میڈیا کیسے جھانسے میں آگیا؟ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی کو چارسو کے قریب لے جانے والامیڈیا کسی حد تک محتاط ہوگیا تھا کیونکہ خبروں کی دنیا میں تھوڑا بہت بھروسا ضروری ہوتا ہے۔ دوسرے میڈیا والے بلندvocal) (آواز میں بولنے والی اکثریت سے مرعوب ہوجاتے ہیں۔ شمالی ہندوستان میں عام طور بی جے پی کے حامی اونچا بولتے ہیں اور میڈیا ان کے رجحان کو سارے لوگوں کے من کی بات سمجھ لیتا ہے۔ ہریانہ میں الٹا ہوگیا۔ وہاں پر جاٹ زور سے بولتے اور دوسروں کو بولنے بھی نہیں دیتے۔ اس بار جاٹ چونکہ کانگریس کے حق میں تھے اس لیے گودی اور باغی دونوں میڈیا دھوکہ کھا گیا۔
اندازے کی اس غلطی سے قطع نظر بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر کانگریس کیوں ہاری اور بی جے پی کیسے جیت گئی ؟ جبکہ کمل والوں کی دس سالہ حکومت کےخلاف نہ صرف بیزاری بلکہ غصہ بھی تھا۔ اس کو کم کرنے کے لیے بی جے پی نے ساڑھے نوسال کے بعد منوہر لال کھٹر کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹا یا مگر پنجابیوں کی ناز برداری کی خاطر انہیں مرکزی وزیر بنا دیا ۔ اس حکمت عملی کا بی جے پی کو بھرپور فائدہ ملا کیونکہ پاسباں بھی خوش رہا اور صیاد بھی راضی ہوگیا۔ بی جے پی کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ جاٹ فیکٹر تھا۔ اس کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ ہندووں کو نہ صرف مسلمانوں سے ڈراتی ہے بلکہ پسماندہ ذاتوں میں دبنگ ذات سے دیگر طبقات کو خوفزدہ کرکے انہیں اپنے ساتھ کرلیتی ہے۔ اترپردیش اور بہاد میں جس طرح یادووں کے دبدبہ سے باقی ماندہ طبقات کو ڈرا کر اپنا ہمنوا بنایا جاتا ہے اسی طرح ہریانہ میں جاٹوں کی دبنگائی کے خلاف ہوا بنانے کے لیے نائب سنگھ سینی جیسے پسماندہ کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔
وطن عزیز میں نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو بھی کسی کو کامیاب کرنے کی خاطر نہیں بلکہ روکنے کے لیے ووٹ دیتے ہیں۔ پارلیمانی انتخاب میں جب بی جے پی کے چارسو پار کو آئین میں تبدیلی سے جوڑا تو مخالفین اسے ریزرویشن کے خاتمہ تک لے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ریزرویشن سے مستفید ہونے والا دلت ، قبائلی اور پسماندہ طبقات بی جے پی کے خلاف ہوگئے اور اسے اقتدار سے بے دخل کرنے کی ناکام سعی کرڈالی ۔ ہریانہ کے انتخاب میں جاٹوں کو اقتدار میں آنے سے روکنے خاطر پسماندہ اور برہمن گول بند ہوگئے مگر خود جاٹ کانگریس اور لوک دل میں منقسم تھے۔ دلت سماج کا ایک حصہ شیلجا کماری کے سبب کانگریس میں آگیا لیکن لوک دل نے بی ایس پی کے ساتھ الحاق کرکے کچھ ووٹ لے لیے۔ چندر شیکھر آزاد نے دشینت چوٹالا کی مدد کی اور رام رحیم نے پیرول پر رہا ہوکر دلتوں کو کمل تھمایا ۔
ہریانہ کے اس انتخاب میں کانگریس یہ توقع کررہی تھی کہ ذات پات کے بجائے قومی سطح کے مسائل مثلاً کسان، جوان اور پہلوان کا بول بالا ہوگا ۔ اتفاق سے ہریانہ کا بڑا کسان جاٹ ہے۔ وہاں پر فوج میں جانے کا غالب رجحان جاٹو ں میں ہے اور احتجاج کرنے والے پہلوان بھی اسی طبقہ سے آتے ہین ۔ اس طرح ان قومی مسائل کا براہِ راست تعلق جاٹ سماج سے تھا اور جب میڈیا نے اس کے سبب کانگریس کی زبردست فتح کی پیشنگوئی کی تو دیگر طبقات میں عدم تحفظ کا احساس بہت زیادہ بڑھ گیا اور ان سب نے یکمشت ووٹ دے کر بی جے پی کو کامیاب کردیا ۔ ہریانہ میں اس بار بی جے پی نے (2014)اور( 2019) سے بڑی کامیابی درج کروائی ہے۔اس کا مطلب یہی ہے کہ عام ووٹر جب ای وی ایم کا بٹن دباتا ہے تو اس کے نزدیک قومی مسائل ثانوی درجہ میں ہوتے ہوتے ہیں اور اس کی برادری ا ور اپنا ذاتی مفاد غالب ہوتا ہے۔ اس مفاد کے تحت کس پارٹی کا فائدہ ہورہا ہے اس سے مسلمانوں کے سوا کسی کو غرض نہیں ہوتی۔
کانگریس کا یہ الزام غلط ہے کہ یہ لوک تنتر(جمہوریت) کی ہار اور تنتر(نظام سے مراد الیکشن کمیشن ) کی جیت ہے۔ یہ دراصل کانگریس کے اپنے کرموں کا پھل ہے۔ وہ بہت جلد بیجا خود اعتمادی کا شکار ہوکر ہوا میں اڑنے لگتی ہے۔ اس سے قبل چھتیس گڑھ میں بھوپیش بگھیل کوان کی خود اعتمادی مار گئی تھی اور وہاں بھی سارے جائزے غلط نکل گئے تھے ۔ مدھیہ پردیش میں تو کمل ناتھ نے رعونت سے کون اکھلیش وکھلیش کہہ دیا تھا؟ اس کے نتیجے میں مرتی پڑتی بی جے پی کے اندر جان پڑگئی اور اس نے زبردست کامیابی درج کرائی ۔ ہریانہ میں راہل گاندھی نے کمل ناتھ والی غلطی کرتے ہوئے اعلان کردیا کہ سیدھا مقابلہ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان ہے۔ ان کے علاوہ ساری چھوٹی جماعتیں بی جے پی کی بی ، سی اور ڈی ٹیمیں ہیں۔ اس طرح انڈیا محاذ کے اندر شامل عام آدمی پارٹی کو بھی انہوں نے بی جے پی سے جوڑ دیا ۔
بی جے پی نے اس نااتفاقی کا فائدہ اٹھا یا اور ایسے کئی حلقے نکل آئے جہاں عآپ کو اتنے ہی ووٹ ملےجتنے سے کانگریس کو شکست ہوئی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کو ساتھ رکھا جاتا تو ہریانہ میں انڈیا محاذ کی سرکار بن سکتی تھی ۔ کانگریس کو چاہیے کہ اب مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں علاقائی پارٹیوں کی اہمیت کو سمجھے اور ان کی عزت کرے ورنہ اسی طرح کی شکست سے دوچار ہونا پڑے گا۔ بی جے پی کے لیے آئین کی دفع 370 کو ختم کردینے کے بعد الیکشن ہار جانا بہت بڑی رسوائی کی بات ہےمگر وہ چھپ گئی جبکہ سچائی یہ ہے کہ سیریز ڈرا ہوگئی ہے۔ جموں کشمیر جہاں وہ پی ڈی پی کے ساتھ برسرِ اقتدار تھی الیکشن ہار گئی ۔ ہریانہ جہاں وہ جے جے پی کے ساتھ مل کر حکومت کررہی تھی جیت گئی لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بی جے پی کے ساتھ جانے والی دونوں پارٹیوں کا سُپڑا صاف ہوگیا۔ اس میں ٹی ڈی پی اور جے ڈی یو کے لیے سامانِ عبرت ہے۔
لوگ باگ یہ توقع کررہے تھے کہ
Like this:
Like Loading...