Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
Sir Singh Chalakmohan Bhagwat's speech and Bahraich Riot

سر سنگھ چالک موہن بھاگوت کی تقریر اور بہرائچ کا فساد

Posted on 15-10-202416-10-2024 by Maqsood

سر سنگھ چالک موہن بھاگوت کی تقریر اور بہرائچ کا فساد

 

ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان

 

دسہرہ کے موقع پر ہر برس آر ایس ایس کے سربراہ اسلحہ کی پوجاکرنے کے بعد ناگپور میں خطاب کرتے ہیں ۔ اس سال ان کی تقریر کے بعد بہرائچ میں فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ان کے ذریعہ پھیلائی جانے والی اشتعال انگیزی سیدھا نتیجہ تھا۔موصوف کی نصیحت پر اگر بلوائی عمل کرتے تو فساد نہیں بھڑکتا نیز ان کی تلقین کے مطابق اپنی حفاظت کے لیے گولی نہیں چلائی جاتی تو یہ فرقہ وارانہ فساد اور بھی بھیانک شکل اختیار کرلیتا ۔ یہ باتیں عجیب ہونے کے باوجود درست ہیں کہ ہندو سماج نے ان کی وعظ و نصیحت کو نظر انداز کیا اور مسلمانوں نے اسے عملی جامہ پہنا دیا ۔ امسال پہلی بار کسی سر سنگھ چالک کو اقلیتوں کا خیال آیا ورنہ ان کے خطابات بلکہ لغت تک اقلیت کے ذکر سے خالی تھی ۔ اکثریت اور اقلیت کے فرق کی منکر آر ایس ایس کوبنگلہ دیش کی ہندو اقلیت نے سوچنے اور معقول رویہ اختیار کرنے کی ترغیب دی ۔
سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے اپنے خطاب میں کہا ملک میں شدت پسندی پر اکسانے والے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ یتی نرسنگھا نند اور رام گیری جیسے مفسدین اس بیان کی تائید کرتے ہیں۔ بھاگوت کے مطابق حالات یا پالیسیوں پر عدم اطمینان پر احتجاج کرنے کے جمہوری طریقے موجود ہیں۔ اس کے بجائے تشدد کا سہارا لینا، سماج کے مخصوص طبقے پر حملہ کرنا، خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کرنا غنڈہ گردی ہے۔ بابا صاحب نے ایسے رویے کو انارکی کی صرف ونحو کہا ہے۔ کاش کے سنگھ پریوار اس بات کو مانتا۔ بہرائچ میں پیش آنے والا واقعہ اسی شدت پسندی کا نتیجہ ہے جسے دن زعفرانی دن رات پھیلا تے ہیں ورنہ پولیس کے تحفظ میں کوئی مذہبی جلوس کسی کے گھر میں کیسےگھس سکتا ہے۔ اس کا ایک نوجوان مکان کی چھت سے سبز پرچم ہٹاکربھگوا پرچم لہرانے کی جرأت کیسے کرسکتا ہے۔ اس مذموم حرکت کی ویڈیو خود ویڈیو بناکرخود پھیلانا بتاتا ہے کہ انہیں ہر کسی کے گھر میں گھس کر دنگا فساد کرنے کی کھلی چھوٹ ہے۔
موہن بھاگوت بنگلہ دیش سے کہتے ہیں کہ اسے سوچنا ہوگا ’ان کے ملک میں کیا ہورہا ہے‘؟نفرت کی آگ سرزمین بنگلہ دیش یا ہندوستان میں فرق نہیں کرتی اس لیے ہمیں بھی غور کرنا ہوگا ۔ درگا وسرجن کے جلوس میں شامل لوگوں کا گھروں پر حملہ مورتی پر حملہ نہیں کہلا سکتا ۔ بھاگوت جی بنگلہ دیش میں ہندووں پر ہونے والے حملے اگرٹھیک نہیں ہیں تو ہندوستان کے اندر مسلمانوں پر اسی طرح کے حملہ کیسے درست ہوجائے گا؟ بھاگوت کے مطابق بنگلہ دیش میں ظالمانہ شدت پسندی کی فطرت موجود ہے اسی لیے ہندووں سمیت دوسری اقلیتوں کے سر پر خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے لیکن اگر بہرائچ کے اندر ہندو دنگائیوں کے اندر شدت پسندی نہیں ہوتی تو کیا وہ کسی کے گھر میں اسے ڈرانے دھمکانے کے لیے گھستے؟ ہندو فرقہ پرستوں کو اس نصیحت پر عمل کرنا چاہیے ۔
موہن بھاگوت کے مطابق انتظامیہ کا کام دنگا فساد کو روکنا ہے مگر اس کو آنے میں وقت لگتا ہے ۔ بہرائچ کی ویڈیو میں تو پولیس فورس جلوس کے بلوائیوں کوتحفظ دیتی نظر آتی ہے ۔ پولیس والے اگر رام گوپال مشرا کو مکان کی چھت پر چڑھنے سے روک دیتے تو اس کی جان نہیں جاتی لیکن اپنی ملازمت بچانے کے لیے انہوں نے اپنا فرض نبھانے سے روگردانی کی۔ ایسی صورتحال میں متاثرہ لوگوں کو موہن بھاگوت کامشورہ ہے کہ ’’اس کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے‘‘ ۔ وہ کہتے ہیں انتظامیہ کے آنے تک اپنی جان اورمال کا تحفظ کرنا نہ صرف حق بلکہ فرض ہے‘‘۔ ان کے مطابق’’ غنڈہ گردی ناقابلِ معافی ہے اور اسے چلنے نہیں دینا ہے‘‘۔ اس کا اطلاق سرحد کے دونوں جانب ہونا چاہیے ۔بھاگوت بنگلہ دیش کے اندر ظلم کے تھمنے کی وجہ ہندو سماج کے متحد ہوکر مقابلہ کرنا بتاتے ہیں اور یہ بھی آفاقی حقیقت ہے۔ بہرائچ کے منصوری ہاوس میں موہن بھاگوت کی اسی نصیحت کو عملی جامہ پہنا کر گولی چلائی گئی ہے ۔
وہاں پر ۲۲؍ سالہ رام گوپال مشرا کے پیر میں گولی لگتی اور بھیڑ چھٹ جاتی تو اچھا تھا مگر ایسا نہیں ہوا ۔ اس کی موت نے تین ماہ قبل بیاہی بیوی کو بیوہ کردیا ۔ بوڑھے ماں سے باپ سے ان کا جوان بیٹا چھین لیا مگر بی جے پی نے اسے ضمنی انتخاب کو جیتنے کا وسیلہ بنانے پر تل گئی ہے ۔ سابرمتی ٹرین میں مرنے والوں رام بھگتوں کی مانندرام گوپال مشرا کی موت کو اچھالا جارہا ہے۔ بہرائچ میں اگر گولی نہ چلتی تو مجمع پوری کوٹھی جلا سکتا تھا اور اگر خدانخواستہ وہ ہوجاتا تو رام گوپال مشرا کی موت کا ماتم کرنے والا ملبے اندر پستول کو ان کی خود سوزی کا ثبوت بناکر کہتا کہ ان کو اگر آگ لگائی گئی تو انہیں بندوق چلاکر اپنا دفاع کرنے سے کس نے روکا؟ یہ کوئی خیالی مفروضہ نہیں بلکہ گجرات فساد کے دوران گلبرگ سوسائٹی میں یہ ہوچکا ہے ۔
۲۲؍ سال قبل احمدآباد کے چمن پورا میں واقع گلبرگ سوسائٹی کے اندر احسان جعفری کے مکان سمیت 19 میں سے 18 کوٹھیوں کو شرپسندوں نے پوری طرح جلا دیا تھا۔ 28 فروری 2002 کو 68؍ افراد جان بچانے کے لیے احسان جعفری کے گھراس امید میں پہنچے تھےکہ بڑےسیاست داں کے یہاں انہیں تحفظ ملے گا ۔ آزمائش کی اس گھڑی میں احسان جعفری نے وزیر اعلیٰ تک سے مدد مانگی مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ شرپسندوں نے بے رحمی سے گلبرگ سوسائٹی سمیت سب نذرِ آتش کر دیا۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ اور موجودہ وزیر اعظم مودی کے خلاف احسان کی اہلیہ ذکیہ جعفری نے قانونی لڑائی لڑی مگرایس آئی ٹی نے مودی نے کلین چٹ دے دی ۔ ذکیہ اس کے خلاف سُپریم کورٹ گئیں تو اس نے بھی عرضی کوخارج کر دیا۔
گجرات کی پچھلی انتخابی مہم کےدوران کمال بے حیائی کا اظہار کرتے ہوئے ملک کے وزیر داخلہ نے اعلان کیا کہ بیس سال قبل دنگائیوں کو ایسا سبق سکھایا تھا کہ دائمی امن قائم ہوگیا ۔ گلبرگ سوسائٹی کے چشم دید گواہ امتیاز پٹھان ایک انٹرویومیں بتاچکے ہیں کہ ’28 فروری 2002 کو صبح 10 بجے سے شرپسندوں نےسڑک پر فساد، پتھراؤ اور آگ زنی شروع کردی تھی۔ سابق رکن پارلیمان احسان جعفری نے مدد کے لئے پولس افسران، کمشنر، کانگریس لیڈران اور اس وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو بھی فون کیا تھا اس کے باوجود بھی کوئی مدد نہیں ملی۔ دوپہر 2 بجے گلبرگ سوسائٹی میں آتشزنی شروع کی گئی اوراحسان جعفری صاحب کے گھر میں پناہ لینے والے 69 لوگوں کوشہید کردیا ۔ امتیاز نے کورٹ میں گواہی کے دوران 27 ملزمین کے خلاف ثبوت دیئے مگر عدلیہ سے انصاف نہیں ملا۔ ایسے میں اگر منصور منزل کے لوگ اگر اپنا دفاع نہ کرتے تو کیا کرتے؟
اترپردیش کے وزیر اعلیٰ بڑے گھمنڈ سے دعویٰ کرتے تھے کہ انہوں نے ریاست کو فساد کے پاک کردیا حالانکہ اس دوران کئی فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اور بہرائچ کا معاملہ نیا اضافہ ہے۔ آج تیسرا دن ہے مگر تشدد کی آگ رکنے کے بجائے گاوں گاوں پھیل رہی ہے۔ اس بیچ وزیر اعلیٰ سمیت حزب اختلاف کے سارے رہنما امن وامان برقرار رکھنے کی اپیل کررہےہیں ۔ کمبھ کرن کی نیند سے جاگ کر یوگی نےاب اعلیٰ حکام سے تفصیلات طلب کی ہیں جبکہ یہ کام دو دن قبل ہوجانا چاہیے تھا ۔ سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے امن و امان برقرار رکھنے کی تلقین کے ساتھ واقعہ پر افسوس ظاہر کرکے حکومت سے انصاف کامطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کئی سوال کیے مثلاً پولیس نے روٹ پر سیکوریٹی کا پاس و لحاظ رکھا یا نہیں؟ لاؤڈ اسپیکر پر کیا بجایا جا رہا ہے؟ یعنی اس کے ذریعہ اشتعال انگیزی تو نہیں کی جارہی تھی۔
اکھلیش یادوکے مطابق حکومت کی لاپروائی کی وجہ سے یہ واقعہ ہوا ہے۔ کانگریس کی جنرل سیکریٹری پرینکا گاندھی وڈرا نے بھی تشدد کے دوران انتظامیہ کی لاپروائی کو نشانہ بنایا ۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے ریاستی انتظامیہ پر فوری کارروائی کر کے عوام کو اعتماد میں لینے اور تشدد کو روکنے کی اپیل کی۔کانگریس کی جنرل سکریٹری نے عوام سے بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لینے اور امن برقرار رکھنے کی تلقین کی لیکن اب تو یہ آگ گاوں میں پھیل گئی ہے۔ مسلمانوں کے مکانوں اور دوکانوں کو جلایا جارہا ہےوہ محفوظ سرکاری کیمپوں میں منتقل کیے جارہے ہیں۔کانگریس کے ریاستی صدر اجے رائے نے یوگی کو استعفیٰ دے کر مٹھ میں جانے کا مشورہ دیا ہے۔ کانگریس اور سماجوادی کے نزدیک فساد کیلئے پولیس کی لاپروائی کو ذمہ دار ہے۔ وزیراعلیٰ یوگی نےدنگائیوں کے ساتھ غفلت کا شکار افسران کی نشاندہی کرکے ان کے خلاف بھی کارروائی کرنے کی یقین دہانی کی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ رام گوپال مشرا کی موت کے لیےان پر گولی چلانے والوں سے زیادہ اسے نفرت کی شراب پلاکر وہاں لانے والے اور مکان کہ چھت پر چڑھنے سے روکنے میں ناکام ہونے والی پولیس ذمہ دار ہے۔پچھلے دنوں بہرائچ میں بھیڑیوں کے حملے نے وہاں کے سارے باشندوں کو متحد کرکے مقابلہ کرنے پر مجبور کردیا تھامگر انسان نما بھیڑیوں نے انہیں ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا۔ملک کے موجودہ حالات میں مسلم اقلیت کوموہن بھاگوت کی نصیحت ’کمزوری جرم ہے‘ پر عمل کرتے ہوئے خود کو منظم کرکے اپنا دفاع کرنا چاہیے۔ ورنہ فساد کی یہ آگ پورے ملک کو بھسم کردے گی۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

اشتہارات

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb