Skip to content
عید الاضحیٰ کا پیغام سراپا قربانی ہے
ازقلم:ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ
9897334419
ہم نے الحمد للہ ایک بار پھر عید الاضحی کا تیوہار پوری شان و شوکت سے منایاجائے گا ۔ہر جگہ قربانیاں کی جائیں گی لیکن قربانی کے مقاصد اور روح کو کم یاد کیا جائے گا ۔قربانی کا مقصد یہ ہے کہ ہم اللہ کی محبت میں ہر چیز کو قربان کردیں ،اسی سے اللہ کا تقرب حاصل ہوتا ہے۔حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کو اللہ کے حکم سے اللہ کی راہ میں قربان کرنا چاہا ۔ان کو یہ ثبوت دینا تھا کہ کہیں اللہ کی محبت پر بیٹے کی محبت تو غالب نہیں ہوگئی ہے ۔جب حضرت ابراہیم ؑ اپنے بیٹے اور بیوی کو وادی غیر ذی ذرع میں چھوڑ کر آئے تھے اس وقت حضرت اسماعیل ؑ بہت چھوٹے تھے،اور ان ہی کے ایڑیاں رگڑنے سے اللہ نے زمزم جاری کیا تھا ،اب وہ نوعمر ہوچکے تھے۔ظاہر ہے ایک باپ نے جس بیٹے کو بڑی دعائوں کے ساتھ مانگا تھا ،اب ایک عرصہ کے بعد حضرت ابراہیم ؑ نے جب اسے گود میں لیا ہوگا ،اس کی بلائیں لی ہوں گی ،اس کو سینے سے لگایا ہوگاکس قدر پیار آیا ہوگا ؟لیکن اللہ نے پھر امتحان لیا کہ کہیں بیٹے کی محبت ہماری محبت پر غالب تو نہیں آگئی ہے۔ اس لیے حکم دیا کہ اپنے بیٹے کو ہمارے حکم پر قربان کردو۔بیٹا بھی ایک نبی کا تربیت یافتہ تھا اس لیے فورا تیار ہوگیا اور بولا:’’اے ابا جان آپ کو جو حکم ملا ہے اسے بجالائیے ،آپ مجھے ان شا ء اللہ صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے ۔‘‘( صافات۔ 102 )نہ باپ نے یہ سوچا کہ محض ایک خواب ہے اور نہ بیٹے نے یہ کہا کہ ابو جان آپ نے خواب ہی تو دیکھا ہے۔نہ بیٹے کی امی نے یہ کہا کہ شوہر نامدار !آپ کہاں بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے جارہے ہیں یہ محض ایک خواب ہی تو ہے ۔تینوں اس بات پر متفق تھے کہ نبی کا خواب حکم کے درجے میں ہوتا ہے ۔یہ وہ خانوادہ تھا جو توحید پر قائم تھا ۔چنانچہ باپ نے بیٹے کو زمین پر لٹادیا اور چھری چلائی ،لیکن اللہ نے حضرت جبریل ؑکو جنت سے ایک مینڈھا لے کر بھیجا،حضرت جبرئیل ؑ نے کہا کہ اللہ نے آپ کی خدمت میں اسماعیل ؑکے بدلے یہ مینڈھا بھیجا ہے اسے قربان کیجیے اور اسماعیل ؑکو آزاد کردیجیے ۔اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کی اس فداکارانہ جذبہ کی تعریف فرمائی۔:
’’پس جب دونوں نے تسلیم کر لیا اور اس نے پیشانی کے بل ڈال دیا۔اور ہم نے اسے پکارا کہ اے ابراھیم!۔تو نے خواب سچا کر دکھایا، بے شک ہم اسی طرح نیکو کاروں کو بدلہ دیا کرتے ہیں۔البتہ یہ صریح آزمائش ہے۔اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے عوض دیا۔‘‘(سورہ صافات آیت103 تا107)
الغرض اس امتحان میں اس محبت کو قربان کرنا تھا جو اللہ کی محبت پر غالب آسکتی تھی ۔اس قربانی سے ہم نے یہ سیکھا ہے کہ ہر وہ چیز جو اللہ کی محبت پر غالب آسکتی ہو اسے قربان کردینا چاہیے ۔دوسری بات یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے اس قربانی کو حضرت ابراہیم ؑ کی سنت قرار دیا ہے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارے والد ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے‘‘، لوگوں نے عرض کیا: تو ہم کو اس میں کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی‘‘ لوگوں نے عرض کیا: اور بھیڑ میں اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بھیڑ میں (بھی) ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے‘‘۔(ابن ماجہ)
قرآن مجید میں حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کو امت محمدیہ کے لیے اسوہ قرار دیا ہے ۔ارشاد باری ہے :’’قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیٓ اِبْرَاہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہ (ممتحنہ ۔ ۴)’’ یقینا تمہارے لیے ابراہین اور ان کے اصحاب کی زندگی میں اسوہ حسنہ ہے ‘‘۔عید الاضحیٰ نے ہمیں یہ تربیت دی کہ ہم حضرت ابراہیم ؑکی زندگی کو اسوہ بنائیں اور آنے والی زندگی میں ان کی سیرت و کردار کی روشنی میں اپنی سیرت و کردار کو سنواریں ۔حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی میں سب سے ابھرا ہوا پہلو توحید ہے ۔آپ جانتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ کی پیدائش اس گھرانے میں ہوئی جہاں بت بنائے اور بیچے جاتے تھے یعنی آذر کے گھرمیں اور نمرود جو بادشاہ وقت تھا اس شرک کی سربراہی کررہا تھا ۔حضرت ابراہیمؑ جس قوم میں پیدا ہوئے وہ شرک میں ڈوبی ہوئی تھی اور اپنے وقت کا بادشاہ نمرود اس کی قیادت کررہا تھا ،اس ماحول میں حضرت ابراہیم ؑ نے توحید کا پرچم بلند کیا ۔
ایک مرتبہ جب ان کی قوم کے سالانہ میلہ کا وقت آیا اور قوم نے اپنے معبد میں جاکر اپنے بتوں کی پوجا کرنی چاہی تو انھوں نے دیکھا کہ ان کے سارے بت سوائے بڑے بت کے منہ کے بل اونددھے گرے پڑے ہیں اور ٹوٹے پھوٹے ہیں ،یہ دیکھ کر قوم کو غصہ آیا اور اس نے کہا کہ ہمارے معبودوں کا یہ حال کس نے کیا ہے ۔انھیں بتایا گیا کہ ابراہیم اس طرح کی باتیں ہے کہ ان بتوں کی پوجا نہ کرو ہوسکتا ہے یہ اسی کی کارستانی ہو۔چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ کو طلب کیا گیا اور ان سے پوچھا گیا کہ اے ابراہیم ؑیہ سب کیا تم نے کیا ہے؟ قرآن مجید میںپورے واقعہ کواس طرح بیان کیا گیا ہے ۔
اور اللہ کی قسم! میں تمہارے بتوں کا علاج کروں گا جب تم پیٹھ پھیر کر جا چکو گے۔پھر ان کے بڑے کے سوا سب کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا تاکہ اس کی طرف رجوع کریں۔انہوں نے کہا ہمارے معبودوں کے ساتھ کس نے یہ کیا ہے، بے شک وہ ظالموں میں سے ہے۔انہوں نے کہا ہم نے سنا ہے کہ ایک جوان بتوں کو کچھ کہا کرتا ہے اسے ابراہیم کہتے ہیں۔کہنے لگے اسے لوگوں کے سامنے لے آؤ تاکہ وہ دیکھیں۔کہنے لگے اے ابراہیم کیا تو نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کیا ہے۔(ابراہیم نے )کہا بلکہ ان کے اس بڑے نے یہ کیا ہے سو ان سے پوچھ لو اگر وہ بولتے ہیں۔پھر وہ اپنے دل میں سوچ کر کہنے لگے بے شک تم ہی بے انصاف ہو۔پھر انہوں نے سر نیچا کر کے کہا تو جانتا ہے کہ یہ بولا نہیں کرتے۔کہا پھر کیا تم اللہ کے سوا اس چیز کی پوجا کرتے ہو جو نہ تمہیں نفع دے سکے اور نہ نقصان پہنچا سکے۔میں تم سے اور جنہیں اللہ کے سوا پوجتے ہو بیزار ہوں، پھر کیا تمہیں عقل نہیں ہے۔انہوں نے کہا اگر تمہیں کچھ کرنا ہے تو اسے جلا دو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو۔ہم نے کہا اے آگ! ابراہیم پر سرد اور راحت ہوجا۔(الانبیاء آیت 57 تا 69)
یعنی قوم نے حضرت ابراہیم ؑ کی معقول بات کو درکنار کردیااور بجائے اس کے کہ وہ ان بتوں کی حقیقت سمجھنے کے بعد شرک سے توبہ کرتی انھوں حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں جلانے کا فیصلہ کیا ،لیکن حضرت ابراہیم ؑ نے بھی آگ میں جلنا منظور کیا اور کسی بھی حال میں توحید سے دست برداری قبول نہ کی ۔چنانچہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب جب لوگوں نے شرک کے خلاف توحید کا علم بلند کیا ہے تو آزمائشوںنے ان کا استقبال کیا ہے ،لیکن بالآ خر فتح و کامرانی توحید پرستوں ہی کو حاصل ہوئی ہے ۔آج ہندوستان کے موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ حید خالص کی دعوت دی جائے ۔آج بھی جب توحید کی دعوت دی جائے گی تو لوگوں کے کان کھڑے ہوں گے ،جب یہ دعوت زور پکڑے گی تو لوگ اس جانب متوجہ ہو ں گے اور اس کو قبول کریں گے اور ہمارے ملک میں توحید پر مبنی اللہ کا نظام نافذ ہوگا۔
بہر حال توحید کی دعوت دینا اور اس راستے میں پیش آنے والی تمام مصیبتوں اور آزمائشوں کو برداشت کرنا اور فتنوں کاحکمت سے مقابلہ کرنا ہی اسوہ ابراہیمی ہے اور عید الاضحیٰ کا ہمیں یہ پیغام ہے کہ توحید خالص کی طرف پلٹیں ۔آج خود ملت اسلامیہ میں طرح طرح کی شرک و بدعات پائی جاتی ہیں ،سب سے پہلے ہم خود مسلمانوں کو توحید پر لائیں اور موحد بنائیں اور پھر دوسروں کو دعوت دیں ۔ہماری ذمہ داری یہ بنتی کہ ہم ملت اسلامیہ میں مختلف معاملات اور امور میں جو شرک کی ملاوٹ اور آویزشیں ہیں اس کی تطہیر کریں ۔اس کے بعد لوگوں کو توحید خالص کی دعوت دیں ۔بجائے اس کے کہ ہم گھما پھرا کر دعوت دیں ،ہمیں توحید خالص کی طرف انسانوں کو بلانا چاہیے اس کے بہت جلد اچھے نتائج حاصل ہوسکتے ہیں ۔نمرود اپنے وقت کا سب سے بڑا بادشاہ تھااور بڑی طاقت و قوت اور اثرات اس کے پاس تھے ،لیکن حضرت ابراہیمؑ نے کوئی مداہنت نہیں برتی بلکہ اس کو بھی توحید خالص کی دعوت دی اور اس پر حق کی شہادت دی ،تو اللہ کی مدد سے وہ کامیاب ہوئے۔حضرت ابراہیم ؑ کے اسوہ کا تقاضا ہے کہ ہم توحید کی دعوت دیں ،ہمارے لیے بھی آج کے نمرود نے آگ کا الائو تیار کررکھا ہے ،لیکن اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔انبیاء علیہم السلام کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ توحید کی امانت اپنے سینوں میں محفوظ رکھتے ہوئے اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہیں تو پھر یہ دعوت اثر پذیر ہوسکتی ہے اور اس دعوت کے مخالفین نشانہ عبرت بن سکتے ہیں ،اس لیے ہمیں توحید کی دعوت دینا چاہئے ۔ہمیں حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کو اسوہ بنا کر اپنے لیے نشانات منزل طے کرنے چاہئیں۔
Like this:
Like Loading...