Skip to content
رام بھروسے مودی کا رام نام ستیہ ہوگیا
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
وزیر اعظم نریندر مودی نے دس سال قبل ایک نہایت پرکشش نعرہ لگایا تھا سب کا ساتھ وکاس(ترقی)۔ مخالفین نے ان کا مذاق اڑیا کہ ایک چائے والا کیسے ملک کا وزیر اعظم بن کر ترقی کرے گا لیکن عوام کے اندر اس پر چائے پر چرچا ہونے لگی اور دیکھتے دیکھتے وہ نعرہ ملک بھر میں زبان زدِ عام ہوگیا۔ مودی جی یہ دیکھ کر خوش ہوگئے اور اپنے من کی بات کہہ دی ’ اچھے دن آنے والے ہیں ‘۔ عوام یہ سن کر جھوم اٹھے کہ بہت جلد نے ان کے بنک کھاتے میں پندرہ لاکھ روپئے جمع ہوجائیں گے اور اسی کے ساتھ اچھے دن بھی آ جائیں گے لیکن مودی جی کا مطلب تو کچھ اور ہی تھا۔ انہوں نے یہ کب کہا تھا کہ کس کے اچھے دن آنے والے ہیں۔ وہ تو اپنے بارے میں کہہ رہے تھے کہ بہت جلد ان کا وکاس ہوجائے گی اور گجرات کے وزیر اعلیٰ سے ترقی کرکے ملک کے وزیر اعظم بن جائیں گے ۔ مودی جی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوگیا ۔ وہ وزیر اعظم بن گئے لیکن عوام تو مہنگائی اور بیروزگاری کی چکی میں پستے رہ گئے۔پچھلے دس سالوں میں اڈانی اور امبانی کے تو وارے نیارے ہوئے مگر عام آدمی کا کوئی بھلا نہیں ہوالیکن اس انتخاب کے بعد ہوا کا رخ بدلنے لگا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اب کی بار چار سو پار تو نہیں ہوا مگر مودی جی برے دن آگئے ۔
ایودھیا سے کامیاب ہونے والے ایس پی کے دلت رکن پارلیمان کا یہ بیان کہ ایودھیا میں اگر خود مودی جی بھی انتخاب لڑتے تو ناکام ہوجاتے یعنی اودھیش سنگھ ان کو ہرا دیتے ۔ ایودھیا کے اطراف قیصر گنج کے علاوہ سارے حلقۂ انتخاب میں بی جے پی کی ناکامی ایک فرد کی نہیں بلکہ نظریہ کی شکست ہے۔ ایودھیا کو سیاحتی مرکز بناکر بڑے بڑے سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ایک سازش رچی گئی ۔ اس کے تحت سارے چھوٹے موٹے مندروں کو وہاں سے ہٹا دیا گیا اور ان سب سے ہونے والی دکشنا ( چندے) کو اپنے قبضے میں لے لیا گیا۔ ایودھیا کے باشندوں کی زمین کو اونے پونے داموں پر خرید کر اسے منہ بولی قیمت پر فروخت کیا گیا اور اس میں بھی جی بھر کے بدعنوانی کی گئی ۔ ٹھیک تین سال قبل سماجوادی پارٹی کے مقامی رہنما پون پانڈے نے ایودھیا میں میڈیا کے سامنے رجسٹری کی دستاویزات پیش کرتے ہوئے انکشاف کیا تھاکہ : ’رام جنم بھومی کی زمین سے متصل ایک زمین پجاری ہریش پاٹھک اور ان کی اہلیہ نے 18 مارچ کی شام سلطان انصاری اور روی موہن کو دو کروڑ روپے میں فروخت کی۔ کچھ منٹ بعد اسی زمین کو چمپت رائے نے رام جنم بھومی ٹرسٹ کے لیے 18.5 کروڑ روپے میں خرید لی۔ میں بدعنوانی کا الزام لگا رہا ہوں‘۔
پون پانڈے نے دستاویز کی روشنی میں سوال کیا کہ ’18 مارچ سنہ 2021 کو تقریباً 10 منٹ پہلے زمین کا بیعنامہ بھی ہوا اور پھر معاہدہ بھی ہوا۔ وہی زمین جو دو کروڑ میں خریدی گئی تھی اسی زمین کے لیے 10 منٹ کے بعد ساڑھے 18 کروڑ روپے کا معاہدہ کیوں ہوا؟ ‘ حیرت کی بات یہ تھی کہ معاہدے اور بیعنامہ دونوں میں ٹرسٹی انیل مشرا اور میئر رشیکیش اپادھیائے گواہ تھے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس ڈھٹائی کے ساتھ گھپلے بازی کی گئی کیونکہ ڈبل انجن سرکار میں زعفرانیوں کے دل سے قانون کا ڈر پوری طرح نکل چکا تھا ۔ پون پانڈے نے اس وقت سوال اٹھایا تھا کہ صرف چند منٹوں میں ہی دو کروڑ روپے کی اراضی ساڑھے اٹھارہ کروڑ کی کس طرح ہو گئی؟ آخر کیا وجہ تھی کہ اس زمین نے 10 منٹ کے بعد ہی سونا اگلنا شروع کر دیا؟‘ ان کا الزام تھا کہ ’رام مندر کے نام پر زمین خریدنے کے بہانے بھگوان رام کے عقیدت مندوں کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔‘ پون پانڈے کا مطالبہ تھا چونکہ میئر اور ٹرسٹی زمین خریدنے کا سارا کھیل جانتے ہیں اس لیے پورے معاملے کی سی بی آئی تحقیقات کی جائے۔اس نہایت جائز مطالبے پر تحقیقات کرنے کے لیے سی بی آئی کو فرصت ہی نہیں تھی کیونکہ وہ حزب اختلاف کو جیل بھیجنے میں مصروف تھا۔
رام مندر کے نام پر ہونے والی اس بدعنوانی کے خلاف عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمان سنجے سنگھ نے بھی لکھنؤ میں پریس کانفرنس کر کے الزامات عائد کیے تھے مگر الٹا انہیں کو جیل بھیج دیا گیا ۔انھوں نے کہا تھا کہ ’زمین کی قیمت میں ہر سیکنڈ میں تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ انڈیا کیا، دنیا میں کہیں بھی زمین ایک سیکنڈ میں اتنی مہنگی نہیں ہوتی ہے۔ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ اس معاملے کی فوری طور پر ای ڈی (انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ) اور سی بی آئی سے تحقیقات کرانی چاہیے اور جو لوگ بدعنوان ہیں انھیں پکڑ کر جیل میں ڈالنا چاہیے۔‘ان انکشافات سے ایک ہنگامہ مچ گیا یہاں تک کہ وشو ہندو پریشد کے ایک سینیئر اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ تنظیم نے ان الزامات کو سنجیدگی سے لیا ہے اور اگر یہ سچ ثابت ہوئے تو اس کے خلاف ایک تحریک شروع کی جائے گی لیکن مودی یا یوگی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے سامنے پروین توگڑیا کی مثال تو موجود ہی تھی کہ کس طرح انہیں دودھ سے مکھی کی مانند نکال کر پھینک دیا گیا اور اب وہ اپنے جان کی دہائی دیتے پھر رہے ہیں۔
سرکار کے نمک خوار گودی میڈیا نے اس خبر کو دبا دیا مگر سوشل میڈیا پر اس کے متعلق گرما گرم مباحثہ شروع ہوگئی دو ہیش ٹیگز ‘رام مندر’ اور ‘رام مندر گھوٹالہ‘ یعنی گھپلا نمایاں طور پر ٹرینڈ کر نے لگے تھے۔ اس پر دونوں جانب کے لوگ اپنے تاثرات پیش کررہے تھے ۔ ہرپرساد بہیرا نامی ایک صارف نے لکھا تھا کہ : ‘در اصل رام مندر آر ایس ایس/بی جے پی کی فنڈ اکٹھا کرنے کی سکیم ہے۔ جب شروع میں بابری مسجد منہدم کی گئی تو آر ایس ایس نے اربوں روپے اکٹھا کیے۔ ‘ یہ ایک سچائی ہے کہ رام مندر کے نام پر نہ صرف ووٹ کا ناجائز کاروبار کیا گیا بلکہ دنیا بھر سے لاکھوں کروڈ چندہ جمع ہوا اور اس کا ستعمال یقیناً بی جے پی نے انتخابی مہم میں کیا ہوگا اس لیے کہ مذہب کے نام پر لوٹ مار کرنا ان کا شعار ہے۔ اس معاملے میں اپنی غلطی کو تسلیم کرکے اصلاح کرنے کے بجائے سنگھ پریوار کے ذہن کی ترجمانی ابھیشیک دوویدی نامی ایک صارف نے کی۔ انہوں نے لکھا کہ رام مندر کے معاملے میں کوئی گھپلا نہیں ہے۔ سارا معاملہ افسانوی ہے۔ عام آدمی پارٹی ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر چاہتی ہی نہیں۔
یہ عجیب الزام اگر کانگریس یا سماجوادی پارٹی پر لگایا جاتا تب تو لوگ اس پر یقین بھی کرلیتے لیکن اس کیجریوال کی پارٹی پر لگایا گیا کہ خود کو ہنومان بھگت کہتا ہے۔ جس نے سپریم کورٹ کے ناعاقبت اندیش فیصلے کا بڑھ چڑھ کر خیر مقدم کیا تھا اور بزرگ ہندووں کے لیے ایودھیا جانے کا مفت میں اہتمام کروایا تھا۔ کیجریوال پر الزام لگانے والے سنگھ پریوار نے 27 اگست 2020ء کو رام مندر کی تعمیر کے لیے لگ بھگ سوا تین سو سال پرانے ‘جنم استھان مندر’ کو نیست ونابود کر دیا تھا۔ یہ مندر ایودھیا میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے بھی معروف تھا کیونکہ اس لیے زمین کا عطیہ ایک مسلمان زمیندار میر معصوم علی نے دیا تھا ۔ ایودھیا کے ہنومان گڑھی کے آس پاس انہدامی کارروائی کی وجہ سے ہزاروں افراد بے روزگار ہو گئے لیکن میڈیا نے ان کی گریہ وزاری سے نظریں پھیرلیں کیونکہ وہ سب گجراتی ٹھیکیداروں کا حق نمک ادا کررہے تھے ۔
مقامی حقائق سے نظریں ہٹا گودی میڈیا دن رات رام مندر کے افتتاحی جشن یعنی پران پرتشٹھان کا جشن نشر کرتا رہا کیونکہ اس کو ایسا کرنے کا ٹھیکہ دیا گیا تھا۔ سوشیل میڈیا پر رام بھگت ’جو رام کو لائے ہیں ، ہم ان کو لائیں گے‘ والا نغمہ بجاتے رہے ۔ یہ بات مقامی لوگوں کو پریشان کرنے لگی کہ لایا اس کو جاتا ہے جو وہاں موجود نہ ہو اس لیے اگر بی جے پی کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ رام کو لائے ہیں تو اس کا یہی مطلب ہورہا تھا کہ مریادہ پرشوتم وہاں موجود نہیں تھے جبکہ ایودھیا کی ہر گلی میں رام کا مندر تھا بلکہ ایک زیادہ ایسے مندر تھے جو رام جنم استھان کے دعویدار تھے۔ بی جے پی کے اس نعرے کی جانب لوٹیں کہ ’جو رام کو لائے ہیں ، ہم ان لائیں گے ‘ تو سوال یہ ہے کہ یہ ’ان‘ کون ہے؟ اس سوال کا جواب ہے وزیر اعظم کو لائیں گےنیز دوسرا سوال یہ ہے کہ ’ان کو کہاں سے کہاں لائیں گے؟‘تو کا جواب یہ ہے پھر سے اقتدار میں لائیں گے ۔ لوگوں نے سوچنا شروع کیا کہ دس سالوں تک اقتدار میں رہنے کے بعد آخر مودی جی کو رام کے شرن (پناہ) میں جانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس سوال کا جواب یہ تھا کہ جن اچھے دنوں کا خواب انہوں نے دکھایا تھا وہ نہیں آئے بلکہ عام لوگوں کے تو برے دن آگئے۔ بس پھر کیا تھا عوام نے سوچا کہ اب جو ہمارا حال ہوا ہم وہی حال ان کا بھی کردیں گے ۔ اس لیے انتخاب کے موقع پر ایودھیا کے مظلومین نے بی جے پی سے انتقام لے کر اسے رام بھروسے کردیااور مودی کا رام نام ستیہ ہوگیا۔
Like this:
Like Loading...