Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
girls-also-need-to-be-given-opportunities-in-sports

لڑکیوں کو بھی کھیلوں میں مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے

Posted on 18-10-2024 by Maqsood

لڑکیوں کو بھی کھیلوں میں مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے

 

ازقلم:امرتا کماری (پٹنہ، بہار)

کھیل معاشرے کا ایک اہم حصہ ہے، یہ نظم و ضبط اور ٹیم اسپرٹ کی نشوونما کے ساتھ جسمانی اور ذہنی نشوو نما میں معاون ہے۔ لیکن اگر ہم اس میں لڑکیوں کی شرکت اور انہیں ملنے والے مواقع کی بات کریں تو یہ ایک پیچیدہ موضوع ہے۔ اگرچہ پچھلی چند دہائیوں کے دوران کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لینے والی لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن اب بھی بہت سی رکاوٹیں ہیں جو انہیں اس میدان میں مکمل طور پر حصہ لینے سے روکتی ہیں۔ روایتی طور پر، پدرانہ معاشرہ کھیلوں کو مردوں کے زیر تسلط سرگرمیوں تک محدود رکھتا ہے۔ لڑکیوں کو جسمانی طور پر کمزور سمجھ کر اس سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آج بھی نہ صرف دیہی علاقوں میں رہنے والی لڑکیاں بلکہ شہری علاقوں کی کچی بستیاں بھی کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لینے سے محروم ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی کے بجائے ان کے حوصلے پست ہو رہے ہیں۔

ایسی ہی ایک کچی بستی بہار کی راجدھانی پٹنہ کے گردنی باغ علاقے میں واقع بگھیرا محلہ ہے۔ جہاں رہنے والی زیادہ تر نوعمر لڑکیوں کو کھیلنے کے مواقع نہیں ملتے ہیں۔یہاں رہنے والی 15 سالہ شیوانی ،گردنی باغ کے ایک سرکاری ہائیر سیکنڈری اسکول میں کلاس 9 میں پڑھتی ہے،وہ کہتی ہے، ’’میرے اسکول میں بہت سی لڑکیاں کھیلوں میں حصہ لینا چاہتی ہیں، لیکن انہیں موقع نہیں دیا جاتا ہے۔خود ا سکول کے ہیڈ ماسٹر اور دیگر اساتذہ لڑکیوں کو کھیلنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔‘‘ وہ کہتی ہے،’’مجھ جیسی بہت سی نوعمر لڑکیاں ہیں جو کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لینا چاہتی ہیں اور اس میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا چاہتی ہیں، لیکن ہمیں موقع نہیں دیا جاتا ہے۔اگرچہ لڑکوں کوا سکول کے کھیلوں میں حصہ لینے کی اجازت ہے لیکن ہم لڑکیاں اس سے محروم ہیں۔ ‘‘

اسی اسکول میں پڑھنے والی 16 سالہ روپا کہتی ہے کہ کھیلوں کے معاملے میں لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان بہت زیادہ امتیاز برتا جاتا ہے۔ لڑکوں کو کھیلوں میں حصہ لینے کی ترغیب دی جاتی ہے، جبکہ اگر ہم لڑکیاں اس میں حصہ لینا چاہتی ہیں تو ہماری یہ کہہ کر حوصلہ شکنی کی جاتی ہے کہ یہ آپ کے لیے کھیل نہیں ہے۔ روپا کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے، اس کی ہم جماعت سپنا کہتی ہیں،’’وہ کون سا کھیل ہے جو ہم لڑکیاں نہیں کھیل سکتیں؟ بس ہمیں ایک موقع دیں پھر وہ ہماری صلاحیت کو جان لیں گے۔پٹنہ ہوائی اڈے سے صرف 2 کلومیٹر دور اور بہار حج بھون کے بالکل پیچھے واقع اس علاقے کی آبادی تقریباً 700 ہے۔ یہاں زیادہ تر درج فہرست ذات برادری کے لوگ رہتے ہیں، جبکہ کچھ او بی سی خاندانوں کے گھر بھی ہیں۔ یہاں رہنے والے خاندانوں میں زیادہ تر مرد روزانہ مزدوری کرتے ہیں یا آٹو چلاتے ہیں۔ یہ کچی بستی اپنی تاریخی شاہ گڈی مسجد (جسے مقامی طور پر سگڑی مسجد کے نام سے جانا جاتا ہے) کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ یہاں تک پہنچنے کے لیے ایک کھلے نالے پر بنے ہوئے ایک کمزور، عارضی اور چٹخنے والے لکڑی کے پل کو عبور کرنا پڑتا ہے۔

بارش کے دنوں میں یہ نالہ اوور فلو ہو کر کچی آبادی میں داخل ہو جاتا ہے۔دارالحکومت میں رہنے کی وجہ سے یہاں کی نوعمر لڑکیوں کو تعلیم کے مواقع ملتے ہیں لیکن پھر بھی انہیں کھیلوں کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے پدرانہ سماج کی طرف سے پیدا کی گئی کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سب سے بڑی رکاوٹ لڑکیوں کے تئیں معاشرے کی منفی اور روایتی سوچ ہے۔ اس حوالے سے بستی کی رہائشی 17 سالہ کاجل کا کہنا ہے کہ نہ صرف اسکول بلکہ گھر سے بھی اسے کھیلوں کی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روکا جاتا ہے۔ اگر ہم چاہتے بھی ہیں تو ہمیں یہ کہہ کر انکار کر دیا جاتا ہے کہ اگر ہمیں کھیلوں میں کسی قسم کی چوٹ لگتی ہے تو یہ ہماری مستقبل کی شادی کو متاثر کرے گی۔ والدین حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے انہیں کھیلوں کی سرگرمیوں سے دور رہنے کو کہتے ہیں۔‘‘

یہاں رہنے والی 10ویں جماعت کی طالبہ پریتی کہتی ہیں، ’’میں اسکول میں کبڈی کی بہت اچھی کھلاڑی رہی ہوں۔ میں اسکول کے اندر کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لیتی رہی ہوں۔ لیکن جب بھی اسکول سے باہر جانے یا ضلعی سطح کے کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لینے کی بات آئی تو ہر بار مجھے گھر سے اجازت نہیں ملی۔ والد نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ چوٹ لگنے کا امکان ہے۔ اگر آپ زخمی ہو جائیں یا کوئی اور جسمانی نقصان پہنچے تو شادی میں رکاوٹیں آئیں گی۔ جبکہ ایسا ہونے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ میں نے انہیں کئی بار سمجھانے کی کوشش کی لیکن ہر بار یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا کہ کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لینا لڑکوں کا کام ہے۔ اگر لڑکیاں گھر کے کام سیکھ لیں تو ان کے لیے بہت اچھا ہو گا۔ جبکہ یہ سوچ بالکل غلط ہے۔

ریسلنگ ہو یا فٹ بال، کرکٹ ہو یا ہاکی، کوئی بھی کھیل ایسا نہیں جس میں لڑکیوں نے کامیابی حاصل نہ کی ہو۔ اگر ہمیں موقع ملے تو ہم اپنی ریاست اور ضلع کا نام روشن کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ہمارے ملک میں خاندان اور معاشرہ اکثر لڑکیوں کو پڑھائی اور گھریلو کام تک محدود کر دیتے ہیں۔ انہیں کھیلوں کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی سختی سے ترغیب نہیں دی جاتی۔حالانکہ پہلے کے مقابلے اب لڑکیوں کے لیے کھیلوں میں حصہ لینے کے مواقع بڑھنے لگے ہیں۔ کئی بین الاقوامی کھیلوں کی تنظیموں اور قومی سطح پر حکومت نے کھیلوں میں لڑکیوں کی شرکت کی حوصلہ افزائی کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔ ’کھیلو انڈیا‘ کے ذریعے کئی لڑکیوں نے اس میدان میں اپنی شناخت بنائی ہے۔ جس کی وجہ سے اولمپکس اور کامن ویلتھ جیسے بین الاقوامی کھیلوں میں ہندوستانی خواتین کی شرکت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف کھیلوں میں خواتین لیگز شروع کر کے لڑکیوں کو کھیلوں کے پلیٹ فارم فراہم کیے جا رہے ہیں ۔ پی ٹی اوشا، سائنا نہوال، میتھالی راج، میری کوم اور نکھت زرین جیسی کھلاڑیوں نے اس یقین کو مضبوط کیا ہے کہ اگر لڑکیوں کو بھی مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ بھی ملک کے لیے گولڈ میڈل جیت سکتی ہیں۔

جیسے جیسے ہندوستان کی خواتین کھلاڑیوں نے بین الاقوامی سطح پر کامیابیاں حاصل کی ہیں، لوگوں کا اس کے بارے میں رویہ بھی بدلنا شروع ہو گیا ہے۔ اب بہت سے خاندان اپنی بیٹیوں کو کھیلوں میں کیریئر بنانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ لیکن یہ اب بھی زیادہ تر شہری علاقوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں تک محدود ہے۔ آج بھی دیہی اور شہری کچی آبادیوں جیسے بگھیڑا محلہ کی لڑکیوں کو کھیلوں میں حصہ لینے کے لیے کافی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ جہاں وسائل کی کمی کے ساتھ ساتھ سماجی دباؤ اور روایتی سوچ بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کے علاوہ کھیلوں میں صنفی عدم مساوات ایک بڑا چیلنج ہے۔ اسے ختم کرکے ہی نوعمر لڑکیوں کو کھیلوں کے مواقع فراہم کیے جاسکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لڑکیوں کو کھیلوں میں مواقع فراہم کرنے میں بہت سی مثبت تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ یہ لڑکوں کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا لڑکیوں کے لیے۔ برابری اور تعاون کے بغیر، نوعمر لڑکیوں کی کھیلوں میں شرکت مکمل طور پر ترقی نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے حکومت اور کھیلوں کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ معاشرے کو بھی آگے بڑھنا ہو گا اور ان کے لیے مناسب مواقع اور ماحول فراہم کرنا ہو گا۔ (چرخہ فیچرس)

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

اشتہارات

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb