Skip to content
شہید یحییٰ سنوار:
جوحق کی خاطرجیتےہیں مرنےسےکہاں ڈرتےہیں جگر
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
شہید یحییٰ سنوار کی شہادت سے دل بیٹھ سا گیا کیونکہ پچھلے ایک سال سے وہ میدانِ جنگ میں چٹان کی مانند ڈٹے ہوئے تھے۔ یحییٰ سنوار کی شہادت سے یکبارگی ایسا محسوس ہوا کہ گویا تحریک مزاحمت کی محافظ دیوار میں شگاف پڑگیا لیکن پھر یہ خیال آیا کہ یحییٰ سنوار یہ جہاد کس لیے کررہے تھے ؟ کس کی رضا اور خوشنودی کے لیے انہوں نے اپنی جانِ عزیز کا نذرانہ پیش کیا ؟ جس خدا وند قدوس کے لیےیہ معرکہ برپا ہے وہ اس کا حامی و ناصر ہے۔ وہی قائم و دائم ہے اس کے علاوہ اس کائناتِ ہستی میں ہر کسی کو فنا ہونا ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے حبیب پاک کو مخاطب کرکے فرماتا ہے : ’’(اے محمدؐ)، ہمیشگی تو ہم نے آپ سے پہلے بھی کسی انسان کے لیے نہیں رکھی ہے اگر آپ رحلت فرما گئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ جیتے رہیں گے؟ ہر جاندار کو مَوت کا مزہ چکھنا ہے، اور ہم اچھے اور بُرے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کر رہے ہیں آخرکار تمہیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے‘‘۔ یحییٰ سنوارکےجذبۂ جہاد پر یہ آیت صادق آتی ہےکہ :’’ بیشک اللہ تعالٰی ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ جہاد کرتے ہیں گویا سیسہ پلائی ہوئی عمارت ہیں‘‘۔
اسرائیل کابہتان تھا کہ یحییٰ سنوار سرنگوں کے اندر یرغمالیوں کو ڈھال بناکر چھپے ہوئے ہیں مگر ان کی شہادت نے اس جھوٹ کا پردہ فاش کردیا ۔ وہ بزدل صہیونیوں کی مانندزیر زمین بنکروں میں دبکے ہوئے نہیں تھے بلکہ میدان ِ جنگ میں اپنی فوج کی قیادت کررہے تھے۔ ان کے آس پاس ڈھال کے طور پر کوئی یرغمالی نہیں تھا ۔ صحابائے کرام ؓ کے دل میں چونکہ شہادت کا ارمان اور شدید خواہش ہوا کرتی تھی اس لیے وہ شہادت کے حوالے سوال کیا کرتے تھے۔ حضرت عمرو بن عبسہ ؓ نے نبی اکرمﷺ سے پوچھا:’’اے اللہ کے رسولؐ ! کون سا جہاد افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جس میں مجاہد کا خون بہا دیا جائے، اور اس کے گھوڑے کو بھی زخمی کر دیا جائے“۔ یہ میدانِ جنگ کی کیفیت ہے۔ یحییٰ سنوار کی شہادت اسی حالت میں ہوئی ۔ مجاہدین اسلام کسی طور ناکام نہیں ہوتے وہ غازی یا شہیدہر دو صورت میں سرخرو ہوتے ہیں بقول فیض؎
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا؟
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں
سرزمین فلسطین پر جاری معرکۂ حق و باطل میں اسماعیل ہنیہ ، حسن نصرا اللہ اور یحییٰ سنوار کی شہادت کو دیکھ کر جنگ مؤتہ کی یاد تازہ ہوگئی جس میں یکے بعد دیگرے تین جلیل القدر صحابائے کرام ؓ شہید ہوگئے تھے تاریخ شاہد ہے کہ یہی معرکہ عیسائی ممالک کی فتوحات کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اس جنگ میں رسول اللہﷺ نے حضرت زید بن حارثہؓ کو لشکر کا سپہ سالار مقرر کرکے فرمایا کہ اگروہ قتل کردیے جائیں تو جعفر ، اور وہ بھی قتل ہو جائیں تو عبد اللہ بن رواحہ سپہ لار ہوں گے۔ آپﷺ نے حضرت زید بن حارثہؓ کووصیت فرمائی کہ جس مقام پر حضرت حارث بن عمیرؓ قتل کیے گئے تھے وہاں پہنچ کر باشندوں کو اسلام کی دعوت دیں۔ اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو بہتر ، ورنہ اللہ سے مدد مانگیں ، اور لڑائی کریں۔ آپﷺ نےہدایت دی کہ اللہ کے نام سے ، اللہ کی راہ میں ، اللہ کے ساتھ کفر کرنے والوں سے جنگ کرو۔ اور دیکھو بد عہدی نہ کرنا ، خیانت نہ کرنا، کسی بچے اور عورت اور فنا کے قریب بوڑھے کو اور گرجے کے راہب کو قتل نہ کرنا۔ کھجور اور کوئی درخت نہ کاٹنا اورکسی عمارت کو منہدم نہ کرنا۔ ان تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے مسلمان آج بھی صرف دشمن کے فوجی تنصیبات کو نشانہ بناتے ہیں۔
اس معرکے کے تیسرے سپہ سالار حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ روانگی کے وقت رونے لگے۔ لوگوں کےاستفسار پر فرمایا :’’ اللہ کی قسم ! (اس کا سبب) دُنیا کی محبت یا تمہارے ساتھ میرا تعلق خاطر نہیں ہے بلکہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ آیت پڑھتے سنا ہے ”تم میں سے ہر شخص جہنم پر وارد ہونے والا ہے۔ یہ تمہارے رب پر ایک لازمی اور فیصلہ کی ہوئی بات ہے۔”میں نہیں جانتا کہ جہنم پر وارد ہونے کے بعد کیسے پلٹ سکوں گا ؟ مسلمانوں نے کہا : سلامتی کے ساتھ اللہ آپ کا ساتھی ہو۔ آپ کا دفاع کرے اور آپ کو نیکی اور غنیمت کے ساتھ واپس لائے۔ اس کے جواب میں حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ نے فرمایا :’’لیکن میں رحمن سے مغفرت کا ، اور استخواں شکن ، مغز پاش تلوار کی کاٹ کا، یا کسی نیزہ باز کے ہاتھوں ، آنتوں اور جگر کے پار اتر جانے والے نیزے کی ضرب کا سوال کرتاہوں تاکہ جب لوگ میری قبر پر گزریں تو کہیں ہائے وہ غازی جسے اللہ نے ہدایت دی اور جو ہدایت یافتہ رہا۔” علامہ اقبال کے بقول ؎
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
دولاکھ رومی لشکر کو دیکھ کر مسلمانوں میں باہمی مشورہ ہوا تو حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ نے ہی فرمایا:’’ لوگو! اللہ کی قسم! جس چیز سے کترارہے ہو یہ وہی تو شہادت ہے جس کی طلب میں نکلے ہو۔ یاد رہے دشمن سے ہماری لڑائی تعداد ، قوت اور کثرت کے بل پر نہیں ہے بلکہ ہم محض اس دین کے بل پر ہے جس سے اللہ نے ہمیں مشرف کیا ۔ اس لیے چلیے ہمیں دوبھلائیوں میں سے ایک بھلائی حاصل ہوکر رہے گی۔ یا تو ہم غالب آئیں گے یا شہادت سے سرفراز ہوں گے‘‘۔اس جنگ میں سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہؓ علَم اٹھاکر بے جگری سے لڑتے شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔ان کے بعد حضرت جعفرؓ نے لپک جھنڈا اٹھایا اور لڑائی کی شدت میں گھوڑے کی پشت سے کود پڑے اور وار پر وار کرتے رہے یہاں تک داہنا ہاتھ کٹ گیا۔ اس کے بعد انہوں نے جھنڈا بائیں ہاتھ سے بلندکیا، وہ بھی کاٹ دیا گیا توباقی ماندہ بازوؤں سے جھنڈا اٹھائےشہادت سے سرفراز ہوگئے۔ ان کے جسم پر نیزے اور تلوار کے پچاس یا نوےّ زخموں میں سے کوئی بھی پیچھے نہیں تھا۔اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ نے کمان سنبھالی اور جام شہادت نوش کیا ۔
ان تینوں کی شہادت کے بعد نبی کریم ﷺ کی ہدایت کے مطابق اہل ایمان نے باہمی مشورے سے حضرت خالد بن ولیدؓ کو سپہ سالار بنایا تو آپ کے ہاتھ میں اس روز نو تلواریں ٹوٹیں۔ رسول اللہﷺ نے جنگ مُوتہ ہی کے دن وحی کی بناء پر فرمایا کہ جھنڈا زید نے لیا ، اور وہ شہید کردیے گئے۔ پھر جعفر نے لیا ، وہ بھی شہید کردیے گئے، پھر ابن ِ رواحہ نے لیا، اور وہ بھی شہید کردیے گئے – آپﷺ نے اشکبارہوکر کہا اب جھنڈا اللہ کی ایک تلوار نے لیا اور اللہ نے ان کو فتح عطاکی۔اس معرکے سے رومی ممالک کی فتوحات اور دُور دراز علاقوں پر مسلمانوں کے اقتدار کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ بظاہر موجودہ معرکۂ فلسطین بھی اسی سمت رواں دواں ہے۔ مارچ 2004 میں حماس کے بانی شیخ یاسین کی شہادت کے ایک ماہ بعد ان کے جانشین ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی بھی شہید ہوگئے۔ اس وقت اسرائیل خوش فہمی کا شکار ہوگیا کہ حماس کا ختم مگر 20 سال بعد پھر سے اس کا سابقہ سربکف اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ سنوار سے پڑگیا ۔ یہ جہاد فی سبیل اللہ کے کلمۂ حق کی سربلندی تک جاری و ساری رہنے کی روشن دلیل ہے۔
یحییٰ سنوار کی ولادت 1962 میں غزہ کے اندر خان یونس پناہ گزین کیمپ کے اندر ہوئی۔ انہوں نے اپنی جوانی کے 24 سال اسرائیلی جیلوں میں گزارےاور 2011 میں گیلاد شالت کی رہائی کے عوض رہا ہوئے۔ جیل کے اندرانہوں نے دشمن کا مزاج اور نفسیات کو خوب اچھی طرح سمجھا ۔ عبرانی زبان سیکھ کر اسرائیلی معاشرہ اور اس کی اہم شخصیات کا مطالعہ کیا۔ اسرائیلی کی داخلی سلامتی کے ذمہ دار خفیہ ادارے شِن بیت کا عہدیدار نےبرطانوی اخبار فائنانشل ٹائمز کو بتایا تھا کہ یحییٰ سنوار اسرائیل کے بارے میں الف سے ی تک سب جانتا ہے۔ 2017میں انہیں حماس (غزہ) کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ 2021 میں وہ دوسری مدت کے لیے حماس (غزہ) کے سربراہ منتخب ہوئے اور امسال جولائی میں حماس کے پولیٹیکل بیورو چیف اسماعیل ہنیہ کی ایران کے دارالحکومت تہران میں شہادت کے بعد انہیں حماس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔
اسرائیلی فوج کے دل میں سب سے زیادہ دھاک یحییٰ سنوار کی تھی ۔ اپنی موت کے خوف سےنتین یاہو ان کو چلتی پھرتی لاش کہا کرتا تھا حالانکہ حماس کے رہنما خالد مشعل کے مطابق نیتن یاہو بھی ایریل شیرون کی مانند غزہ سے ذلیل ہو کر نکلے گا ۔ انہوں نے نیٹزارم کو چھوڑ دیا۔ ان شاء اللہ یہ قابض تل ابیب سے نکل جائے گا، کیونکہ یہ ان کی سرزمین نہیں، ہماری سرزمین ہے ۔ اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس ‘ کے بیرون ملک امور کے سربراہ خالد مشعل نے زور دے کر کہا ہے کہ ’طوفان الاقصیٰ‘ نے مسجد اقصیٰ کو شہید کیے جانے کے مذموم صہیونی منصوبے کوناکام بنایا اور اس کے مکروہ عزائم کے سامنے بند باندھا۔ صیہونی وجود کو الجھا دیا۔ ہماری عوام میں مزاحمت کی روح بحال کی جس نےدشمن کو گھیرے میں لے لیا۔ انہوں نے کہا کہ طوفان الاقصیٰ نے صہیونی دشمن کا مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا۔اس عظیم کارنامہ کے منصوبہ سازشہید یحییٰ سنوار تھے۔ ان کی شہادت پر جگر مراد آبادی کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
جوحق کی خاطرجیتےہیں مرنےسےکہاں ڈرتےہیں جگر
جب وقت شہادت آتا ہےدل سینوں میں رقصاں ہوتےہیں
Like this:
Like Loading...