Skip to content
فلسطینیوں اور بھارت میں مسلمانوں کے خلاف بلڈوزر کا استعمال: ایک تقابلی جائزہ
حالیہ برسوں میں اسرائیل اور بھارت کی بی جے پی حکومت کے زیرِانتظام ریاستوں میں فلسطینیوں اور مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزر کے ذریعے مسمار کرنے کی پالیسی کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ دونوں ممالک میں بلڈوزر کا استعمال محض قانونی کارروائی نہیں بلکہ ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر کیا جا رہا ہے، جس کا مقصد مخصوص کمیونٹیز کو سزا دینا ہے۔
اسرائیل میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں گھروں کو مسمار کرنے کی پالیسی ایک پرانی حکمت عملی ہے۔ یہ طریقہ کار اکثر "اجتماعی سزا” کے طور پر استعمال ہوتا ہے، جہاں دہشت گردی کے الزامات کا سامنا کرنے والے افراد کے رشتہ داروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، چاہے وہ کسی جرم میں ملوث نہ بھی ہوں۔ یہ پالیسی برطانوی انتداب کے دور سے چلی آ رہی ہے اور اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کے خلاف اسے مؤثر طور پر استعمال کرتی ہے۔
اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی تنظیموں نے اس عمل کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور ممکنہ جنگی جرم قرار دیا ہے۔ مزید یہ کہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو مکانات بنانے کے لیے اجازت نامے حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے زیادہ تر مکانات کو "غیر قانونی” قرار دے کر کسی بھی وقت مسمار کر سکتا ہے۔
بھارت میں بی جے پی حکومت کے دور میں خاص طور پر اتر پردیش اور مدھیہ پردیش جیسی ریاستوں میں مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کرنے کا عمل زیادہ عام ہو گیا ہے۔ خاص طور پر مظاہروں اور فرقہ وارانہ جھگڑوں کے بعد مسلمانوں کے گھروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ مسماریاں نہ صرف احتجاج میں شامل افراد کو نشانہ بناتی ہیں بلکہ پورے خاندانوں کو بھی سزا دینے کے لیے کی جاتی ہیں، تاکہ خوف اور دباؤ کا ماحول پیدا کیا جا سکے۔
یہ حکمت عملی اسرائیل کی طرز پر ہے، جہاں عوامی سطح پر مسماریاں کر کے ایک طاقتور پیغام دیا جاتا ہے، اور ان افراد کو دبایا جاتا ہے جو حکومت کی مخالفت میں آواز بلند کرتے ہیں۔ اکثر قانونی عمل کو نظرانداز کیا جاتا ہے اور رہائشیوں کو کسی پیشگی نوٹس کے بغیر بے گھر کر دیا جاتا ہے، تاکہ انہیں قانونی راستے اختیار کرنے کا موقع نہ مل سکے۔
اسرائیل اور بھارت میں گھروں کو مسمار کرنے کا عمل ایک قانونی کارروائی سے زیادہ سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ گھروں کو بلڈوزر سے مسمار کرنے کا عمل نہ صرف افراد کو بے گھر کرتا ہے بلکہ اسے ایک عوامی تماشا بنا دیا جاتا ہے تاکہ خوف و ہراس پھیلایا جا سکے اور محروم طبقات پر کنٹرول حاصل کیا جا سکے۔ گھروں کی تباہی، جو کہ خاندانوں کے لیے سکون اور سلامتی کی جگہ ہوتی ہے، ایک جسمانی نقصان سے زیادہ نفسیاتی اور جذباتی نقصان کا باعث بنتی ہے۔
اسرائیل اور بھارت کی بی جے پی حکومت کی زیرانتظام ریاستوں میں بلڈوزر کے ذریعے گھروں کی مسماری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ کارروائیاں قانونی نفاذ سے آگے بڑھ کر اجتماعی سزا اور سیاسی جبر کے آلے کے طور پر استعمال کی جا رہی ہیں، جس سے مسلمانوں اور فلسطینیوں کے حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے، اور انہیں مناسب قانونی تحفظ بھی فراہم نہیں کیا جا رہا۔
سپریم کورٹ کے ایک آرڈر کے بعد جس میں بلڈوزر کے استعمال کو غلط قرار دیا گیا تھا ایسالگ رہا تھا کہ یہ معاملہ رک جائیگا مگر ایسا ہوا نہیں دیکھنا ہے اب سپریم کورٹ اس میں دوبارہ مداخلت کرتا ہے ہے یا نہیں کیوں کہ یہ عدالت کے فیصلے کی حکم عدولی کا بھی معاملہ ہے۔ اُتر پردیش کی سیاسی جماعتوں خاص کر سماج وادی پارٹی اور کانگریس کی بھی زمہ داری بنتی ہے وہ زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ کرے۔ مسلم تنظیموں کو دوبارہ عدالت عالیہ سے رجوع ہو کر قانونی کارروائی کرنے کی ضرورت ہے ۔
شیخ سلیم
ویلفیئر پارٹی آف انڈیا
Like this:
Like Loading...