Skip to content
اصلاح معاشرہ کے لئے نکاح کو آسان کرنا
وقف ترمیمی بل پر جامعہ مکارم الاخلاق عنبرپیٹ، میں ایڈووکیٹ جلیسہ یاسین صاحبہ، رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا خطاب
حیدرآباد( 22/ اکتوبر 2024 ء)

وقف ترمیمی بل کے بارے میں ہر مسلمان کو واقفیت رکھنا ضروری ہے یہ صرف ایک بل نہیں بلکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی شناخت کو ختم کرنے اور شعائرِ اسلام کو مٹانے کے عمل کو قانونی شکل دینے کی کوشش ہے،ایڈووکیٹ جلیسہ یاسین صاحبہ ، رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ان خیالات کا اظہار جامعہ مکارم الاخلاق (عنبرپیٹ، حیدرآباد ) میں کیا جہاں انہیں 20/اکتوبر بروز اتوار، مجوزہ وقف ترمیمی بل کی نوعیت اور اس کے مضمرات پر توسیعی خطاب کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔
پروگرام کا آغاز کمسن طالب علم محمد عالم الدین مکرم کی قرآت کلام پاک سے ہوا اور ڈاکٹر رفعت سیما صاحبہ،ڈائریکٹر جامعہ مکارم الاخلاق نے استقبالیہ کلمات پیش کئے اور کہا کہ وقف ترمیمی بل کے موضوع سے واقف ہونا اور اوقاف کے تحفظ کے لئے آگے آنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے اس لئے اس اہم موضوع پر طالبات کی آگہی کے لئے رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ایڈووکیٹ جلیسہ صاحبہ کو دعوت دی گئی ہے۔
ایڈووکیٹ جلیسہ صاحبہ نے اپنے خطاب کے آغاز میں اوقاف کی شرعی اہمیت کو اجاگر کیا اور اس سلسلے میں نبئ کریم صلعم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے اپنے املاک کو فی سبیل اللہ وقف کرنے کے واقعات بتائے اور اوقاف کے اسلامی احکام پر روشنی ڈالتے ہوئے ہندوستان میں اوقاف کی زمینوں کی تاریخی اہمیت کو واضح کیا، انہوں نے کہا کہ اب ہندوستان کی موجودہ حکومت وقف کے پرانے قانون میں ردوبدل کرکے اس نئے بل کو پارلیمنٹ میں منظور کراناچاہتی ہے تاکہ مسلمانوں کے وقف کی املاک متنازعہ بن جائیں اور حکومت کے لئے ان کو اپنی تحویل میں لینے کی قانونی راہ ہموار ہوسکے،
انہوں نے واضح کیا کہ ہندوستان میں وقف کا قانون بیسویں صدی کے اوائل میں مدون ہوا جبکہ عوام الناس اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے اپنی املاک کو وقف کرنے کا عمل ہمارے آباء و اجداد کی طرف سے صدیوں سے ہندوستان میں جاری رہا ہے لہذا اتنے قدیم ڈاکیومنٹس کا اوقاف کے جدید قانون سے میل کھانا یا اس کے مطابق ہونا ممکن نہیں اس بات کو وجہ بناکر مسلمانوں کی املاک کو اس نئے قانون کے ذریعہ غضب کیا جاسکتا ہے۔
محترمہ جلیسہ صاحبہ نے مزید کہا کہ اس مجوزہ بل میں اوقاف کی زمینوں پر مسلم ارکان کی تعداد کو محدود کرنا اور نگرانی کے نام پر غیر مسلموں کو شامل کرنا اور ضلع کلکٹر کو سارے اختیارات کا مجاز قرار دینا انتہائی غیر منصفانہ عمل ہے۔ ،اسلئے ہر مسلمان کو اس سے واقف ہونا اور اپنے اس حق کی حفاظت کے لئے مستعد اور متحرک ہونا ضروری ہے، اگر ہم غفلت میں پڑے رہیں تو ہندوستان میں نہ صرف مسلمانوں کی شناخت کو خطرہ لاحق ہوگا بلکہ ہمارے مدارس، مساجد دواخانے، خانقاہیں مزارات سبھی کا وجود خطرہ میں پڑ سکتا ہے۔
محترمہ جلیسہ صاحبہ نے اس موقع پر بڑی تفصیل سے اس بل کی قانونی باریکیوں اور پیچیدگیوں کو نمایاں کیا ۔
اس خطاب کے آخر میں طالبات نے محترمہ جلیسہ صاحبہ سے کئی سوالات کئے۔ایک طالبہ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غیر مسلموں کے پاس بھی منادر، گرجے گردوارے، چرچ اور عبادت گاہیں اور بہت سی وقف کی املاک موجود ہیں لیکن انکی نگرانی یا تحفظ کے نام پر اس طرح کی دخل اندازی نہیں ہورہی ہے اس لئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر مسلمانوں کے ساتھ یہ زیادتی کیوں؟؟؟
پروگرام کے اختتام پر ڈاکٹر رفعت سیما صاحبہ نے ایڈووکیٹ جلیسہ یاسین صاحبہ، رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اس مؤثر اور معلوماتی خطاب پر شکریہ ادا کیا اور انکی دعا کے ساتھ اس پروگرام کا اختتام عمل میں آیا ۔اس توسیعی خطاب سے جامعہ مکارم الاخلاق اور جامعہ راحت عالم للبنات، ان دونوں جامعات کی طالبات اور معلمات مستفید ہوئیں ۔
Like this:
Like Loading...