Skip to content
نکاح عصمت و عفت کا محافظ، والدین اپنی اولاد کے لئے رشتوں کے انتخاب میں دینداری کو ترجیح دیں
ڈاکٹر رفعت سیما ڈائریکٹر جامعہ مکارم الاخلاق و تلنگانہ کنوینر آسان مسنون نکاح مہم کا آکاش نگرمیں خواتین سے خطاب
حیدرآباد (25؍ اکتوبر 2024ء )
خاندان، کسی بھی سوسائٹی کی اولین اکائی ہوتی ہے اگر وہ درست ہوجائے تو پوری سوسائٹی کی صالح بنیادوں پر تشکیل عمل میں آسکتی ہے اللہ کے رسول صلعم کا فرمان ہے کہ عورت اپنے شوہر کے گھر کی اور بچوں کی نگران ہے اور اس کے بارے میں اس سے پوچھا جائیگا (بخاری)اس طرح اللہ تعالٰی نے خواتین کو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور ایک پاکیزہ خاندان بنانے کی ذمہ داری سونپی ہے اور اس سے روز قیامت اس بارے میں مواخذہ ہونے والا ہے کہ وہ اس ذمہ داری کی ادائیگی میں کس حد تک کامیاب رہی” ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر رفعت سیما ڈائریکٹر جامعہ مکارم الاخلاق و کنوینر تلنگانہ نے کیا جو 24/ اکتوبر بروز جمعرات، آسان مسنون نکاح مہم کے تحت آکاش نگر میں الخیر سوسائٹی کے زیر انتظام منعقدہ، خواتین کے ایک پروگرام سے مخاطب تھیں۔
پروگرام کا آغاز ھاجرہ بیگم کی قرأت کلام پاک سے ہوا جبکہ محترمہ صالحہ بیگم رکن جماعت اسلامی نے اس موضوع کی اہمیت و افادیت سے خواتین کو واقف کرایا ڈاکٹر رفعت سیما صاحبہ نے مسلم معاشرے کی زبوں حالی کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ جب کبھی اللہ کے احکام کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور اس کی خلاف ورزی کی جاتی ہے تو اس سے گھروں کا پرسکون ماحول درہم برہم ہوجاتاہے،اور افراد کی زندگیاں انتشار کا شکار ہوجاتی ہیں مزید یہ کہ بطور سزا اللہ تعالٰی دوسری قوموں کو ان پر مسلط کردیتاہے آج ہم مسلمان اسی عذاب سے گزر رہیہیں اور حیران ہیں کہ آخر ہم پر چاروں طرف سے یہ یلغار کیوں ہورہی ہے، یہ اس لئے ہے کہ مسلمانوں نے اور خاص کر خواتین نے نکاح کے پاکیزہ اور آسان اور مسنون طریقہ کو جہیز اور گھوڑے جوڑے اور فرسودہ رسموں کے جال میں اتنا جکڑ دیا ہے کہ نوجوان نسل کے لئے نکاح کرنا مشکل ہوگیا ہے اور بدکاری اختیار کرنا آسان ہوگیا ہے،
جبکہ اللہ کے رسول کا فرمان ہے کہ نکاح کو اتنا آسان کرو کہ زنا مشکل ہوجائے پھر اس کے ساتھ یہ ستم بھی جاری ہے کہ ہم خواتین اپنے بیٹوں کے رشتے تلاش کرتے وقت خوبصورتی کو بنیاد بناکر اتنی لڑکیوں کو ریجیکٹ کرچکی ہوتی ہیں کہ ملت کی یہ ریجیکٹ ہونے والی بیٹیاں یا تو ڈپریشن کا شکار ہوکر نفسیاتی مریض بن جاتی ہیں، یا پھر وہ اسلام دشمن طاقتوں کی سازشوں کا شکار ہوکر غیر مسلم لڑکوں سے شادی کرکے مرتد ہونے لگتی ہیں، دوسری طرف مسلمان مردوں نے طلاق کے شرعی قانون کا ایسا مذاق بنایا ہے کہ حکومت کو مسلم خواتین کے تحفظ کے نام پر شریعت اسلامی میں مداخلت کرنے کے مواقع مل رہے ہیں، ڈاکٹر رفعت سیما نے اس پوری صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ اگر ہم اب بھی بیدار نہیں ہوئے اور اس منافقت کو ختم نہیں کیا تو یہ صورت حال اور بھی بگڑ سکتی ہے۔
ہم دوسروں سے شکوہ کرتے ہیں لیکن ہم خود اپنے غلط طرز عمل سے اسلام کے پاکیزہ کردار کو داغدار کر رہے ہیں بقول شاعر ہم الزام انکو دیتے تھے، قصور اپنا نکل آیا۔ ڈاکٹر رفعت سیما نے خواتین کو پر زور انداز میں اس بات کا پابند بنایا کہ وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی اس آسان مسنون نکاح مہم میں شامل ہوں اور دیندار بہو اور دیندار داماد کے انتخاب کے ذریعہ اپنے گھروں سے اس کا آغاز کریں اور خاندان کی دوسری خواتین کو بھی اپنا ہم خیال بنائیں اور سب مل کر یہ طئے کریں کہ ہم غیر مسنون شادیوں کا بائیکاٹ کریں گی، جب چاروں طرف سے یہ آوازیں آنے لگیں گی تو یقین ہے کہ معاشرے کی اصلاح کے امکانات پیدا ہونگے اور بہت سی خرابیوں کی جڑ کاٹنا ممکن ہوگا۔
پروگرام کے آخر میں خواتین نے نکاح کے انعقاد کے لئے ضروری امور، اور آنلائن نکاح کی شکل اور مہر کی ادائیگی کی مختلف صورتیں اور ولیمہ کا مسنون طریقہ اور ازدواجی زندگی میں پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں سوالات کئے ڈاکٹر رفعت سیما صاحبہ نے شریعت کی روشنی میں ان کے جوابات دئے۔ اس موقع پر بہت سی خواتین نے اپنے اپنے علاقوں میں اس موضوع پر پروگرامس رکھنے کی پیشکش کی۔ آخر میں محترمہ عفت عائشہ صاحبہ کی پرسوز دعا پر اس اجتماع کا اختتام عمل میں آیا۔
Like this:
Like Loading...