Skip to content
جَدِید مُعاشَرَتی بُحْران اور کِرْداری نَمُونَوں کا فُقْدان
✍۔مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)
09422724040
•┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈•
کرداری نمونے یا رول ماڈل کسی بھی معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ وہ شخصیات ہوتی ہیں جو اپنے کردار، اقدار، اور اعمال کی بنا پر دوسروں کے لئے مثالی ہوتی ہیں۔ لیکن آج کل کے معاشرے میں کرداری نمونوں کا فقدان نمایاں ہے، جس کے نتیجے میں نوجوان نسل کی تربیت اور رہنمائی میں مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔
کرداری نمونوں کی اہمیت
اسلامی تاریخ اور اسلامی معاشرے میں کرداری نمونوں یا رول ماڈلز نے ہمیشہ ایک مرکزی اور اہم کردار ادا کیا ہے۔ کرداری نمونے افراد کو بہتر زندگی گزارنے کے اصول سکھاتے ہیں اور ان کے اعمال و افعال کی بنیاد پر انہیں رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ یہ نمونے والدین، اساتذہ، مذہبی رہنما، سماجی کارکن، صحافی اور مشہور شخصیات ہو سکتے ہیں، جن کا کردار معاشرے میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ تمام افراد معاشرتی اقدار اور اخلاقیات کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی موجودگی اور ان کے کردار کی تقلید سے افراد میں اخلاقیات، محنت، صداقت، اور دیگر مثبت صفات پروان چڑھتی ہیں۔
کرداری نمونوں کی اہمیت اس لیے ہے کہ یہ افراد نہ صرف نظریاتی اور فکری رہنمائی فراہم کرتے ہیں بلکہ عملی زندگی میں بھی اپنے اعمال کے ذریعے مثالی نمونہ پیش کرتے ہیں۔ انسانی معاشرے میں کسی بھی فکر کا اثر اس وقت بڑھ جاتا ہے جب وہ عملی طور پر سامنے آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسولِ اکرمؐ اور صحابۂ کرامؓ کی سیرتوں نے اتنا گہرا اثر مرتب کیا۔ ان پاک سیرتوں میں حق صرف "قال” (کہا ہوا) نہیں تھا بلکہ "حال” (عملی زندگی) بن کر سامنے آیا۔
اسلامی تہذیب میں ولیوں اور صالحین کی ایک خاص صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ ان کی موجودگی میں انسان کو خدا یاد آتا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی زندگی میں اخلاص اور تقویٰ کا ایسا مظاہرہ تھا کہ ان کی شخصیت خودبخود ایمان اور خدا پرستی کی طرف مائل کرتی تھی۔ ان کا ہر عمل، ہر قول، اور ہر قدم انسان کو اللّٰہ کی یاد دلاتا تھا اور ان کی سیرتیں معاشرتی اور روحانی تربیت کے لیے ایک مثالی نمونہ بن گئیں۔
لہذا اسلامی معاشرے میں کرداری نمونے نہ صرف فکری اور نظریاتی رہنمائی کا ذریعہ ہیں بلکہ عملی زندگی میں بھی وہ انسانوں کے لیے روشن مثال ہیں، جو لوگوں کو نیک راہ پر چلنے اور اخلاقی اصولوں پر قائم رہنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
کرداری نمونوں کے فقدان- اسباب، اثرات اور حل
1. میڈیا کا کردار:
موجودہ دور میں میڈیا کرداری نمونوں کے فقدان کا ایک بڑا سبب بن چکا ہے۔ میڈیا آج کل زیادہ تر سنسنی خیز خبروں اور شوبز کی دنیا کو فروغ دیتا ہے، جس سے نوجوان نسل کی توجہ سطحی اور غیر حقیقی کرداری نمونوں کی طرف مبذول ہوتی ہے۔
میڈیا اکثر منفی خبروں اور سنسنی خیز مواد کو زیادہ ترجیح دیتا ہے کیونکہ یہ ناظرین کی توجہ کھینچتا ہے۔ مجرمانہ سرگرمیاں، اسکینڈلز، اور متنازعہ واقعات کو زیادہ نمایاں کیا جاتا ہے، جس سے معاشرے میں غلط کرداروں کی تقلید بڑھتی ہے۔ ٹی وی شوز، فلموں، اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر غیر حقیقی اور غیر اخلاقی مواد کی بھرمار ہوتی ہے۔ یہ مواد نوجوان نسل کو متاثر کرتا ہے اور وہ ان کرداروں کو حقیقت سمجھ کر ان کی پیروی کرنے لگتے ہیں، جو کہ اکثر منفی اور غیر ذمّہ دارانہ ہوتے ہیں۔
مشہور شخصیات کی زندگی کو میڈیا میں بار بار دکھایا جاتا ہے، جن میں اکثر ان کی غیر ذمّہ دارانہ اور منفی حرکات کو بھی نمایاں کیا جاتا ہے۔ نوجوان ان شخصیات کو اپنا رول ماڈل سمجھ کر ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں، جو کہ غلط راستے پر لے جا سکتی ہے۔
میڈیا میں مصنوعی حسن اور مادیت پرستی کو بہت زیادہ فروغ دیا جاتا ہے۔ اشتہارات، ڈرامے، اور فلمیں ایسے کردار دکھاتے ہیں جو صرف ظاہری حسن اور دولت پر مبنی ہوتے ہیں، جس سے نوجوانوں میں بھی یہی معیار پیدا ہوتا ہے۔ سنسنی خیز اور منفی مواد کی تشہیر سے نوجوانوں میں اخلاقیات کا فقدان پیدا ہوتا ہے۔ وہ صحیح اور غلط کے درمیان فرق کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔
مصنوعی حسن اور مادیت پرستی کی تشہیر سے نوجوانوں کی ترجیحات غلط سمت میں مڑ جاتی ہیں۔ وہ ظاہری چیزوں کو اہمیت دینے لگتے ہیں اور اندرونی خوبیاں اور اخلاقیات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ غیر حقیقی معیار اور توقعات کی وجہ سے نوجوان نفسیاتی دباؤ اور ڈپریشن کا شکار ہو سکتے ہیں، کیونکہ وہ ان غیر حقیقی معیاروں تک پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں۔ میڈیا میں مجرمانہ سرگرمیوں کی تشہیر سے نوجوان بھی ان راستوں پر چلنے لگتے ہیں، جس سے معاشرے میں جرائم کی شرح بڑھ جاتی ہے۔
میڈیا کو سنسنی خیزی کی بجائے مثبت کرداری نمونوں کو فروغ دینا چاہئے تاکہ نوجوان نسل کو صحیح رہنمائی مل سکے۔ میڈیا کو چاہئے کہ وہ مثبت کرداروں اور مثالی شخصیات کی تشہیر کرے۔ ایسے پروگرامز اور ڈرامے بنائے جائیں جو اخلاقیات، محنت، اور سچائی کی تعلیم دیں۔ میڈیا کو تعلیمی پروگرامز کو فروغ دینا چاہئے جو نوجوانوں کو علم و آگاہی فراہم کریں اور ان کی تربیت میں مددگار ثابت ہوں۔ صحافیوں اور میڈیا اداروں کو اپنی ذمّہ داری کا احساس کرنا چاہئے اور سنسنی خیز اور منفی خبروں کی بجائے تعمیری اور مثبت خبروں کو ترجیح دینی چاہئے۔ مشہور شخصیات کو بھی اپنی عوامی ذمّہ داری کا احساس کرنا چاہئے اور اپنی زندگی کو ایسے انداز میں گزارنا چاہئے جو نوجوانوں کے لئے مثالی ہو۔
2. تعلیمی نظام کی کمزوریاں:
تعلیمی نظام کے ذریعے نہ صرف علمی تربیت ہوتی ہے بلکہ اخلاقی و کرداری تربیت بھی دی جاتی ہے۔ تاہم، موجودہ دور میں تعلیمی نظام کی کمزوریاں بھی کرداری نمونوں کے فقدان کا باعث بن رہی ہیں۔ تعلیمی اداروں میں اخلاقی تعلیم اور کردار سازی پر کم توجہ دی جاتی ہے۔ نصاب میں کرداری نمونوں کی مثالیں کم شامل کی جاتی ہیں، جس سے طلباء کو رہنمائی ملنے میں دشواری ہوتی ہے۔
موجودہ تعلیمی نصاب میں اخلاقی تعلیم اور کردار سازی پر مناسب توجہ نہیں دی جاتی۔ زیادہ تر توجہ محض علمی مواد پر ہوتی ہے، جس سے طلباء کی اخلاقی تربیت نظر انداز ہو جاتی ہے۔ اساتذہ کی مناسب تربیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ خود بھی اخلاقی اور کرداری نمونے پیش کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ان کے پاس طلباء کو صحیح رہنمائی فراہم کرنے کے لئے ضروری مہارتیں اور تربیت موجود نہیں ہوتی۔ تعلیمی نظام میں امتحانات اور نتائج پر زیادہ زور دیا جاتا ہے، جس سے طلباء کی کرداری تربیت پس منظر میں چلی جاتی ہے۔ طلباء کا مقصد محض اچھے نمبروں کا حصول ہوتا ہے، جب کہ اخلاقی اور عملی تربیت پر توجہ کم ہوتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں نقل اور دھوکہ دہی کا رجحان بھی عام ہے۔ یہ رویے طلباء میں غلط اقدار اور اخلاقی کمزوریوں کو فروغ دیتے ہیں، جس سے ان کے کرداری نمونے متاثر ہوتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں غیر نصابی سرگرمیوں کی کمی ہوتی ہے، جو طلباء کی مکمل شخصیت کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ان سرگرمیوں کے بغیر طلباء کی کرداری تربیت مکمل نہیں ہو پاتی۔
تعلیمی نظام میں اخلاقی تعلیم کی کمی سے طلباء میں اخلاقیات کا فقدان پیدا ہوتا ہے، جو معاشرتی زوال کا باعث بنتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں کرداری نمونوں کی عدم دستیابی سے طلباء کو صحیح رہنمائی نہیں ملتی، جس سے وہ غلط راستوں پر چل سکتے ہیں۔ طلباء میں اخلاقی تربیت کی کمی سے معاشرتی مسائل جیسے جرائم، بدعنوانی، اور خود غرضی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اخلاقی تربیت کی کمی سے طلباء پیشہ ورانہ زندگی میں بھی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، کیونکہ اخلاقیات اور کرداری مضبوطی کامیاب زندگی کے لئے ضروری ہیں۔
تعلیمی نصاب میں اخلاقی تعلیم اور مثالی شخصیات کی کہانیاں شامل کی جائیں تاکہ طلباء کو عملی زندگی کے لئے بہتر رہنمائی مل سکے۔ تعلیمی نصاب میں اخلاقی تعلیم اور کردار سازی کو شامل کیا جائے۔ مثالی شخصیات کی کہانیاں اور اخلاقی سبق نصاب کا حصّہ بنائے جائیں۔ اساتذہ کی مناسب تربیت کی جائے تاکہ وہ طلباء کی کرداری تربیت میں مؤثر کردار ادا کر سکیں۔ اساتذہ کو اخلاقی تعلیم اور رہنمائی کی مہارتیں فراہم کی جائیں۔ امتحانات اور نتائج کے نظام میں تبدیلی کی جائے تاکہ صرف علمی کارکردگی پر زور نہ ہو بلکہ طلباء کی کرداری تربیت اور اخلاقیات کا بھی جائزہ لیا جائے۔ تعلیمی اداروں میں غیر نصابی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے، جیسے کہ کھیل، ڈرامے، مباحثے، اور سماجی خدمات، تاکہ طلباء کی مکمل شخصیت کی نشوونما ہو سکے۔ تعلیمی اداروں میں نقل اور دھوکہ دہی کے خلاف سخت اقدامات کئے جائیں تاکہ طلباء میں ایمانداری اور دیانت داری کی اقدار پروان چڑھ سکیں۔
ہمارے تہذیبی اور معاشرتی روایات میں اساتذہ کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب بچے اپنے والدین یا اساتذہ کی طرح بننے کی خواہش رکھتے تھے، کیونکہ استاد نہ صرف تعلیمی بلکہ اخلاقی تربیت بھی فراہم کرتے تھے۔ استاد کی اہمیت اس بات میں مضمر ہے کہ وہ کسی بھی طالب علم کی قابلیت کو نکھارنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک بہترین استاد کم صلاحیت کے حامل طالب علم کو اوسط درجے کا، اوسط درجے کے طالب علم کو بہترین، اور بہترین طالب علم کو جینئس میں ڈھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے زمانے تک پہنچتے پہنچتے یہ صورت حال بدل گئی ہے۔ اب ہمارے پاس قابل اساتذہ کا سایہ بھی موجود نہیں۔ ہم اپنے تعلیمی دور میں استاد کی تلاش میں ہی رہ گئے اور جو استاد ہمیں ملے وہ حقیقی معنوں میں استاد نہ تھے، بلکہ انہیں "استاد” کہنا پڑتا ہے۔
اس تبدیلی کی وجہ سے تعلیمی اور اخلاقی معیار میں بھی واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ حقیقی اساتذہ کی عدم موجودگی نے طلبہ کی تربیت پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں، اور وہ مثالی نمونے جنہیں دیکھ کر اور جن کی پیروی کر کے نئی نسل اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتی، اب ناپید ہو چکے ہیں۔ اس صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی نظام میں ایسی اصلاحات کی جائیں جو نہ صرف معیاری تعلیم فراہم کریں بلکہ طلبہ کی اخلاقی تربیت پر بھی زور دیں، تاکہ وہ حقیقی معنوں میں استاد بن سکیں اور معاشرے کی تعمیر میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکیں۔
3. خاندانی نظام کی کمزوری:
خاندانی نظام کسی بھی معاشرے کی بنیاد ہوتا ہے۔ خاندان ہی وہ ادارہ ہے جہاں بچوں کی ابتدائی تربیت اور کردار سازی ہوتی ہے۔ تاہم، موجودہ دور میں خاندانی نظام کی کمزوریاں بھی کرداری نمونوں کے بحران کا باعث بن رہی ہیں۔ جدید معاشرتی تبدیلیوں کے باعث خاندانی نظام کمزور ہو چکا ہے۔ والدین کے پاس بچوں کے لئے وقت کی کمی اور خاندانی مسائل کی بنا پر بچوں کی تربیت متاثر ہوتی ہے۔
جدید دور میں والدین کی مصروفیات میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ والدین کے پاس بچوں کے لئے وقت کی کمی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ بچوں کی صحیح تربیت اور رہنمائی نہیں کر پاتے۔ روایتی مشترکہ خاندانی نظام کے بجائے ایک فردی خاندانی نظام (نیوکلئیر فیملی) کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اس کی وجہ سے بچوں کو دادا، دادی، چچا، اور دیگر بزرگوں سے دوری محسوس ہوتی ہے، جو ان کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ طلاق اور علیحدگی کے واقعات میں اضافہ بھی خاندانی نظام کی کمزوری کا سبب ہے۔ اس سے بچوں کی تربیت متاثر ہوتی ہے اور وہ جذباتی و نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خاندانی نظام میں اخلاقی تربیت کی کمی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ والدین خود بھی معاشرتی دباؤ اور مسائل کی وجہ سے بچوں کو صحیح طور پر اخلاقی تربیت نہیں دے پاتے۔ خاندانوں میں مادیت پرستی اور مادی چیزوں کی طرف بڑھتا ہوا رجحان بھی بچوں کی کردار سازی پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ والدین کی طرف سے مادی چیزوں کی زیادہ اہمیت بچوں میں بھی انہی ترجیحات کو فروغ دیتی ہے۔
خاندانی نظام کی کمزوریوں کی وجہ سے بچوں میں اخلاقیات کی کمی پیدا ہوتی ہے۔ وہ صحیح اور غلط کے درمیان فرق کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ طلاق اور علیحدگی کے واقعات سے بچوں میں جذباتی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے، جس سے ان کی شخصیت کی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ خاندان کے اندر مضبوط کرداری نمونوں کی عدم موجودگی سے بچے صحیح رہنمائی سے محروم رہتے ہیں اور غلط راستوں پر چلنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ خاندانی نظام کی کمزوریاں سماجی مسائل جیسے جرائم، منشیات کی لت، اور بے راہ روی کا باعث بنتی ہیں۔
والدین کو بچوں کی تربیت کے لئے وقت نکالنا چاہئے اور خاندانی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ والدین کو بچوں کی تربیت کے حوالے سے تربیت فراہم کی جائے۔ والدین کو اپنے بچوں کے لئے وقت نکالنے کی اہمیت اور طریقے سکھائے جائیں۔ روایتی مشترکہ خاندانی نظام کی اہمیت کو فروغ دیا جائے تاکہ بچوں کو زیادہ افراد کی تربیت اور رہنمائی مل سکے۔ طلاق اور علیحدگی کے مسائل کے حل کے لئے مشاورت اور رہنمائی فراہم کی جائے تاکہ خاندانی استحکام بڑھ سکے۔ خاندانوں میں اخلاقی تربیت کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔ والدین کو چاہئے کہ وہ خود بھی اخلاقی اقدار پر عمل کریں اور بچوں کو بھی ان کی تعلیم دیں۔ مادیت پرستی کے منفی اثرات کے بارے میں آگاہی فراہم کی جائے اور خاندانوں کو سادگی اور اخلاقی اقدار کی طرف مائل کیا جائے۔
4. سماجی اقدار کا زوال:
سماجی اقدار کسی بھی معاشرتی نظام کا بنیادی حصّہ ہوتی ہیں جو افراد کے رویوں، عادات، اور تعلقات کو متعین کرتی ہیں۔ یہ اقدار فرد کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور معاشرتی ہم آہنگی اور ترقی میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ تاہم، موجودہ دور میں سماجی اقدار کا زوال کرداری نمونوں کے فقدان کا ایک بڑا سبب بن رہا ہے۔ معاشرے میں مادیت پرستی اور خود غرضی کا رجحان بڑھ رہا ہے، جس سے سماجی اقدار اور اخلاقیات کی اہمیت کم ہو رہی ہے۔
سماجی اقدار میں اخلاقیات کی کمی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ دیانت داری، صداقت، امانت داری، اور دیگر اخلاقی اصولوں کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے، جس سے معاشرتی نظام کمزور ہو رہا ہے۔ خود غرضی اور مادیت پرستی کا فروغ سماجی اقدار کے زوال کا ایک بڑا سبب ہے۔ لوگ اپنے مفادات کے لئے دوسروں کو نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کرتے اور مادی چیزوں کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔ خاندانی اور سماجی رشتہ داریاں کمزور ہو رہی ہیں۔ افراد کے درمیان اعتماد اور محبت کی کمی پیدا ہو رہی ہے، جس سے معاشرتی تعلقات متاثر ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے لوگوں کے درمیان فاصلہ بڑھا دیا ہے۔ حقیقی تعلقات کی بجائے مجازی تعلقات کو اہمیت دی جا رہی ہے، جو کہ اکثر غیر مستحکم اور وقتی ہوتے ہیں۔ تعلیمی اداروں اور گھریلو تربیت میں سماجی اقدار کی تعلیم کی کمی بھی ایک اہم وجہ ہے۔ نئی نسل کو معاشرتی اصولوں اور اقدار کے بارے میں صحیح آگاہی نہیں دی جا رہی۔
سماجی اقدار کے زوال سے نوجوان نسل میں بے راہ روی بڑھ رہی ہے۔ وہ صحیح اور غلط کے درمیان فرق کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں اور منفی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ اخلاقیات کی کمی سے افراد کے رویے متاثر ہوتے ہیں، جو کہ معاشرتی مسائل جیسے کہ بدعنوانی، جھوٹ، اور دھوکہ دہی کو فروغ دیتے ہیں۔ سماجی اقدار کے زوال سے معاشرتی تقسیم میں اضافہ ہوتا ہے۔ افراد اور گروہوں کے درمیان نفرت اور عدم اعتماد بڑھتا ہے، جس سے معاشرتی ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے۔ سماجی اقدار کے زوال کی وجہ سے مضبوط اور مثالی کرداری نمونے کم ہو جاتے ہیں، جس سے نئی نسل کو صحیح رہنمائی نہیں ملتی۔
کرداری نمونوں کی کمی کے باعث نوجوان نسل غلط راستوں پر چلنے لگتی ہے، جس سے جرائم، منشیات کی لت، اور دیگر سماجی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ معاشرتی اقدار اور اخلاقیات کی کمی کی وجہ سے افراد میں صداقت، امانت، اور محنت کی صفات کمزور ہو رہی ہیں۔ کرداری نمونوں کی کمی کے باعث معاشرتی تقسیم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ افراد اور گروہوں کے درمیان عدم اعتماد اور نفرت بڑھ رہی ہے۔
معاشرتی سطح پر اخلاقیات اور اقدار کی بحالی کے لئے مہمات چلائی جائیں اور افراد کو مثبت کرداری نمونوں کی تقلید کی ترغیب دی جائے۔ تعلیمی اداروں اور گھریلو سطح پر اخلاقی تعلیم اور تربیت کو فروغ دیا جائے۔ نصاب میں اخلاقیات اور سماجی اقدار کی تعلیم شامل کی جائے۔ خاندانی نظام کو مضبوط بنانے کے لئے اقدامات کئے جائیں تاکہ افراد کے درمیان اعتماد اور محبت کا رشتہ بحال ہو سکے۔ سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کو فروغ دیا جائے اور حقیقی تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔ سماجی آگاہی مہمات چلائی جائیں جن میں سماجی اقدار کی اہمیت اور ان کے فوائد کو اجاگر کیا جائے۔ مثبت اور مثالی کرداروں کی تشہیر کی جائے تاکہ نوجوان نسل کو صحیح رہنمائی اور ترغیب مل سکے۔
کرداری نمونوں کا فقدان ایک سنگین مسئلہ ہے جو معاشرتی اور اخلاقی زوال کا باعث بن رہا ہے۔ اس بحران پر قابو پانے کے لئے میڈیا، تعلیمی نظام، خاندانی نظام، اور معاشرتی اقدار کی بحالی پر توجہ دینا ضروری ہے۔ اگر ہم ان اقدامات پر عمل کریں تو معاشرے میں مثبت تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں اور ایک بہتر اور مضبوط معاشرتی نظام تشکیل دیا جا سکتا ہے۔
(18.06.2024)
ازقلم:مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)
ال افشان، 7/4، شیلیش نگر، ممبرا،
تھانہ- 400612، مہاراشٹر، الہند۔
masood.media4040@gmail.com
Like this:
Like Loading...