Skip to content
فڈنویس اور یوگی :
کہیں پر نگاہیں کہیں پر نشانہ
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
حالیہ انتخاب میں ملک چاروں بڑے صوبوں کے اندر دنیا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کو کرارہ جھٹکا لگا۔ اس میں اترپردیش سرِ فہرست ہے مگر اس کے پیچھے مہاراشٹر اور مغربی بنگال و تمل ناڈو میں بھی وہ چاروں خانے چت ہوگئی۔ ان چاروں میں مہاراشٹر کو زیادہ اہمیت اس لیے حاصل ہے کیونکہ مودی سرکار کی اگلی اگنی پریکشا( آزمائش ) مہاراشٹر اور بہار میں ہونی ہے۔ آئندہ تین ماہ کے اندر ان دونوں ریاستوں کے اندر صوبائی انتخابات ہوں گے۔ مہاراشٹر کے اندر جہاں کانگریس نے زبردست واپسی کرتے ہوئے اپنے ارکان پارلیمان کی تعداد کو ایک سے 13پر پہنچایا وہیں شرد پوار کی این سی پی نے بھی غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ ریاست کی کل 48 لوک سبھا سیٹوں میں سے اسے صرف 10 پر لڑنے کا موقع ملا اس کے باوجود اس نے آٹھ امیدوار کامیاب کرلیے ۔ این سی پی (ایس پی) کا یہ بہترین اسٹرائیک ریٹ اس صورت میں ہے جبکہ بی جے پی نےاسے جعلی قرار دے کر پارٹی کے نشان سے بھی محروم کردیا تھا ۔ اسے اپنے نشان گھڑی کے بجائے پنگی پر انتخاب لڑنا پڑا تھا اور 5مقامات پر اس کے سامنے گھڑی کا نشان لے کر اجیت پوار کے امیدوار کھڑے تھے۔
2019 میں، بی جے پی نے اسمبلی انتخابات کے موقع پر این سی پی کے کئی بڑے رہنماوں کو اپنے ساتھ شامل کر لیاتھا لیکن غیر منقسم این سی پی نے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں 50 سے زیادہ نشستیں حاصل کیں اور بعد میں ادھو ٹھاکرے کی زیرقیادت ایم وی اے حکومت کا حصہ بن گئی۔ جسے شیو سینا میں بغاوت کے بعد جون 2022 میں وزیراعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔گزشتہ سال جولائی میں شرد کو اس وقت جھٹکا لگا جب ان کے بھتیجے اجیت پوار نے بغاوت کرکے بی جے پی سےہاتھ ملا لیا اور نائب وزیر اعلیٰ بن گئے۔ اجیت پوار کے ساتھ این سی پی کے آٹھ ارکان اسمبلی نے بھی ایکناتھ شندے حکومت میں وزیر کے طور پر حلف لے لیا۔ان باغیوں میں شرد پوار کے قریبی ساتھی اور سابق مرکزی وزیر پرفل پٹیل شامل تھے ۔ 40؍ارکان اسمبلی و کونسل کے نکل جانے پر بھی 83سالہ شرد پوار کے عزم و حوصلہ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ وزیر اعظم نے انہیں بھٹکتی آتما کہہ کر ان کا تمسخر اڑایا مگر انہوں نے اس کا پروقار جواب دے کر سیاسی فائدہ اٹھالیا۔
اجیت پوارکا اپنے چچا کے خلاف مسلسل طنز و تشنیع کا بازار گرم رکھا مگر شرد پوار اپنے کام میں لگے رہے۔شرد پواراپنی درازیٔ عمر اورخرابیٔ صحت کے باوجود نہ صرف بارامتی میں بلکہ ایم وی اے کے نامزد امیدواروں کی خاطر بھی ریلیوں سے خطاب کرتے رہے یہاں تک کہ مہاراشٹر میں بی جے پی کو آئینہ دکھا کر انتقام لے لیا۔ اجیت پوارکوملنے والی ۵ نشستوں میں سے پربھنی راشٹریہ سماج پکش کے مہادیو جانکر کو دینی پڑی ۔ اجیت پوار کی این سی پی اقتدار کے زور اور بی جے پی کی حمایت کے باوجود صرف رائے گڑھ کی ایک سیٹ پر کامیاب ہوسکی ۔وزیر اعظم نریندر مودی کی حلف برداری کے بعد ناراضی کا پہلا سُر این سی پی کی جانب سے سامنے آچکا ہے کیونکہ 71 ؍ارکان پر مشتمل مرکزی وزارتی کونسل میں ایک بھی وزیر اجیت دھڑے کا نہیں ہے۔
این سی پی کالوک سبھا میں ایک رکن سنیل تٹکرے ہے جبکہ راجیہ سبھا میں پرفل پٹیل کو رکنیت ملی ہوئی ہے۔ وزارت کا معاملہ آیا تو پہلے تٹکرے اور پٹیل آپس میں بھڑ گئے ۔ اس کے بعد جب پر فل پٹیل کو وزیر مملکت (آزادانہ چارج) کے عہدے کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے ا سے قبول کرنے سے انکار کر دیاکیونکہ وہ پہلے حکومت ہند کے کابینی وزیر رہ چکے ہیں ۔ سنیل تٹکرے وزیر مملکت بننے کے لیے تیار تھے مگر بی جے پی نے انہیں دعوت ہی نہیں دی ۔ اجیت پوار نے اس بابت اختلافات کو مسترد کیا اور پرفل پٹیل نے کہا کہ : ’’ مجھے آزادانہ چارج کے ساتھ وزیر مملکت کے عہدے کے لیے اطلاعات موصول ہوئی ہیں لیکن میں پہلے ہی کابینہ میں وزیر تھا، اس لیے میں نے یہ عہدہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔‘‘اس موقع پر اجیت پوار نے نہایت بے حیائی سے کہا کہ ، ’’آج ہمارے پاس ایک لوک سبھا اور ایک راجیہ سبھا ممبر ہے، لیکن عنقریب وہ تعداد 4 ہوجائےگی‘‘ اس کے ایوان بالا کی رکنیت کے لیے اپنی شکست خوردہ اہلیہ کا پرچۂ نامزدگی داخل کرکے انہوں نے چھگن بھجبل کو ناراض کردیا ۔
روہت پوار نے طنز کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ، “اجیت دادا کی طاقت کم کر دی گئی ہے۔ بی جے پی یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ ہمیں آپ سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اجیت دادا کو آگے بڑھ کر بی جے پی کے نشان پر لڑنا پڑے گا۔ دادا سے سب سے زیادہ فائدہ پرفل پٹیل کو ہوا ہے۔ ای ڈی کی تحقیقات بھی بند ہو گئی اور راجیہ سبھا کی رکنیت بھی مل گئی۔‘‘ مہاراشٹر میں آئندہ اسمبلی انتخاب سے قبل این سی پی کے وجود پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے کیونکہ بہت سارے ارکان اسمبلی گھر واپسی کی تیاری کررہے ہیں ۔ ایسا ہونے پر مہا یوتی کی حکومت پر تو بنی رہے گی مگر عوام کے اندر اجیت پوار کی ساکھ بگڑ جائے گی اور اب وہ جہاں کھڑے ہیں اس سے بھی نیچے کھسک جائیں گے۔ سنیل تٹکرے اگر مادرِ تنظیم میں لوٹ آئیں تو شیوسینا(ادھو) ، این سی پی اور بی جے پی کے برابری پر آجائیں گی نیز بعید نہیں کہ خود اجیت پوار پھر سے پلٹی مارکر چچا کی پناہ میں لوٹ آئیں ۔
مہاراشٹر کے اندر اگر شیوسینا کی مشترکہ نشستوں کا جائزہ لیا جائے تو دونوں دھڑوں کو ملا کر کل 16 مقامات پرکامیابی ملی یعنی صرف 3کا نقصان ہوا۔ این سی پی کے دونوں فریقوں کو ملا لیا جائے تو 5 کا فائدہ ہوا ہے ۔ کانگریس کے کھاتے میں پرکاش بابو پاٹل کی نشست بھی ڈال دی جائے کہ جنھوں نے ملک ارجن کھڑگے سے دہلی میں ملاقات کرکے گھر واپسی کرلی ہے تو 13 کا فائدہ ہوا اور اتنا ہی بی جے پی کا نقصان بھی ہوا۔ اس طرح پہلے نمبر کی پارٹی تیسرے نمبر پر کھسک گئی ہے۔ مرکز میں بی جے پی کی ناکامی کے لیے بنیادی طور پر نریندر مودی ذمہ دار ہیں کہ انہوں نے مہاراشٹر میں 35ریلیاں کرکے 9؍ امیدوار کا میاب کیے اسی طرح صوبے میں شکست کی ذمہ داری نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس پر بھی ہے ۔ انہوں نے اس کا اعتراف کرکے اپنے استعفیٰ کی پیشکش بھی کردی ہے جو اچھی بات ہے ۔ پچھلے اسمبلی انتخاب سے قبل دیویندر فڈنویس بڑی رعونت سے کہا کرتے تھے کہ ’میں تو ضرور آوں گا ‘۔اس کےبعد جب ادھو ٹھاکرے نے وزیر اعلیٰ بن کر ان کی چھٹی کردی تو اعلان کیا میں سمندر کی طرح لوٹ کر آوں گا مگر اب استعفیٰ کی پیشکش کرکے زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ میں سمندر میں ڈوبنے جارہا ہوں۔
یہ قسمت کی ستم ظریفی ہے کہ ڈھائی سال کے بعد ریاست میں کمل کھلا تب بھی وہ وزیر اعلیٰ کے عہدے پر نہیں آسکے۔ اقتدار کے ایسےحریص کے استعفیٰ کی سیاسی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ فی الحال ان کے پاس گنوانے کے لیے کچھ نہیں ہے ۔ ویسے بھی تین ماہ کے اندر اسمبلی انتخابات کا اعلان ہوجائے گا اور اس کے بعد بی جے پی اقتدار سے محروم ہوجائے گی۔ایسے اب نکل لینے میں کوئی خاص نقصان نہیں ہے۔ دیویندر فڈنویس کو اس منافقانہ قربانی کے نتیجے میں پارٹی کے اندر احترام و طاقت مل سکتی تھی اور اس کے ذریعہ وہ اپنے حریفوں کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرسکتےتھے مگر پارٹی نے اسے مسترد کرکے انہیں اس محروم کردیا ۔ یوپی میں بھی جہاں بی جے پی نے 29 نشستیں گنوائی ہیں وہیں سماجوادی پارٹی کو 32 نشستوں کا فائدہ ہوا ہے۔ اسی کے ساتھ کانگریس ایک سے 6 پر پہنچ گئی ہے۔ اس لیے دونوں ریاستوں میں بی جے پی کی کارکردگی کا موازنہ ہوتا رہتا ہے۔
امیت شاہ کے ساتھ فڈنویس کی قربت کے سبب استعفیٰ کو یوگی ادیتیہ ناتھ کے خلاف سازش بھی سمجھا گیا ۔ اس میں امیت شاہ کا بہت بڑا فائدہ ہے۔ بعید نہیں کہ کل یگ کے چانکیہ سے فڈنویس کے کندھے پر بندوق رکھ کر یوگی کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہو۔ سیاست میں رائج منافقت کے پیش اس کا قوی امکان ہے کہ یوگی کی ناکامی کا بہانہ بناکر امیت شاہ پارٹی ان کے حریف اول یوگی ادیتیہ ناتھ کا کانٹا نکالنے کی کوشش کریں ۔ ایسے میں یوگی کو آر ایس ایس کا سہارا ہے جو مختلف انداز میں مودی پر حملہ آور ہے۔ یہ سنگھ کے اندر مودی کے خوف کی کمی کی علامت تو ہے مگر ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ اس کا ایک ثبوت اس وقت سامنے آیا جب سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت گورکھپور میں اپنے ایک تربیتی اجتماع میں شرکت کرنے کے لیے یوگی کے گورکھپور میں پہنچے تو اسی وقت وزیر اعلیٰ نے بھی اپنے شہر کا قصد کرلیا ۔ اس طرح دونوں رہنماوں کے ملاقات کی قیاس آرائی ہونے لگی مگر بھاگوت نے یوگی سے ملاقات نہیں کرکے انہیں مایوس کردیا۔ایسے میں فڈنویس کے استعفیٰ کی پیشکش کا مقصد اس شعر کی مانند مشکوک ہوگیا ہے؎
ادھر ہم سے محفل میں نظریں لڑانا،ادھر غیر کو دیکھ کر مسکرانا
یہ بھینگی نظر کا نہ ہو شاخسانہ،’کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ‘
Like this:
Like Loading...