وکاس یادو اور امریکہ:
’کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ ‘
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
وزیر اعظم نریندر مودی ایک زمانے میں بار بار یہ دعویٰ کیا کرتے تھے کہ جوکام پچھلے سترّ سال میں نہیں ہوا وہ انہوں نے کردکھایا لیکن اب تو ان کے ناقدین بھی اعتراف کررہے ہیں موصوف نے وہ کارنامہ انجام دے دیا کہ جس کا تصور بھی محال تھا ۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس کہہ کر آنے والے مودی جی کے بھگتوں نے وکاس کی تلاش میں دس سال گنوا دئیے لیکن اب تو امریکہ سرکار بھی وکاس یادو کو تلاش کررہی ہے۔ اس نے موسٹ وانٹیڈ وکاس یادو کا پوسٹر نکال دیا ہے۔ یہ معاملہ چونکہ پہلی بار مودی جی کی قیادت میں انجام پایا اس لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس پر امریکہ بہادر کو لال آنکھیں دکھانے کے بجائے نظریں جھکا کر وہ وکاس یادو کی حوالگی پر تیار ہوتے دکھائی پڑ رہے ہیں۔ وہ تو اچھا ہوا یہ کام مودی جی کے انتخاب ہارنے کے بعد نہیں ہوا ورنہ بی جےپی والے کہتے کہ مودی جی کے مدت کار میں کسی کی مجال نہیں تھی جو ہندوستان کی جانب نظر اٹھا کر دیکھتا۔ ساری دنیا ان سے ڈرتی تھی اور اجیت ڈوول کی نگرانی میں کی جانے والی بین الاقومی کارروائیوں کے خلاف کوئی زبان کھولنے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔ راہل گا ندھی کی کمزوری کو موردِ الزام ٹھہرا کر انہیں ملک کو کمزور کرنے کا مجرم قرار دینے کے بعد مودی کو شیر بناکر پیش کیا جاتا لیکن اب تو ساری دنیا نے مودی جی کو امریکہ کے آگے بھیگی بلی بنتے نظر آ ر ہے ہیں ۔
وکاس یادو کے معاملے میں امریکہ کے ارادے ٹھیک نہیں لگتے اسی لیے کہ اس نے ایک چھوڑ دودو فردِ جرم داخل کردی ہے ۔ نیو یارک میں جنوبی ضلع کے اٹارنی جنرل کا بیان کہتا ہے کہ ’ شہر میں ایک امریکی شہری کے قتل کی (ناکام) سازش کے معاملے میں وکاش یادو عرف وکاس عرف امانت نامی ہندوستانی سرکاری ملازم کے خلاف کرائے کے قاتل کی خدمات حاصل کرنے اور منی لانڈرنگ ملوث ہونے کا مقدمہ درج کیا گیا‘۔امریکی تفتیشی ایجنسی ایف بی آئی نے یادو کو مطلوبہ افراد کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے اس کے خلاف 10 اکتوبر 2024 کو گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے کاذکرکیا اور ملزم کی تفصیلات شائع کردی ۔ اس میں وکاش یادو کی تصویر کے ساتھ اس کی جائے پیدائش پران پورہ، ہریانہ اور عمر 39 برس بتاکر قد 5 فٹ 10 انچ سے 6 فٹ 1 انچ اور وزن تقریباً 175 پاؤنڈز بھی درج ہے۔ یا دو کے بالوں کا کالا اور آنکھوں کا بھورا رنگ اس لیے بتایا گیا تاکہ ایف بی آئی کے مقامی دفتر یا قریب ترین امریکی سفارتخانے یا قونصل خانے کو اس کی اطلاع دی جائے۔
دوسری فرد جرم میں وکاس یادو کے خلاف الزامات کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ اس میں بتایا گیا کہ وکاش یادو پر امریکہ کے شہری اور سکھ علیحدگی پسند لیڈر گر پتونت سنگھ پنون کے قتل کی سازش کرنے اور انھیں قتل کرانے کے لیے ایک اورہندوستانی شہری نکھل گپتا کے توسط سے شوٹر ( یعنی کرائے کا قاتل) مہیاکرنے کا الزام ہے۔ پہلے یہ باتیں واشنگٹن پوسٹ اخبار میں چھپی تھیں مگر اب تو آفیشیل ہوگئی ہیں ۔ نکھل گپتا کو ایف بی آئی نے نومبر میں جمہوریہ چیک کے دارالحکومت پراگ میں اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ کرائے کا قاتل سے رقم کے بارے میں بات چیت کر رہا تھا۔ وہ ہٹ مین دراصل ایف بی آئی کا خفیہ ایجنٹ تھا۔ نکھل گپتا کو قانونی کارروائی پوری کرنے کے بعد امریکہ لاکرنیویارک کی جیل میں رکھا گیا ہے۔ اس معاملے میں اب وکاش یادو کو نکھل گپتا کا شریک ملزم بنایا گیا۔
یادو کے خلاف تیار کی جانے والی یہ فرد جرم اس کی پوری جنم پتری کھول کر رکھ دیتی ہے۔ اس کے مطابق ’ یادو ہندوستانی وزیر اعظم کے دفتر میں موجود حکومت کی کابینی سکریٹریٹ کے ملازم ہیں ۔‘ یہ معاملہ وزیر اعظم تک اس لیے پہنچ گیا کیونکہ ’رآ‘ نامی ایجنسی کیبینٹ سکریٹریٹ کے تحت کام کرتی ہے۔فردِ جرم کے مطابق یادو کا تعارف ایک سینیئر فیلڈ افسرکے طور پر کرایا گیا اور سکیورٹی، مینیجمنٹ اور خفیہ کارروائی کو اس کی اس کی ذمہ داریوں میں شمار کیا گیا۔ وکاش یادو انڈیا کی بابت یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ وہ سب سے بڑے نیم فوجی دستے سینٹرل ریزرو پولیس فورس میں اسسٹنٹ کمانڈنٹ کے طور پر کام کر چکاہے اور اس نے کاؤنٹر انٹیلی جنس، جنگی ہتھیار چلانے اور پیراٹروپر کی بھی تربیت لے رکھی ہے۔فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ وہ ہندوستانی شہری ہے اور وہیں سے امریکہ میں پنوں کے علاوہ ایک اور شخص کے قتل کی سازش سے متعلق ہدایت دے رہاتھا۔
یہ تو خیر امریکی الزامات ہیں جن سے متعلق بھاگوت جیسے لوگ کہہ سکتے ہیں کہ وہ عالمی سطح پر بڑھتےہوئے رسوخ سے پریشان ہے مگر وکاس یادو خلاف دہلی میں درج ہونے والی شکایت کا کیا کیا جائے؟ وکاش یادو کو تو امیت شاہ کے تحت کام کرنے والی دہلی پولیس نے بھی ہفتہ وصولی کےالزام میں گرفتار کیا تھا ۔ اس لیے اسے چند مہینے جیل میں گزارنے پڑے تھے ۔ ایف آئی آر کے مطابق دہلی میں روہینی کا رہنے والا راج کمار والیہ موتی نگر میں ایک کیفے اور لانج چلاتا ہے۔ والیہ کے بقول گزشتہ سال ۱۱؍ دسمبر کو وہ اپنے دوست ابھیجیت کے ہمراہ یادو سے ملنے این آئی اے کے دفتر پہنچا تو اس نے اسے کو کار میں دھکیل کر زد وکوب کرنے کے بعد لارنس بشنوئی کے نام پر رقم کا مطالبہ کیا۔ ایف آئی آر میں گردن پر ضرب لگا کر سادے چیک پر دستخط کرانے اور خاموش رہنے کی دھمکی دینے کا الزام ہے۔ اس کے ساتھ کیفے سے50؍ہزار روپئے چرانے کی بھی شکایت کی گئی ہے۔اس طرح گویا یادو نےخود کو این آئی اے میں ملازم اورخفیہ ایجنٹ بتاکردفترکے باہر ملاقات کرنے کے بعد تاوان وصول کیا۔ آگے چل کر وکاش کی گرفتاری ہوئی اور فی الحال وہ ضمات پر ہے۔
امیت شاہ کے تحت اگر دہلی کی یہ حالت ہے تو ملک بھر میں قانون کا کیا حال ہوگا؟ عآپ کے منیش سسودیہ نے دہلی میں سی آر پی ایف اسکول کے باہر دھماکے پر یہی سوال کیا۔ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ دھماکے کی خاطر سی آر پی ایف اسکول کا انتخاب کیا گیا اور یادو بھی سی آر پی ایف میں زیر ملازمت تھا۔ہریانہ کے پران پورہ گاؤں میں وکاش یاود کی دہلی میں گرفتاری زیر بحث نہیں ہے مگر امریکی الزامات کو اس کے اہل خانہ پوری طرح مسترد کرتے ہیں ۔ وکاش کے عم زاد بھائی اویناش یادو کے مطابق خاندان کو اس کے جاسوسی ایجنسی کے لیے کام کرنے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔اویناش یادو کے لیے تو وہ اب بھی فیڈرل سنٹرل ریزرو پولیس فورس(سی آر پی ایف) کا ملازم ہےجس میں وہ 2009 کے اندر شمولیت اختیار کی تھی۔اویناش یادو کو اس نے بتایا تھا کہ وہ ڈپٹی کمانڈنٹ ہے، اور اسے پیرا ٹروپر کے طور پر تربیت دی گئی تھی۔ اویناش یادو نے نامہ نگار ایک منزلہ مکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ “اتنے پیسے کہاں سے آئیں گے؟ کیا آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس گھر کے باہر کوئی آڈی اور مرسڈیز قطار میں کھڑی ہے؟‘
وکاش یادو کے ایک اور کزن، 41 سالہ امیت یادو نے نامہ نگار سے کہا کہ وکاس یادو کتابوں اور ایتھلیٹکس میں دلچسپی رکھنے والا خاموش طبع قومی سطح کا نشانے باز ہے۔ یہ تو صرف حکومت ہند اور وکاس ہی جانتے ہیں کہ کیا ہوا ہے؟لیکن اس کے ساتھ یہ بھی پوچھا کہ اگر حکومت ایک نیم فوجی افسر کو چھوڑ دیتی ہے تو پھر ان کے لئے کون کام کرے گا؟ امیت یادو چاہتے ہیں کہ ہندوستانی حکومت ان کی حمایت کرے اور بتائے کہ کیا ہوا ہے۔ ورنہ وہ کہاں جائیں گے؟اویناش یادو نے بتایا کہ وہ نہیں جانتا کہ وکاش یادو کہاں ہے لیکن انہیں تو بس اتنا پتہ ہے کہ وہ اپنی بیوی اور ایک بیٹی کے ساتھ رہتا ہے جس کی پیدائش گزشتہ سال ہوئی تھی۔ حکومتِ ہند نے الزامات کی تحقیقات کرنے کا اعلان کیا اور یہ کہا کہ وکاس یادو اب سرکاری ملازم نہیں ہیں لیکن اس کے انٹیلی جنس افسر ہونے کی نہ توثیق کی اور نہ انکار کیا۔
حکومتِ ہند کے اہلکاروں نے یادو کے ٹھکانے پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا جبکہ واشنگٹن پوسٹ نے امریکی حکام کا حوالہ سے خبر دی کہ وہ اب بھی ہندوستان میں ہے اور امریکہ اس کی حوالگی کا مطالبہ کرے گا۔ملزم کی 65 سالہ ماں سدیش یادو صدمے میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’میں کیا کہہ سکتی ہوں؟ مجھے نہیں معلوم کہ امریکی حکومت سچ کہہ رہی ہے یا نہیں؟‘ دراصل نکھل گپتا کی گرفتاری اور گواہی نے اس معاملے کو بری طرح الجھا دیا ہے اور اس کے تار نہ صرف اجیت دوول اور وزارت داخلہ بلکہ وزیر اعظم کے دفتر تک سے جوڑ دئیے ہیں ۔ اس طرح قزان میں برکس +کی میٹنگ سے قبل امریکہ نے حکومتِ ہند پر زبردست دباو بنا یا دیا۔ اس دباو کا مقابلہ کرنا وزیر اعظم نریندر مودی کی بہت بڑی اگنی پریکشا بن گیا تھا۔امریکی انتظامیہ سامنے سے دوستی جتاتا ہے اور پیچھے سے خنجر گھونپتا ہے۔ اس کے منافقانہ رویہ پر یہ شعر صادق آتا ہے؎