اسرائیل کے ایران پر حملے، ا س سلسلے میں کیا جاننا ضروری ہے؟
نیویارک ، 28اکتوبر (ایجنسیز )
رواں ماہ کے آغا میں جب ایران نے اسرائیل پر بیلسٹک میزائل حملے کیے تھے اس بات کی توقع کی جا رہی تھی کہ اسرائیل ان کا جواب دے گا اور اس جوابی کارروائی کے ممکنہ اہداف بھی زیرِ بحث تھے۔اسرائیل نے ہفتے کو صبح سویرے ایران کے مختلف مقامات پر کئی اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ ان میں سے کئی حملے ایران کی سرحد کے کافی اندر تک کیے گئے اور دار الحکومت تہران بھی میں بھی دھماکے سنے گئے۔اسرائیل کی فوج کہنا ہے کہ اس نے ’نپے تلے اور ٹارگٹڈ‘ حملے کیے ہیں جن میں ایران کے میزائل دفاعی نظام، فضائی جنگی صلاحیتوں اور ایسی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے جہاں اسرائیل کے خلاف استعمال ہوالے میزائل اور دیگر ہتھیار تیار کیے جاتے ہیں۔
ایران کا اصرار ہے کہ اسرائیل کے حملوں سے بہت ’محدود پیمانے پر‘ نقصان ہوا ہے۔ان حملوں سے ایران کو کتنا نقصان پہنچا؟ اسرائیل کے حملوں کی نوعیت کیا تھی؟ اس پر خطے میں ردِ عمل کیا تھا اور ایران کا ممکنہ جواب کیا ہوسکتا ہے؟ یہاں ان اہم سوالوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔یہ تاحال واضح نہیں ہے کہ اسرائیل کے حملوں نے ایران میں کس پیمانے پر تباہی کی ہے۔ دونوں ہی ممالک نے اس بارے میں تاحال تفصیلات بیان نہیں کی ہیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے حملے میں اس کے صوبے ایلان، خوزستان اور تہران میں فوجی اڈوں کو ہدف بنایا گیا ہے۔اسرائیل ان حملوں میں ایران کے میزائل ڈیفینس سسٹم کو بری طرح نقصان پہنچانے کا دعویٰ کر رہا ہے۔
اسرائیل فوج کے ترجمان ریئر ایڈمر ڈینیئل ہگاری کا کہنا ہے کہ اسرائیل ایران میں کارروائی کے لیے اس کی فضائی حدود میں آزادانہ نقل و حرکت کر سکتا ہے۔اسرائیل نے اپنے حملے میں اس بات کا خیال رکھا ہے کہ ایسے اہداف کو نشانہ بنایا جائے جس کے بعد ایران میں شدید ردِعمل پیدا نہ ہو۔ خاص طور پر ایران کی معیشت کے لیے ریڑھ کی حیثیت رکھنے والی تیل کی تنصیبات اور اس کے جوہری تنصیبات کو نقصان نہیں پہنچایا گیا ہے۔رواں ماہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے واضح کردیا تھا کہ وہ ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیل کے حملوں کی حمایت نہیں کریں گے۔
امریکی حکام کے مطابق اسرائیل کو امریکہ کی جانب سے ایئر ڈیفینس میزائل کی فراہمی کے بعد اندازہ یہی تھا کہ اسرائیل اس بات پر آمادہ ہوگیا ہے کہ وہ ایران کی تیل اور جوہری تنصیاب کو نشانہ نہیں بنائے گا لیکن اس بات کو کسی باقاعدہ معاہدے کی شکل نہیں دی گئی تھی۔اسرائیل نے واضح کیا ہے کہ ہفتے کو ایران پر کی گئی بمباری کے بعد اس کا جوابی حملہ ختم ہوچکا ہے۔فوج کے ترجمان ڈینیئل ہگاری نے ہفتے کو کہا تھا کہ جوابی کارروائی مکمل ہوچکی ہے اور اس کے مقاصد بھی حاصل کرلیے گئے ہیں۔
اس کے کچھ ہی دیر بعد ایران کی سول ایوی ایشن آرگنائزیشن نے فضائی حملے کے باعث معطل کیا گیا فلائٹ آپریشن بحال کردیا تھا۔تہران میں دکانیں اور بازار کھل گئے تھے اور سب کچھ معمول کے مطابق تھا البتہ پیٹرول اسٹیشنز پر لمبی قطاریں تھی اور شہریوں نے ایندھن ذخیرہ کرنا شروع کردیا تھا۔تل ابیب میں قائم ادارے نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز سے تعلق رکھنے والے محقق یوئیل گزانسکی کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے حملوں کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ اگر اس کے خلاف جارحیت کی گئی تو وہ خاموش نہیں رہے گا۔
لیکن یہ ایسے انداز میں کیا گیا کہ ایران کو زیادہ شرمندگی نہ اٹھانا پڑے۔وائٹ ہاو?س نے واضح کردیا تھا کہ یہ حملے ختم ہونے چاہییں اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی مزید نہیں بڑھنی چاہیے۔ساتھ ہی امریکہ نے ایران کو بھی کوئی ردِ عمل کرنے سے باز رہنے کی وارننگ دے دی تھی۔برطانیہ کے وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر نے ’خطے میں مزید کشیدگی سے گریز‘ پر زور دیتے ہوئے فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کا کہا تھا۔مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے ایران پر حملے کا ردعمل زیادہ سخت تھا۔