Skip to content
افغانستان میں انسانی حقوق سے متعلق رپورٹ:
خواتین پر پابندیاں جرائم کے زمرے میں آتی ہیں: اقوام متحدہ
جینوا،20جون ( آئی این ایس انڈیا )
افغاستان میں انسانی حقوق سے متعلق اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ نے طالبان حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ایسی پابندیاں ہٹائیں جو خواتین کے بنیادی حقوق سلب کرنے کا موجب بن رہی ہیں۔اپنی تازہ ترین رپورٹ میں رچرڈ بینیٹ کا کہنا ہے کہ طالبان کے دورِ حکومت کے دوران خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق کی منظم انداز میں خلاف ورزیوں میں شدت دیکھنے میں آئی ہے جس سے افغانستان میں نوجوان نسل سمیت معاشرے کے تمام عناصر کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔منگل کو جنیوا میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 56 ویں اجلاس میں افغانستان کے علاوہ دنیا میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر بھی غور کیا گیا۔اجلاس میں افغانستان میں تعلیم اور کام کے شعبوں میں خواتین پر پابندیوں، صحت اور دیگر مسائل کا ذکر کیا گیا۔
اس موقع پر افغان خواتین سے بات کرتے ہوئے رچرڈ بینیٹ نے بتایا کہ اس قسم کی خلاف ورزیاں اتنی سنگین اور وسیع ہوتی جا رہی ہیں کہ یہ منظم شکل اختیار کر رہی ہیں۔ خواتین کے خلاف ایسے اقدامات جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔طالبان حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی مو?قف سامنے نہیں آیا ہے تاہم ماضی میں وہ اس قسم کی رپورٹس کو افغانستان کے خلاف پروپیگنڈا قرار دے چکے ہیں۔بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جاری صنفی امتیاز اور تشدد کی کارروائیاں ایک حقیقت ہیں۔افغانستان کے صوبہ لوگر کے سابق گورنر محمد حلیم فدائی کا کہنا ہے ایک طرف اقوامِ متحدہ اپنی رپورٹس میں خواتین اور لڑکیوں کی حالتِ زار پر تشویش کا اظہار کر رہا ہے۔ لیکن وہیں اقوامِ متحدہ طالبان حکومت کے ساتھ مفاہمت پر بھی زور دیتا ہے۔
سابق گورنر کے بقول اس وقت افغانستان کی 52 فی صد آبادی جو کہ خواتین پر مشتمل ہے کو تعلیم اور روزگار جیسے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ ان کے بقول صنفی امتیاز اور انسانی حقوق کی پامالی محض خلاف ورزیاں نہیں بلکہ حقیقی جرائم ہیں۔محمد حلیم فدائی کے مطابق اقوامِ متحدہ کو چاہیے کہ وہ افغانستان کے حوالے سے حقائق پر مبنی رپورٹس عالمی برادری کے ساتھ شیئر کرے تاکہ وہاں انسانی حقوق کے حوالے سے اصل حقائق معلوم ہو سکیں۔انسانی حقوق کی سرگرم کارکن وژمہ توخی بھی اس اجلاس کے موقع پر جنیوا میں موجود تھیں۔ان کے مطابق منگل کو ہونے والے اجلاس میں افغانستان میں انسانی حقوق، خواتین کی تعلیم اور روزگار سمیت بہت سارے مسائل پر سیر حاصل گفت گو کی گئی۔
انہوں نے رچرڈ بینیٹ کی رپورٹ کو ایک جامع رپورٹ قرار دیا۔ ان کے بقول وہ امید کرتی ہیں کہ جو تجاویز انھوں نے اقوامِ متحدہ کو مہیا کی ہیں ان پر غور کیا جائے گا۔وژمہ توخی کے مطابق وہ دوحہ میں شیڈول کانفرنس میں خواتین کو تمام پلیٹ فارم پر نمائندگی دینے کا مطالبہ کریں گی۔رواں ماہ 30 جون اور یکم جولائی کو دوحہ میں اقوامِ متحدہ کی زیرِ نگرانی افغانستان کے حوالے سے تیسری کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔طالبان حکومت کو پہلی کانفرنس میں دعوت نہیں دی گئی تھی جب کہ فروری میں ہونے والی دوحہ کانفرنس میں طالبان حکومت نے آخری لمحات میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی شرکت کی بنا پر کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔
طالبان حکومت کے مطابق ایسی کانفرنسوں میں صرف انہی لوگوں کی شرکت ہونی چاہیے، جو افغانستان کی صحیح معنوں میں نمائندگی کرتے ہوں۔تاہم اس مرتبہ طالبان حکومت نے اس کانفرنس میں شرکت کے حوالے سے مشروط آمادگی کا اظہار کیا ہے۔طالبان حکومت کے وزارتِ خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے ایکس پر ایک پوسٹ کے ذریعے بتایا کہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے شرکا کی فہرست اور اجلاس کے ایجنڈے پر دو ماہ کی مشاورت کے بعد طالبان حکومت نے دوحہ کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ کیا ہے۔تاہم انھوں نے خبردار کیا کہ ایجنڈے اور شرکا کی فہرست میں کوئی تبدیلی کی گئی تو ان کا فیصلہ تبدیل ہو سکتا ہے۔
Like this:
Like Loading...