Skip to content
موب لنچنگ کی وجوہات اور اثرات: مسلمانوں کے ساتھ پُرتشدد رویہ
🍁✍۔مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
📱09422724040
┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈
ملک میں مسلمانوں کے خلاف ہجوم کے ہاتھوں قتل (Mob Lynching) ایک سنگین، پریشان کن، اور فکر انگیز مسئلہ بن چکا ہے۔ موب لنچنگ ایک ایسا عمل ہے جس میں ایک ہجوم یا گروہ کسی فرد یا افراد کو بغیر کسی قانونی کارروائی کے، تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک یا زخمی کر دیتا ہے۔ ہجومی قتل کے دوران جنونی و متعصبانہ ذہنیت کے افراد کے گروہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر افواہوں یا غلط معلومات کی بنیاد پر لوگوں کو پُرتشدد اور اذیت ناک سزا دیتے ہوئے قتل کر دیتے ہیں۔ ان واقعات کی جڑیں اکثر فرقہ وارانہ تنازعات، معاشرتی تعصبات اور افواہوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ یہاں اس مسئلے کے بارے میں کچھ اہم نکات پیشِ خدمت ہیں:
موب لنچنگ کی وجوہات
بہت سے واقعات میں مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے یا بیف رکھنے کے شبہ پر ہجوم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہندو عقیدے میں گائے کو مقدس مانا جاتا ہے، گائے کو مقدس ماننے والے بعض انتہاء پسند ہندو گروہ مسلمانوں پر گائے کے ذبح کرنے کا الزام لگا کر تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ بعض شدّت پسند ہندو گروہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں ملوث ہوتے ہیں، جس سے موب لنچنگ کے واقعات میں آئے دن اضافہ ہی ہورہا ہے۔
سوشل میڈیا اور پیغام رسانی کے ایپس پر غلط معلومات اور افواہوں کا پھیلاؤ بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ سوشل میڈیا پر افواہوں کا پھیلاؤ اکثر موب لنچنگ کا سبب بنتا ہے۔ مثلاً، بچوں کے اغوا کی افواہوں کی بناء پر بھی کئی مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاچکا ہے۔ بچوں کے اغوا، چوری یا دیگر جرائم کے بارے میں افواہیں بھی ہجوم کے حملے کا سبب بنتی ہیں۔ مختلف ویڈیوز اور پیغامات کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مواد پھیلایا جاتا ہے۔
کچھ میڈیا ہاؤسز مسلمانوں کے خلاف تعصب رکھتے ہیں اور موب لنچنگ کے واقعات کو تعصبانہ انداز میں رپورٹ کرتے ہیں۔ بعض اوقات رپورٹنگ میں واقعات کی تفصیلات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے، جس سے واقعات کی صحیح نوعیت اور اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ میڈیا ہاؤسز سنسی خیز اور جذباتی خبریں زیادہ دکھاتے ہیں تاکہ ریٹنگز بڑھائی جا سکیں، جو عوام میں خوف اور عدم اعتماد پیدا کرتی ہیں۔ بعض اوقات میڈیا غیر مصدقہ اطلاعات اور افواہوں کو بھی نشر کرتا ہے، جو مزید تشدد کا باعث بنتی ہیں۔
فرقہ وارانہ تشدد کی تاریخ اور معاشرتی تقسیم بھی مسلمانوں کے خلاف ہجوم کے حملوں کو بڑھاوا دیتی ہے۔ مسلمانوں کو اکثر مختلف معاشرتی اور مذہبی وجوہات کی بناء پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اعداد و شمار اور حقائق
ہندوستان میں ہجوم کے ہاتھوں قتل (موب لنچنگ) ایک سنگین مسئلہ رہا ہے، اور اس کے بارے میں دستیاب اعداد و شمار اور حقائق کافی پریشان کن ہیں۔ یہاں کچھ اہم اعداد و شمار اور حقائق پیشِ نظر ہیں:
2015ء سے 2019ء کے درمیان مختلف رپورٹس کے مطابق، ہندوستان میں 100؍ سے زیادہ ہجوم کے حملوں کے واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں درجنوں لوگ جان سے گئے۔ ان واقعات میں ہلاک ہونے والے افراد میں بڑی تعداد مسلمان اور دلت برادریوں سے تعلق رکھتے تھے۔ 2010ء سے 2017ء کے درمیان، ہندوستان میں گائے سے متعلق تشدد کے 63؍ واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں 28؍ مسلمان مارے گئے ۔ 2017ء میں بی بی سی کی ایک تحقیق کے مطابق، ہجوم کے حملوں میں 50% سے زیادہ واقعات افواہوں اور غلط معلومات کی بنیاد پر ہوئے، جنہیں سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلایا گیا تھا۔
فیکٹ چیکر ڈاٹ ان ویب سائٹ پر 2014ء سے 2019ء کے درمیان کل 297؍ موب لنچنگ کے واقعات درج کئے گئے، جن میں سے 98؍ افراد کو اذیتیں دے کر قتل کیا گیا۔
مسلمانوں کی جان و مال کی پامالی
دادری لنچنگ (2015ء): اتر پردیش کے دادری گاؤں میں محمد اخلاق کو گائے کا گوشت رکھنے کے شبہ میں ہجوم نے قتل کر دیا۔ اس واقعے نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر توجہ حاصل کی۔
الور لنچنگ (2017ء): راجستھان کے الور میں پہلو خان کو گائے اسمگلنگ کے الزام میں گائے کے رکھوالوں نے حملہ کر کے قتل کر دیا جب وہ مویشی لے جا رہے تھے۔ یہ واقعہ بھی بہت زیادہ مشہور ہوا اور اس پر وسیع پیمانے پر بحث ہوئی۔
جھارکھنڈ لنچنگ (2019ء): تبریز انصاری کو ہجوم نے چوری کے شبہ میں ایک کھمبے سے باندھ کر بے رحمی سے مارا پیٹا اور اسے زبردستی مذہبی نعرے لگانے پر مجبور کیا۔ بعد میں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال میں چل بسا۔
سرسری طور پر ان واقعات پر بھی نظر ڈالتے ہوئے آگے بڑھیں۔ علی گڑھ میں بھیڑ نے ایک نوجوان کو پیٹ-پیٹ کر مار ڈالا، شہر میں کشیدگی۔ اجمیر میں محمدی مدینہ مسجد کے امام کا پیٹ پیٹ کر قتل، علاقہ کے لوگوں میں سخت غم و غصّہ۔ کیرالہ میں ماب لنچنگ، مہاجر مزدور کو بھیڑ نے کھمبے سے باندھ کر پیٹا، علاج کے دوران موت۔ ہاپوڑ موب لنچنگ معاملہ، 10؍ قصورواروں کو ملی عمر قید کی سزا، گئوکشی کے شبہ میں ہوا تھا قتل۔
دہلی میں موب لنچنگ کے متاثرین کو ملے گا معاوضہ، ایل جی نے نئی پالیسی کو منظوری دی۔ بنگال میں موب لنچنگ، گائے چوری کے الزام میں 2؍ افراد کا پیٹ پیٹ کر قتل۔
جھارکھنڈ میں موب لنچنگ، شمشاد انصاری پر ٹھگی کا الزام لگا کر پیٹ پیٹ کر قتل۔ اس کے علاؤہ کئی واقعات کی لمبی فہرست ہے اسے بیان کرنا مناسب نہیں سمجھتا ہوں۔
اورنگ آباد میں 2؍ مسلمان نوجوانوں کو روک کر ہندوآنہ عقیدے کے نعرے لگانے پہ مجبور کیا اور انہیں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ بھارت میں 49؍ مشہور شخصیات کے ایک گروہ نے وزیراعظم کو ہندو عقائد کے نعرہ جے شری رام کے نام پر ہونے والے پُرتشدد واقعات اور قتل و غارت گری کے خلاف خط لکھا ہے۔
موب لنچنگ کے واقعات کی رپورٹنگ میں کمی یا زیادتی ہو سکتی ہے، اس لئے یہ اعداد و شمار اور واقعات حتمی نہیں ہیں۔
آئینی اور حکومتی ردّعمل
سپریم کورٹ کی ہدایات: جولائی 2018ء میں، سپریم کورٹ آف انڈیا نے ہجوم کے ہاتھوں قتل کو روکنے کے لئے کئی رہنما اصول جاری کیے، جن میں ریاستوں کو نوڈل افسران تعینات کرنے، فاسٹ ٹریک عدالتیں قائم کرنے، فاسٹ ٹریک عدالتوں کا قیام، اور ہجوم کے خلاف مخصوص قوانین بنانے کی ہدایت دی۔ موب لنچنگ کے متاثرین کے لیے مناسب معاوضے کا انتظام کرنے کی ہدایت دی۔
اینٹی لنچنگ قوانین: کچھ ریاستوں (منی پور اور مغربی بنگال) نے ہجوم کے قتل کے خلاف قوانین پاس کیے ہیں۔ ان قوانین میں ملوث افراد کے لیے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔
جھارکھنڈ اسمبلی نے 2019ء میں "جھارکھنڈ اینٹی لنچنگ بل، 2019ء” منظور کیا۔ اس قانون کے تحت ہجومی تشدد کے ذمّہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور متاثرین کو معاوضہ فراہم کیا جائے گا۔ اس قانون میں عمر قید تک کی سزا کی گنجائش ہے۔ راجستھان حکومت نے 2019ء میں "راجستھان پروٹیکشن فرام لنچنگ بل، 2019ء” منظور کیا۔ اس قانون کے تحت ہجومی تشدد کے مجرموں کو عمر قید تک کی سزا دی جا سکتی ہے اور متاثرین کو معاوضہ فراہم کیا جائے گا۔ مغربی بنگال حکومت نے 2019ء میں "مغربی بنگال پریوینشن آف لنچنگ بل، 2019ء” منظور کیا۔ اس قانون کے تحت ہجومی تشدد کے مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور متاثرین کو معاوضہ فراہم کیا جائے گا۔
قانون نافذ کرنے والے اقدامات: پولیس کی تربیت میں بہتری، کمیونٹی پولیسنگ، اور سوشل میڈیا پر نظر رکھنے کے اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں تاکہ ہجوم کے بے رحمانہ حملوں، افواہوں اور غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔
ہندوستان میں ہجوم کے ہاتھوں قتل کے کئی پہلو ہیں جو اسے اور زیادہ تشویشناک بناتے ہیں:
موب لنچنگ کے اکثر واقعات مذہبی بنیادوں اور فرقہ وارانہ تنازعات پر مبنی ہوتے ہیں، جہاں ہجوم مسلمانوں کو نشانہ بناتا ہے۔ مثال کے طور پر، گائے ذبح کرنے یا بیف کھانے کے بارے میں افواہوں کی بنا پر مسلمانوں اور دلتوں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے اور معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچتا ہے۔
ان واقعات کا مقصد مسلمانوں میں خوف پیدا کرنا ہے اور اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ حملہ آوروں کو یقین ہوتا ہے کہ حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گی، جبکہ کئی ایسے واقعات ہیں جہاں حملے کا شکار ہونے والے کے خلاف ہی قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔
موب لنچنگ کے واقعات میں ملوث افراد کو اکثر قانونی کاروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، جس سے قانون کی حکمرانی پر سوالات اٹھتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتماد کی کمی بھی ایک بڑی وجہ ہوتی ہے۔ اس کے علاؤہ، بعض اوقات مقامی پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے ناکافی ردّعمل یا تعصب بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ کئی علاقوں میں پولیس اور عدلیہ پر اعتماد کی کمی پائی جاتی ہے۔ لوگ اکثر یہ یقین رکھتے ہیں کہ سرکاری ذرائع سے انصاف نہیں ملے گا، جس کی وجہ سے وہ خود انصاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نفرت انگیز مواد، جھوٹی خبریں اور افواہوں کی تیزی سے پھیلاؤ نے موب لنچنگ کے واقعات میں اضافہ کیا ہے۔ بچوں کے اغواء کاروں، چوروں، یا مخصوص کمیونٹی کے بارے میں غلط معلومات تیزی سے ہجوم کے تشدد کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ موب لنچنگ کے کئی واقعات میں جعلی خبروں کا کردار ہوتا ہے جو لوگوں کو فوری اور جذباتی ردعمل دینے پر مجبور کرتی ہیں۔ جھوٹی خبروں اور پروپیگنڈہ کی وجہ سے ہجوم تیزی سے اکٹھا ہوتا ہے اور بغیر تحقیق کے کارروائی کرتا ہے۔
سیاسی بیانات، معاشرتی تعصبات، اور سماجی تقسیم بعض اوقات ہجوم کے تشدد کو بڑھاوا دیتے ہیں یا اس کی مذمت کرنے میں ناکام رہتے ہیں، جس سے ایک مجرمانہ ماحول پیدا ہوتا ہے۔ بعض سیاسی عناصر بھی موب لنچنگ کو ہوا دیتے ہیں یا اس پر خاموشی اختیار کرتے ہیں، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ عمل قابل قبول ہے۔ یہ سیاسی حمایت یا خاموشی اس مسئلے کو اور زیادہ پیچیدہ بناتی ہے۔
موب لنچنگ کے واقعات نے مسلمانوں میں خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے۔ وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں اور ان کی روزمرہ کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔
معروف تجزیہ کار عارفہ خانم کہتی ہیں ‘چند حملے منظم طریقے سے منصوبہ بندی کے تحت اور چند انفرادی طور پر، دونوں شکلوں میں ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک مہم چل رہی ہے۔ پڑوسی کو پڑوسی کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ کوشش ہو رہی ہے کہ ملک کا ڈی این اے تبدیل کر دیا جائے’۔
ملک میں مسلمانوں کے خلاف ہجوم کے حملے کے ذریعے قتل ایک سنگین مسئلہ ہیں جنہیں فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ قانون سازی، پولیسنگ میں بہتری، اور عوامی آگاہی کے اقدامات کے ذریعے اس مسئلے کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ضروری ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مؤثر کاروائی کریں، سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کی روک تھام کی جائے، اور معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے۔ سیاسی رہنماؤں اور مذہبی رہنماؤں کو بھی چاہیے کہ وہ اس مسئلے کے خلاف آواز اٹھائیں اور امن و امان کی بحالی میں اپنا کردار ادا کریں۔
مسلمانوں کی جان و مال کو شدید خطرات لاحق ہیں اور موب لنچنگ کے نتیجے میں بے گناہ مظلوم لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ متاثرین اور ان کے خاندانوں کو شدید جسمانی اور ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ موب لنچنگ معاشرے میں نفرت اور تعصب کو بڑھاتی ہے، جس سے معاشرتی ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے۔ موب لنچنگ کے واقعات لوگوں میں خوف اور عدم تحفّظ کے احساس کو بڑھاتے ہیں۔ متاثرین اور ان کے خاندانوں کو معاشی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایسے واقعات فرقہ وارانہ تنازعات کو ہوا دیتے ہیں، جس سے معاشرتی استحکام متاثر ہوتا ہے۔ جب کسی علاقے میں موب لنچنگ کے واقعات بڑھ جاتے ہیں تو وہاں کی معیشت اور ترقی پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ موب لنچنگ قانون کی حکمرانی کو کمزور کرتی ہے اور لوگوں کے قانونی نظام پر اعتماد کو متزلزل کرتی ہے۔ موب لنچنگ کے واقعات سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے، جو کہ کسی بھی ملک کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے۔
موب لنچنگ کی روک تھام کے لئے اہم اقدامات
موب لنچنگ کا حل ایک مربوط اور جامع حکمت عملی کا تقاضہ کرتا ہے جس میں مختلف سطحوں پر کام کرنا شامل ہے۔ موب لنچنگ ایک سنگین مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے مختلف اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ یہاں کچھ اہم تجاویز پیشِ نظر ہیں:
موب لنچنگ کو روکنے کے لیے مخصوص قوانین کا نفاذ ضروری ہے جو اس جرم کے مرتکب افراد کے لیے سخت سزائیں تجویز کریں۔ نفرت انگیز تقاریر اور فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ حکومت کو سخت قوانین بنانے چاہئیں جو موب لنچنگ کو جرم قرار دیں۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو موثر انداز میں قوانین کا نفاذ کرنا چاہیے اور مجرموں کو فوری طور پر گرفتار کرنا چاہیے۔
عوام کو موب لنچنگ کے خطرات اور اس کے قانونی نتائج کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔ تعلیمی اداروں، میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے آگاہی مہم چلائی جائے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر افواہوں کی نگرانی کی جائے تاکہ غلط معلومات اور اشتعال انگیز مواد کو فوری طور پر ہٹایا جا سکے۔ غلط معلومات پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو نفرت انگیز مواد کی فوری رپورٹنگ اور ہٹانے کی ذمّہ داری دی جائے۔
کمیونٹی لیڈرز اور معزز شخصیات کو موب لنچنگ کے خلاف آواز اٹھانے اور لوگوں کو امن و امان برقرار رکھنے کی ترغیب دینے میں شامل کیا جائے۔ کمیونٹی کی سطح پر امن کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو کسی بھی تنازعے کی صورت میں مصالحتی کردار ادا کریں۔
پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خصوصی تربیت دی جائے تاکہ وہ موب لنچنگ کی صورت میں فوری اور مؤثر کارروائی کر سکیں۔ کمیونٹی کی سطح پر بھی عوام کو خود حفاظتی تدابیر کے بارے میں تربیت دی جائے۔
عدالتوں میں موب لنچنگ کے مقدمات کی جلد سماعت اور فیصلہ کیا جائے تاکہ مجرموں کو جلد سزا مل سکے۔ انصاف کی فراہمی میں تاخیر سے بچنے کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں۔ مجرموں کو جلد سزا دی جائے تاکہ دوسروں کے لیے مثال قائم ہو سکے۔
مختلف مذاہب، نسلوں، اور برادریوں کے درمیان ہم آہنگی اور برداشت کو فروغ دینے کے لیے تہواروں اور تقریبات کا انعقاد کیا جائے۔ مختلف مذاہب کے رہنماؤں کے درمیان مکالمے کا انعقاد کیا جائے تاکہ باہمی احترام اور ہم آہنگی کو فروغ ملے۔
موب لنچنگ کے واقعات کی رپورٹنگ کے لیے ہیلپ لائنز قائم کی جائیں اور لوگوں کو فوری طور پر رپورٹ کرنے کی ترغیب دی جائے۔ موب لنچنگ کے واقعات کا ریکارڈ رکھنے کے لیے ایک مرکزی ڈیٹا بیس بنایا جائے۔
موب لنچنگ کے متاثرین اور ان کے خاندانوں کے لیے مالی معاونت اور بحالی کے پروگرام بنائے جائیں۔ متاثرین کو قانونی مدد فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنے حقوق کے تحفّظ کے لیے عدالتوں میں مؤثر طور پر اپنی بات رکھ سکیں۔
ان اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حکومت، عوام، میڈیا، اور سول سوسائٹی سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
(20.06.2024)
ازقلم:مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)
🏠 ال افشان، 7/4، شیلیش نگر، ممبرا،
تھانہ- 400612، مہاراشٹر، الہند۔
masood.media4040@gmail.com
Like this:
Like Loading...