Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
kingmaker-of-bihar-nitish-kumars-plight

بہار کے کنگ میکر :نتیش کمار کی حالتِ زار

Posted on 22-06-2024 by Maqsood

بہار کے کنگ میکر :نتیش کمار کی حالتِ زار

 

ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان

 

نتیش کمار کے اندر ایک جنگ چھڑی ہوئی ہے جو ان کے جسمانی صحت و دماغی توازن پر اثر انداز ہورہی ہے۔ اس نفسیاتی کشمکش کے پیچھے خالص خالص سیاسی عوامل کار فرما ہیں ۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ موجودہ انڈیا محاذ کاراجہ جنک کوئی اور نہیں بلکہ نتیش کمار ہیں۔ اس وقت وہ کسی اور نام سے جانا جاتا تھا ۔ وہ ایک ایسا زمانہ تھا کہ مختلف علاقائی جماعتیں کانگریس کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار تھیں ۔ اس لیے دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال، مغربی بنگال کی ممتا بنرجی ، تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کےچندر شیکھر راو، آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ جگن موہن اور اڑیشہ کے نوین پٹنایک آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ گفت و شنید کررہے تھے ۔ ان لوگوں کی کوشش تھی کہ تمل ناڈو کے اسٹالن اور اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کو بھی اپنے تیسرے محاذ میں شامل کرلیں۔ وہ غیر کانگریسی تیسرا محا ذ اگر بن جاتا اور حزب اختلاف آپس میں دست و گریباں ہوجاتا تو بی جے پی کا چار سو پار والا خواب بڑی آسانی سے شرمندۂ تعبیر ہوسکتا تھامگر اس موڑ نتیش کمار نے دہلی میں آکر سونیا گاندھی سے ملاقات کرنے کا جرأتمندانہ قدم اٹھا کر پورے ملک کو چونکا دیا۔

 

نتیش کمار نے کانگریس کے حوالے سے علاقائی جماعتوں میں پائی جا نے والی بے اعتمادی کی فضا کو دور کرنے میں بہت ہی اہم کردار ادا کیا ۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نے زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھ کر حزب اختلاف کے اتحاد کی پہلی نشست پٹنہ میں بلائی جو ایک نئے دور کا آغازثابت ہوئی۔ آج ملک کے اندر جو سیاسی منظر نامہ دکھائی دیتا ہے اس کی بنیاد کا پتھر وہی نشست تھی جس کا وزیر داخلہ امیت شاہ نے فوٹو سیشن کہہ کر مذاق اڑایا تھا ۔ ان کا گمان تھا کہ یہ ہوا محل تاش کے پتوّں کی مانند ازخود بکھر جائے مگر وہ اندازہ غلط ثابت ہوگیا۔ اس وقت نتیش کمار کا کنونیر بن جانا اور بلا واسطہ وزیر اعظم کے عہدے کی دعویداری تقریباً طے تھی مگر آگے چل کر گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر وہ بلیک میل ہوگئے ۔ عمر کے اس پڑاو میں وہ اروند کیجریوال اور ہیمنت سورین کی مانند جیل کا حوصلہ نہیں جٹا پائے اور بی جے پی پناہ میں چلے گئے ۔

 

نتیش کو اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ ان کا لگایا ہوا پودہ ایک دن ایسا تناور درخت بن جائے گا اس لیے وہ اپنے بی جے پی کے ساتھ جانے کے فیصلے پر یقیناً مغموم تو ہوں گے مگر اس موقع پر لوٹنا بھی مشکل ہے ۔ اب ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جہاں رہنا چاہتے ہیں وہاں نہیں ہیں اور جہاں نہیں رہنا چاہتے ہیں وہاں موجود ہیں۔ اسی کیفیت نے ان کا ذہنی توازن بگاڑ دیا ہے۔ان کی اس کیفیت کا ایک عملی مظاہرہ ابھی حال میں نالندہ یونیورسٹی کے افتتاحی تقریب میں ہوا۔ وزیر اعظم نریندر مودی دوسروں کے کاموں کا کریڈٹ لینے میں کمال مہارت رکھتے ہیں اس لیےدیگر لوگوں کی خدمات اعتراف نہیں کرپاتے ۔ وہ بیچارے اپنی طول طویل تقریر پر مشق و ریاض کرکے راج گیر پہنچے تو میزبان نتیش کمار موجود نہیں تھے۔ وزیر اعظم کی تیسری مدت کارکا یہ پہلا دورۂ بہار تھا جس میں استقبال کے لیے وزیر اعلیٰ کا گیا ہوائی اڈے پر نہ آنا کوئی اچھا پیغام نہیں تھا۔ وزیر اعظم کے ساتھ خود اپنے ملک میں اٹلی جیسا سلوک ناقابلِ معافی جرم تھا مگر کریں تو کریں کیا؟

 

وزیر اعظم کے دل پر آو بھکت میں کمی کی وجہ سے ان کے دل پر جوزخم لگا اس پر نمک پاشی کا کام نتیش کمار کے خطاب نے کیا۔انہوں نے جشن کے ماحول میں اپنی تقریر سے رنگ میں بھنگ ڈال دیا ۔ نتیش کمار نے نالندہ یونیورسٹی کی تعمیر ِ نو کو ایک ایسے زمانے جوڑ دیا جب وزیر اعظم نریندر مودی قومی افق پر نمودار نہیں ہوئے تھےبلکہ مرکز میں جے ڈی یو کے تعاون سے منموہن سنگھ کی حکومت تھی ۔ نومبر 2005 کا قصہ سن کر مودی پر کیا گزری ہوگی اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ وہ تو خیر نتیش کمار نے منموہن سنگھ کے بجائے سابق صدرِ جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے ایماء پر اس کام کے شروع کرنے کی بات کردی ۔ یہ وزیر اعظم کے لیے ڈبل جھٹکا تھا کیونکہ ان کی پہلی کمزوری کانگریس اور دوسری مسلمان ہے۔ وہ بھول کر بھی کسی کارِ خیر کو مسلمانوں سے منسوب کرنے کی غلطی نہیں کرتے بلکہ کتابیں جلانے کا ذکر انہوں نے بلا واسطہ مسلم حکمرانوں کی جانب شک کی سوئی گھما دی جبکہ وہ تو برہمنوں کا کارنامہ تھا۔ یہ دلچسپ انکشاف ہے ملک کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرشاد بہار سے تھے مگر انہیں نالندہ یونیورسٹی کا خیال نہیں آیا جبکہ تمل ناڈو سے آنے والے مسلمان صدر نے اس کے محرک بنے ۔

 

انہوں نے 2008 میں پہلے وزیٹر کے طور پر اے پی جے عبدالکلا م کے نالندہ یونیورسٹی میں آنے کی یاد تازہ کرنے کے بعد 2010 میں ایوان پارلیمان میں اس کے لیے قانون سازی کا ذکر کیا ۔ اتفاق سے اس وقت بھی دہلی میں کانگریس بر سرِ اقتدار تھی اور 2016 میں جس صدر مملکت کے دستِ مبارک سے یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھے جانے کی بات کہی وہ پرنب مکرجی بھی کانگریسی تھے۔ اس طرح بیچارے مودی جی کو احساس کرایا گیا کہ اس تعلیم گاہ کے قیام و تعمیر میں ان کا یا بی جے پی کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ بین السطور یہ پیغام بھی دیا گیا اگر وہ کم ظرف نہ ہوتے تو خود زحمت کرنے کے بجائے صدر مملکت دروپدی مرمو کو افتتاح کے لیے جانے کی درخواست کرتے اس لیے کہ مرکزی یونیورسٹیز کی وائس چانسلر کےطور پر یہ انہیں کا حق ہے۔ ان کے پاس جعلی نہیں بلکہ اصلی ڈگری ہے۔ انہوں نے اپنی سماجی زندگی کی ابتداء کسی سنگھ کی شاکھا میں نہیں بلکہ سرکاری ملازم اور ایک استاد کے طور پر کی تھی لیکن جس وزیر اعظم نے قبائلی صدر مملکت کو ایوان پارلیمان کے افتتاح سے دور رکھا ۔ ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کی تقریب میں شرکت کی اجازت نہیں دی وہ بھلا کسی عوام جلسہ میں انہیں کیونکر آنے دیں گے۔

 

یونیورسٹی کی افتتاحی تقریب میں وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی تقریر سے مودی کی جو دلآزاری کی اس کے بعد ممکن ہے انہیں محسوس ہوا ہو کہ وہ اگر صدر مملکت سے ہی وہاں جانے کی گزارش کردیتے تو اچھا تھا ۔ قومی انتخاب کے بعد اترپردیش اور مہاراشٹر کےا نتخابی نتائج پر تو بہت گفتگو ہوئی مگر ان دونوں صوبوں سے بھی زیادہ چونکانے والے نتیجے بہار سے آئے کیونکہ تیجسوی یادو کے خطابات عام میں جوجم غفیر نظر آتا تھا وہ ووٹ میں تبدیل نہیں ہوسکا ۔ اس کے علاوہ نتائج کا حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ انتخاب سے قبل سیاسی گلیاروں میں جے ڈی یو کا مستقبل زیر بحث تھا۔ بیشتر سیاسی مبصرین بہار میں بی جے پی کے اپنی سبھی سیٹوں کو بچانے میں کامیابی کی توقع تو کررہے تھے مگر جے ڈی یو سے متعلق بد گمانیوں میں مبتلا تھے ۔ ہر کوئی یہ پیشنگوئی کررہا تھا این ڈی اے میں صرف جے ڈی یو کا بڑا نقصان ہوگا۔ ایگزٹ پول بھی یہی قیاس آرائی کررہے تھے لیکن جے ڈی یو پارٹی نے اپنی بہترین کارکردگی سے سب کوحیران کردیا۔

 

نتیش کمار وہی شخصیت ہیں کہ جنہیں بی جے پی کے آنجہانی نائب وزیر اعلیٰ سشیل مودی نے وزیر اعظم کا اہل کہہ کرمودی کی ناراضی مول لے لی تھی اور وہ تاحیات اس غلطی کی قیمت چکاتے رہے۔ نتیش کمار نے کھلے عام کہا تھا کہ ’مودی وزیر اعظم بننے لائق نہیں ہیں‘ ۔ انہوں نے مودی کے ساتھ ہاتھ اٹھائے ہوئے سچی تصویر کو شائع کرنے پر احتجاجاً مشترکہ عشائیہ منسوخ کردیا تھا۔ پچھلی مرتبہ جب وہ الگ ہوئے تو کہا تھا کہ ’مر جائیں گے مگر بی جے پی کے ساتھ نہیں جائیں گے۔اس کے جواب میں امیت شاہ نے بھی ان پر بی جے پی دروازے ہمیشہ کے لیےبند کردئیے تھے لیکن اب یہ حال ہے کہ وہ دو مرتبہ وزیر اعظم مودی کے قدمبوسی کی کوشش کرچکے ہیں۔ایک مرتبہ مودی کے روڈ شو میں کمل تھام کر گھوم چکے ہیں اور ابھی حال میں جلسۂ عام کے اندر مودی کا ہاتھ پکڑ ان کی انگلیاں دیکھنے لگے۔ان کی اس حرکت پر پہلے تو مودی پریشان ہوئے پھر ہنسنے لگے۔ ان کا مسئلہ صرف دماغی حالت کا نہیں جسمانی صحت کا بھی ہے کہ ایک پروگرام میں دھڑا م سے کھڑے کھڑے زمین پر گر گئے۔ سچ تو یہ ہے کہ انسان جب اندر سے ٹوٹتا ہے تو باہر سے بکھرنے لگتا ہے۔ نتیش کمار نے نالندہ کے خطاب میں ہوا کی صحبت میں کچھ دئیے جلانے کی کوشش تو کی ہے ۔ ان کی گومگوں حالت زار پر جاوید احمد کے یہ دو اشعار صادق آتے ہیں ؎
بکھرنا ٹوٹنا بھی اور انا کے ساتھ بھی رہنا
ستم ایجاد بھی کرنا وفا کے ساتھ بھی رہنا
ترا اندازہ ایسا ہے اندھیروں کی کہانی میں
جلانا کچھ دئے بھی اور ہوا کے ساتھ بھی رہنا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

اشتہارات

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb