جب بھی ہم کسی مضمون کو لکھتے ہیں اور کسی طرح سے قوم کو مخاطب کرتے ہیں تو اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ لکھنے والا لکھتاہی رہے گا ، انکی کون سنےگا؟۔ بعض لوگوں کی یہ رائے ہے کہ آپ لکھتے رہولیکن اس قوم پر کوئی اثر نہیں پڑنے والے ہے کیونکہ یہ قوم مردہ ہوچکی ہے ۔ ایک قلمکار کبھی یہ سوچ کر قلم نہیں اٹھاتاکہ اسکے لکھنے کے فوراََ بعد لوگوں میں تبدیلی آئیگی اور لوگ اپنے آپ کو بدل دینگے ۔ یہ کام کسی قلمکار ، صحافی یا کالم نگار سے بھی ناممکن ہے کیونکہ جب پیغمبروں کی دعوت سے ہی کچھ لوگ ہی شرف ایمان ہوئے ہیں تو لکھنے والوں کا کیا ہے ۔لکھنے والے یہی سوچتے ہیں کہ انکا لکھا ہواکسی ایک شخص پر بھی اثر کر جائے تو وہ بڑی کامیابی ہے ۔
اکثر لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ قوم مردہ ہوچکی ہے اس پر کوئی اثر نہیں ہے ، لیکن ہم نہیں مانتے کہ قوم مردہ ہوچکی ہے بلکہ قوم مردہ ہونےکا ناٹک کررہی ہے اور وہ ان مدعوں پر مردہ قوم ہے جس پر انہیں قربانیاں دینی ہوتی ہیں ، اگر انہیں مال غنیمت ملنے کی بات کہی جائے ، کسی آفر کی بات کہی جائے ، کسی مفت چیز دینے کی بات کہی جائے تو یہ لوگ سب سے زیادہ زندہ قوم ہوکر سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ گذشتہ دنوں عید قرباں کے موقع پر کئی لوگ ہزاروں روپئے کے جانور لے آئے ، یہ زندہ قوم کی علامت ہے ، اس سے بڑی زندہ قوم ہونےکا ثبوت انہوں نے اس وقت دیا جب ایک علاقےمیں قربانی کےجانوروں کی کلینگ کٹ مفت میں دی جارہی ہے تو ہزاروں روپئے کے جانوروں کے مالکان صرف دو تین سو روپئے کی کٹ مفت میں حاصل کرنے کےلئے قطار میں کھڑے دکھائی دے رہے تھے
۔ ایسے کوئی واقعات ہیں جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسلمان مردہ نہیں ہیں بلکہ وہ مردہ ہونے کا ناٹک کررہےہیں ۔ سماج میں حالات کیا ہیں اور کیسے مسلمانوں کے ساتھ برتائو کیا جارہاہے اس بات کو سبھی لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں ، ان مسائل کا حل بھی ان مسلمانوں کو معلوم ہے لیکن وہ ان مسائل کا حل نکالنے کے لئے تیار نہیں ہوتے کیونکہ اگر وہ ان مسائل کا حل نکالنے کے لئے آگے آتے ہیں تو انہیں اپنی جیبیں ڈھیلی کرنی ہوگی۔ جس طرح سے مسلمان اپنے مفادات کی خاطر خرچ کررہے ہیں اگر اس میں سے ایک حصہ بھی تعلیم کے شعبے کے لئے صرف کرنے لگیں گے تو یقین جانئے کہ انکی قوم کسی دوسری قوموں سے آگے نکل جائیگی اورلاچارگی و پسماندگی کا جو رونا رویا جاتاہے وہ رونا کم ہونے لگے گا ۔ قوموں میں تبدیلی یا انقلاب ایسے ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے قربانیاں دینی ہوتی ہیں ، بغیر قربانیوںکے کوئی چیز حاصل نہیں کی جاسکتی ، اب مسلمانوں کے مالدار طبقے کو تعلیم ، میڈیا اور تجارت کے شعبے میں قربانی دینےکی ضرورت ہے تبھی جاکر کچھ تبدیلی کی امید کی جاسکتی ہے۔