Skip to content
مہاراشٹر میں جیت گئی بی جے پی اور ہار گئے مودی
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی نے 400 پار کا نعرہ لگایا تھا مگر وہ 240 پر اٹک گئی لیکن مہاراشٹر میں اس کے محاذ مہایوتی نے نہ صرف 200 پار کیا بلکہ 228 پر پہنچ گئی ۔ اس زبردست کامیابی کا موازنہ 2019 کے بجائے 2014سے کیا جانا چاہیے اس لیے کہ اُس وقت مہاراشٹر کے سیاسی افق پر بی جے پی ایک بہت بڑی چھلانگ لگا کر ابھری تھی۔ اس انتخاب سے قبل بی جے پی کے اسمبلی میں صرف 46؍ ارکان اسمبلی تھے لیکن اچانک ان میں 76 ؍کا اضافہ ہو گیا اور وہ تعداد بڑھ کر 122 پر پہنچ گئی تھی۔ اس بار دیکھیں بی جے پی نے اپنے ارکان اسمبلی کی تعداد 106 سے بڑھا کر 132 تک پہنچا دی ہے(کچھ نتائج آنے ہیں اس لیے دوچار کی تبدیلی ہوسکتی ہے)۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو بی جے پی کی یہ چھلانگ 2014 کے مقابلے چھوٹی ہے مگر ایک بڑافرق یہ ہے کہ وہ کامیابی وزیر اعظم نریندر مودی کے مرہون منت تھی اور یہ ان کے بغیر ہے۔
پارلیمانی انتخاب میں جب بی جے پی نے محسوس کیا کہ مودی جی کے آنے سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے تو انہیں علامتی طور پر کچھ مقامات پر زحمت دی گئی مگر زیادہ استفادہ نہیں کیا گیا ۔ اس کے باوجود بی جے پی کی یہ کامیابی پیغام دے رہی ہے کہ وہ مودی کے بغیر انتخاب جیت سکتی ہے اور وزیر اعظم فی الحال پارٹی کے لیے بوجھ بن چکے ہیں یعنی مودی برانڈ کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ اس کا ایک ثبوت جھارکھنڈ کے انتخابات بھی ہیں ۔ وزیر اعظم سے جب مہاراشٹر والوں نے پلہ جھاڑا تو انہوں نے شاہ سمیت اپنی ساری توجہ جھارکھنڈ پر مرکوز کردی ۔ اپنی مدد کے لیے آسام سے ملک کے سب سے بدزبان وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما کو بھی لے آئے اور تینوں نے مل کر ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ۔
آخری وقت میں جو کمی رہ گئی تھی اس کو پورا کرنے کے لیےیوگی ادیتیہ ناتھ کو بھی بلا لیا ۔ یوگی جی نے ’بنٹوگے تو کٹو گے ‘ کا نعرہ لگا کر ہندو مسلمانوں کے درمیان کاٹ چھانٹ کرنے کی کوشش کی۔ ہیمنتا بسوا سرما بنگلا دیشی دراندازوں سے ڈرانے لگے ۔ امیت شاہ نے این آر سی کی مدد سے انہیں نکال باہر کرنے کا عزم دوہرایا۔ مودی جی نے ادیباسیوں کی روٹی ، بیٹی اور ماٹی کے لیے بنگلا دیشیوں یا مسلمانوں سے لاحق خطرات سے ڈرایا لیکن یہ سارے حربے ڈھاک کے تین پات ثابت ہوئے اوربی جے پی پچھلے انتخاب کے مقابلے بھی 3 نشستیں گنوا کر 21پر پہنچ گئی نیز اس کے محاذ کو 6 نشستوں کا نقصان ہوا ۔ اس طرح وہ 24 پر آگیا ۔ یہ ہے مودی سمیت امیت شاہ اور ہیمنتا بسوا سرما کی کارکردگی کی حصولیابی ۔ اس کے بجائے اگر وہاں بھی دیویندر فڈنویس کی مانندبابولال مرانڈی پر اعتماد کیا جاتا تو اتنا برا حال نہ ہوتا ۔اس سے بھی مودی برانڈ کی بے اثری کا پتہ چلتا ہے۔
2014کے اندر مہاراشٹر میں شیوسینا نے بھی اپنی تعداد میں 19 ؍ کا اضافہ کیا تھا اور وہ 63 پر جاپہنچی تھی ۔ اس بار شندے کی شیوسینا نے 15 ؍ کا اضافہ کرکے اپنے ارکان کی تعداد کو 55؍ تک پہنچایا ہے۔ اسی طرح ادھو ٹھاکرے کے قیادت والی شیوسینا اپنی تعداد میں 4؍ کا اضافہ کرکے 21؍ پر پہنچی ہے۔ ان دونوں کی تعداد کو ملا لیا جائے تو پھر ایک بار 19؍ کا اضافہ نظر آتا ہے مگر جملہ تعداد 76؍ ہوجاتی ہے جو دس سال پہلے کی تعداد سے 13؍ زیادہ ہے۔ شیوسینا کے شندے گروہ کو مسلمان غداری کے نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں لیکن شاید عام شیوسینک کا خیال مختلف ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ شندے نظریاتی طور پر بال ٹھاکرے کا وفادار ہے جبکہ ادھو ٹھاکرے نے اقتدار کی خاطر اپنے نظریہ کو پامال کرکے کانگریس سے ہاتھ ملا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمانی انتخاب میں شندے گروہ کا اسٹرائیک ریٹ ادھو ٹھاکرے کے گروہ سے بہتر تھا۔ 13 مقامات پر دونوں ایک دوسرے کے سامنے تھے ۔ ان میں سے 7؍ پر شندے نے اپنی کامیابی درج کروا کر اپنی برتری ثابت کردی تھی ۔
اس بار دونوں شیوسینا میں جو 34؍ نشستوں کا فرق ہے اس کو صرف نوٹوں کی تقسیم سے چھپایا نہیں جاسکتا ۔پارلیمانی انتخاب میں بھی مہایوتی نے بے شما ر روپیہ تقسیم کیا تھا ۔ اس کے باوجود این سی پی اور کانگریس نے زبردست کامیابی درج کرائی اور بی جے پی کو 9 پر پہنچا دیا لیکن شیوسینا ادھو اس کے سامنے ٹک نہیں سکی اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف روپیوں کا کھیل نہیں بلکہ نظریہ کا معاملہ بھی تھا ۔ حالیہ نتائج نے یہ ثابت کردیا کہ ان کے نزدیک شیوسینا کے ہندوتوا کی اہمیت بال ٹھاکرے سے رشتے داری یا ادھو ٹھاکرے کی وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے بہترین کارکردگی سے زیادہ ہے۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ شیوسینا چونکہ منظم کیڈر والی جماعت ہے اس لیے اس کا ووٹ تو کانگریس کو ٹرانسفر ہوگیا مگر کانگریسی اپنے آپ کو اس کے لیے تیار نہ کرسکے ۔ اس لیے یا تو آزاد کھڑے ہوگئے یا گھر بیٹھے رہے۔ اس وقت یہ خرابی نظر نہیں آئی مگر اب کی بار ابھر آئی ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شیوسینا یو بی ٹی کے رائے دہندگان نے کانگریس پر شندے کی شیوسینا کو ترجیح دی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ان نشستوں میں 15 ؍ کا اضافہ ہوگیا۔ ان انتخابی نتائج نے سپریم کورٹ کے لیے آسانی فراہم کردی ہےکیونکہ عوام نے اپنے ووٹ سے شندے کو حقیقی شیوسینا کا قائد ثابت کردیا ۔
اجیت پوار نے اس انتخاب میں سب سے بڑا چمتکار کیا ۔ پارلیمانی انتخاب کے اندر محض ایک نشست پر اکتفاء کرکے 4؍ مقامات پر برتری ثابت کرنے والی این سی پی ( اجیت پوار) کا اپنی تعداد میں ایک کا اضافہ کرکے41 ؍ نشستیں جیت جانا بہت بڑا کمال ہے۔ 2014 میں شرد پوار کی قیادت کے باوجود وہ 21؍ نشستیں گنوا کر 41 ؍ پر پہنچی تھی۔ یہ بات کسی کے تصور خیال میں نہیں تھی کہ 80؍ فیصد کے اسٹرائیک ریٹ سے 8؍ پارلیمانی نشستیں جیتنے والی شرد پوار کی این سی پی تین سیٹیں گنوا کر 10؍اسمبلی حلقوں میں سمٹ جائے گی ۔ یہ شرد پوار کا آخری الیکشن تھا ۔ اس کے بعد وہ اپنی ضعیف العمری کے سبب انتخابی مہم میں سرگرمی نہیں دِکھا سکیں گے۔ ملک کی سیاست میں بھیشما پتامہ کہلانے والے سیاستداں کی وداعی اس قدر عبرتناک ہوگی یہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا لیکن قسمت کے لکھے کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔
مہا یوتی کے لیے اس انتخاب میں تین ’سی‘ نے بڑا کام کیا ۔ یہ تین سی ہیں ’کیش، کاسٹ اور کمیونلزم‘۔ مہایوتی سرکار نے کیش کا دوہرا استعمال کیا ۔ پہلے تو خزانے سے لاڈلی بہن یوجنا کے نام پر 1500 روپیوں کی ماہانہ تقسیم شروع کی ۔ مہاوکاس اگھاڑی نے 2000 دینے کے اشارے کیے تو شندے سرکار نے کامیابی کے بعد 2100 ؍ روپیہ ماہانہ دینے کا وعدہ کیا ۔ یہ دیکھ کر مہاوکاس اگھاڑی نے 3000 کا اعلان کیا مگر لوگوں نے سوچا یہ لوگ تو دے رہے ہیں پتہ نہیں آگے والے اپنا وعدہ وفا کریں یا نہ کریں اس لیے انہوں نے احسانمندی دکھاتے ہوے مہایوتی کے امیدواروں کو کامیاب کردیا ۔ اس سےپتہ چلتا ہے کہ بی جے پی انتخاب سے قبل اقتدار میں آنے کی کوشش کیوں کرتی ہے؟ اس طرح سرکاری خزانے سے رشوت دے کر ووٹ لینے کے لیے یہ لازم ہے۔ اس کو برائی نہیں سمجھا جاتا کیونکہ ہر سیاسی جماعت اسے جائز سمجھ کر اس کا وعدہ کرتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی رشوت میں جمع کی جانے والی دولت خوب لٹائی گئی اور ایسا کرتے ہوئے بی جے پی رہنما ونود تاوڑے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے مگرنہ تو سرکار نے اپنے آدمی پر کارروائی کی اور نہ عوام نے اس کا برا مانا بلکہ جن کونہیں ملا انہیں اپنی محرومی کا افسوس تھا ۔
کیش کے علاوہ دوسرا کارڈ کاسٹ یعنی ذات پات کا تھا ۔ یہ بی جے پی کا پرانا حربہ ہے کہ طاقتور ذات سے باقی لوگوں کو ڈرا کر اپنے ساتھ کرلو۔ اترپردیش اور بہار میں یادو سماج کے خلاف پسماندہ طبقات کو ساتھ لیا جاتا ہے۔ ہریانہ میں جاٹوں سے ڈرایا گیا ۔ مہاراشٹر کے اندر مراٹھوں سے خوفزدہ کرکے دیگر پسماندہ طبقات کو اپنے نرغے میں لیا گیا۔ اس کے لیے جرانگے پاٹل کا بڑی سے خوبی سے استعمال کیا گیا۔ انہوں نے پسماندہ طبقات کے کوٹے میں حصے داری پر اصرار کیا جس سے دیگر پسماندہ طبقات خوفزدہ ہوکر مہا یوتی کے ساتھ آگئے ۔ مراٹھوں کو ساتھ لینے کے لیے اجیت پوار استعمال ہوئے اس طرح ’پاسباں بھی خوش رہا راضی رہا صیاد بھی‘۔ تیسرا ’سی‘ کمیونلزم یعنی فرقہ پرستی تھا ۔ اس کے لیے کٹیں گے تو بٹیں گے سے لے کر ایک رہیں گے تو سیف رہیں گے جیسے نعرے لگائے گئے نیز علماء کے بیانات کو بخوبی استعمال کیا گیا۔ ویسے حزب اختلاف کے پاس بھی ایک بڑا ’سی‘ یعنی کراپ پرائز تھا۔ فی الحال کسان اپنی فصلوں کی صحیح قیمت کے لیے پریشان ہیں ۔ مہا وکاس اگھاڑی اگر اس کا بہتر استعمال کرتی تو بڑی کامیابی درج کروا سکتی تھی مگر وہ اس میں ناکام رہی اور بری طرح الیکشن ہار گئی۔ اپنی ساری برائیوں کے باوجود بی جے پی ( جمہوری سیاست میں جائز و مستحب حربوں کو مہارت سے استعمال کرکے) اقتدار پر پھر سے فائز ہونے کے لیے کامیابی کی مستحق ہے۔
Like this:
Like Loading...