Skip to content
خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر بری نگاہ
ازقلم: شیخ سلیم
بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہندوستان میں مذہبی مقامات کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ عمل ایک فتنہ بن چکا ہے جو نہ صرف سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ ملک کے آئینی اقدار کو بھی چیلنج کر رہا ہے۔ تازہ ترین مثال خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ کی ہے، جس پر فتنہ پردازوں کی بری نگاہیں جمی ہوئی ہیں۔
خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ صدیوں سے ہندو مسلم اتحاد کی علامت رہی ہے۔ یہاں لاکھوں لوگ، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، اپنی مرادیں لے کر آتے ہیں اور اس درگاہ کی روحانی برکتوں سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ مگر موجودہ سیاسی ماحول میں اس مقدس مقام کو بھی تنازع کا شکار بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ صورتحال اس وقت زیادہ تشویشناک ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ 1991 کا مذہبی مقامات کا قانون، جو 1947 کی صورتحال کو برقرار رکھنے کا پابند کرتا ہے، کھلے عام نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ سروے مافیا نے ایک نیا ہتھیار ایجاد کر لیا ہے۔ کسی بھی تاریخی مسجد یا درگاہ کے بارے میں جھوٹے دعوے کیے جاتے ہیں، اور عدالتوں سے سروے کی اجازت مانگی جاتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ عدالتیں عموماً بغیر کسی معقول بنیاد کے ان درخواستوں کو قبول کر لیتی ہیں۔
جب مسلمان اس ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں تو ان پر ظلم و ستم کیا جاتا ہے۔ پرامن احتجاج کو دبانے کے لیے گولیوں کا استعمال کیا جاتا ہے، اور بے گناہ لوگوں کو گرفتار کر کے سالوں تک مقدموں میں الجھایا جاتا ہے۔ ان سب کے باوجود، اکثریتی طبقے کی طرف سے کوئی سنجیدہ ردعمل سامنے نہیں آتا، اور نہ ہی حکومت انصاف فراہم کرنے کے لیے کوئی اقدامات کرتی ہے۔
بھاجپا ان تنازعات کو اپنے سیاسی فائدے کے لئے استعمال کرتی ہے۔ ہر انتخابات سے پہلے مذہبی مسائل کو ہوا دی جاتی ہے تاکہ عوام کی توجہ مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم، اور صحت جیسے حقیقی مسائل سے ہٹائی جا سکے۔ اس ماحول میں اقلیتوں کو حاشیے پر ڈال کر اکثریتی ووٹ بینک کو مستحکم کیا جاتا ہے۔
خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ پر بری نگاہ ڈالنے والے صرف ایک مقام کو نشانہ نہیں بنا رہے، بلکہ ہندوستان کی سیکولر روح پر حملہ کر رہے ہیں۔صدیوں پرانے بھائی چارے کے ماحول کو خراب کر رہے ہیں ۔اس درگاہ کو تنازع میں گھسیٹنے کی کوشش صدیوں پرانی ہم آہنگی کو ختم کرنے کی سازش ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ انصاف کیا جائے، اور مذہبی مقامات کے تحفظ کے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔ اگر اس فتنے کو ابھی نہ روکا گیا، تو یہ نہ صرف ہندوستان کی تاریخی وراثت کو تباہ کرے گا بلکہ ملک کے مستقبل کو بھی تاریک بنا دے گا۔سپریم کورٹ کو اجمیر شریف کے معاملے میں فوری اور سخت قدم اٹھا کر درگاہ کو مندر ثابت کرنے والی درخواستوں کو فوری طور پر خارج کر دینا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کو بھی اس سنگین مسلہ فوری نوٹس لینا چاہیے ورنہ فرقہ پرست عناصر ماحول خراب کر سکتے ہیں ۔
Like this:
Like Loading...