Skip to content
بابری مسجد کی شہادت تاریخ ہند کا سیاہ باب
ازقلم:مفتی عبدالمنعم فاروقی
9849270160
امام الانبیاء ،سید المرسلین ،خاتم النبین جناب محمد الرسول اللہؐ کا ارشاد گرامی ہے :’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک (انسانی ) آبادیوں کا پسندیدہ حصہ ان کی مسجدیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ( انسانی ) آبادیوں کا سب سے ناپسندیدہ حصہ ان کے بازار ہیں‘‘ (مسلم: ۱۵۲۸)،مسجدیں وہ مقامات ہیں جہاں اللہ کے بندے اپنے اللہ کی توحید بیان کرتے ہیں ،شرک سے برأت کا اظہار کرتے ہیں،اپنے اکلوتے رب کو یاد کرتے ہیں ،اس کی عبادت کرتے ہیں ، اس کی بڑائی وکبریائی بیان کرتے ہیں،اس کی تسبیح وتحمید کرتے ہیں،اس کے سامنے باداب کھڑے ہوتے ہیں ،اس کے سامنے جھکتے ہیں، اس کے سامنے اپنی جبین ٹیکتے ہیں اور اسی کو پکارتے ہیں اور اسی سے فریاد کرتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ جگہیں سب سے زیادہ پسند ہیں اور ہر آن ان مقامات پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے ،اس کے برخلاف بازار جہاں عموما غفلتوں کا ماحول ہوتا ہے ،لوگ لین دین میں مصروف ہونے کی وجہ سے عبادتوں اور ذکر الٰہی سے غافل رہتے ہیں ،بعض لوگ خرید وفروخت میں جھوٹ بول کر اپنی زبان کو گناہ سے آلودہ کرتے ہیں ،شیاطین کاان پر غلبہ ہوتا ہے اور وہ اپنے مقاصد میں کامیابی کے لئے لوگوں کو گناہوں میں ملوث کرتے رہتے ہیں جسکی وجہ سے وہ علاقہ رحمت الٰہی سے دور اور گناہوں کی نحوست سے بے نور ہوجاتے ہیں ۔
مسجدیں اسلامی شعار ہیں:مسلمان اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اسلام میں مسجدوں کو بڑی اہمیت ،فضیلت اور فوقیت حاصل ہے بلکہ مسجدوں کو شعائر اسلام کا درجہ حاصل ہے،اہل علم فرتے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ انسانوں میں سے جسے چاہے عزت وعظمت سے نوازتا ہے اسی طرح زمین کے جس حصہ کو پسند کرتا ہے اپنے گھر کی تعمیر کے لئے اسے منتخب کردیتا ہے،رسول اللہؐ کا ارشاد ہے :’’ جس طرح تم (زمین والے) آسمان کے ستاروں کو چمکتا ودمکتا دیکھتے ہو ،(اسی طرح )آسمان والے زمین پر قائم مسجدوں کو روشناور منور دیکھتے ہیں ‘‘( طبرانی) یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے گھروں کی تعمیر کا کام اپنے برگزیدہ بندے انبیاء ؑ سے لیا ہے اور ان لوگوں سے لیا ہے اور لیتا رہے گا جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔
مسجدوں کی تاریخ : تاریخی لحاظ سے اگر ہم مسجدوں پر نظر ڈالتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ کا ئنات میں سب سے قدیم گھر مسجدیں ہی ہیں جسے اللہ کے محبوب بندوں نے اللہ کے حکم سے اللہ کی عبادت کے لئے تعمیر کیا تھا،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: بے شک وہ پہلا گھر جسے لوگوں کے عبادت کرنے کے لئے بنایا گیا وہ بکہ یعنی مکہ مکرمہ میں ہے ،مبارک ہے اور دونوں جہانوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے‘‘،(اٰل عمران۔) حضرت ابوذر غفاریؓ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہؐ سے پوچھا گیا کہ کون سی مسجد سب سے پہلے بنائی گئی ؟ آپؐ نے فرمایا: مسجد حرام،پوچھا گیا پھر؟ فرمایا مسجد اقصیٰ‘‘(ابن ماجہ: ۷۵۳) ،اس وقت دنیا کے کونے کونے میں جہاں کہیں بھی چھوٹی بڑی ،معمولی اور عالیشان مسجدیں ہیں دراصل یہ سب کی سب مسجد حرام کی شاخیں ہیں ۔
مسجدیں اسلامی مراکز ہیں:مسجدوں کو اسلامی مراکز ہونے کاشرف حاصل ہے ،مسلمانوں کی نظر میں انہیں مرکزی حیثیت حاصل ہے،مسلمان اپنی مسجدوں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور ان میں حاضری کو اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں اور ان سے دوری کو بڑی محرومی سمجھتے ہیں،اگر کوئی بدبخت مسلمانوں کی مسجدوں کی طرف صرف بُری نگاہ ڈالتا ہے تو مسلمان اسے بھی ہرگز برداشت نہیں کرتے ہیں، بالفرض اگر کوئی مسجدوں کی مرکزیت کو ختم کرنا چاہے تو مسلمان ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے اسے نکام بنانے کی کوشش کرتے ہیں اگرچہ اس کے لئے ان کی جان ہی چلی جائے ۔
مسجدوں کی حفاظت ایمان کی علامت :یقینا اسلام میںمسجدوں کی بڑی اہمیت ہے ،مسلمانوں کو ان سے وابستہ رہنے کا حکم دیا گیا ہے ،ہر بستی اور ہر محلہ میں مسجدوں کی تعمیر کا حکم دیا گیا ہے بلکہ مسجدوں کی تعمیر توسیع اور انہیں آباد رکھنے والوں کے لئے مومن ہونے کی بشارت دی ہے ،قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:بے شک اللہ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے (توبہ: ۱۸)۔
مسجدیں مساوات کی درسگاہیں ہیں: مسجدیں جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت وبندگی کی جگہیں ہیں اور توحید کے پرچم لہرانے کے مقامات ہیں وہیں مساوات کی درسگاہیں بھی ہیں ،دنیا کے سب انسان ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں جن میں امیر وغریب ،عالم وجاہل ،آقا وغلام اور بادشاہ ورعایا کا کوئی فرق باقی نہیں رہتا ہے بلکہ مسجد میں آنے کے بعد سارے فرق اور منصب اس طرح مٹ جاتے ہیں جس طرح چھوٹی بڑی لکیروں پر ربڑ پھیرنے سے ساری لکیریں مٹ جاتی ہیں ،دنیا بہت سے لوگ صرف اور صرف مسجدوں میں مسلمانوں کی صف بندی کو دیکھ کر اسلام کی حقایت کے قائل ہوکر داخل اسلام ہو گئے ہیں ۔
مسجدوں کی تعمیر میں حد درجہ احتیا ط:مسجدیں اللہ تعالیٰ کا گھر اور اس کی عبادت وبندگی کی جگہیں ہیں اس لئے ان کی تعمیر وتوسیع میں حد درجہ احتیاط کا حکم دیا گیا ہے ،اہل علم فرماتے ہیں کہ مسجدیں اللہ تعالیٰ کا گھر اور مسلمانوں کی عبادت گاہیں ہیں ان کی تعمیر کے لئے حلال وطیب ہی پیسہ لگانا چاہئے جو پیسہ حلال وطیب نہ ہو اسے مسجدوں کے لئے زمین کی خریدای اور ان کی تعمیر کے لئے لگانا جائز نہیں ہے حتی کہ مال زکوۃ کا استعمال بھی مسجدوں کی تعمیر وتوسیع میں لگانا جائز نہیں ہے کیونکہ زکوۃ مال کا میل ہے جو اللہ کے گھر کے لئے مناسب نہیں ہے، اسی وجہ سے ہر دور میں مسجدوں میں تعمیر میں شروع سے لے کر آخر تک بہت احتیاط سے کام لیا گیا ،تاریخ میں کوئی ایک واقعہ بھی ثبوت کے ساتھ نہیں ملتا کہ کسی علاقہ میں شریعت کے اصول وضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کسی مسجد کی تعمیر کی گئی ہو ،کسی کی زمین زبردستی مسجد کے لئے حاصل کی گئی ہو یا کسی سے جبرا رقم وصول کرکے ان پیسوں سے مسجد تعمیر کی گئی ہو یا کسی بادشاہ نے مفتوحہ علاقہ میں کسی مذہب کی مذہبی عبادت گاہ مسمار کرکے وہاں مسجد تعمیر کی ہو،اگر کوئی اس طرح کی باتیں کرتا ہے تو وہ تاریخ سے ناواقف یا تاریخ کا دشمن یا پھر تعصبیت کا حامل شخص ہی ہو سکتا ہے،ہمارے ملک ہندوستان میں جن مسجدوں کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ اس مقام پر پہلے کسی دوسرے مذ ہب والوں کی مذہبی عبادت گاہ تھی یہ جھوٹ اور صریح جھوٹ ہے ۔
بابری مسجد کی شہادت : یقینا بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ ہندوستانی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے جسے تاریخ کبھی بھلا نہیں سکتی ، ۶؍ڈسمبر ۱۹۹۲ء کو کٹر ہندو تنظیموں کی ہزاروں کارکنوں نے حکومت وقت کی پشت پناہی ، نیم فوجی دستوں کی موجود گی میں ہندوستان کی عظیم وقدیم تاریخی مسجد جسے عظیم مغل بادشاہ ظہیر االدین محمد بابر نے تعمیر کیا تھا اسے شہید کردیا ،بابری مسجد کی شہادت ہندوستانی تاریخ کا سیاہ باب اور ایسا بد نما داغ ہے جسے صدیوں مٹایا نہیں جا سکتا،بابری مسجد کی شہادت صرف ایک مسجد کی شہادت تک محدود نہیں ہے بلکہ ہندوستانی سیکولر کردار ،مذہبی رواداری صدیوں قدیم ہم آہنگی اور آپسی پیار ومحبت کا گھناؤنا قتل ہے،بابری مسجد کی المناک شہادت کو ہندوستان اور عالم اسلام کے مسلمان ہی نہیں بلکہ سیکولر مزاج اورسنجیدہ قسم کی ذہنیت رکھنے والے برادران وطن اور پوری دنیا میں بسنے والے انصاف پسند لوگ بھی اس کربناک غم کو صدیوں تک بھلا نہیں پائیں گے۔
مسجد کی شہادت ظلم کی داستان: بابری مسجد کی شہادت صرف ایک مسجد کی شہادت نہیں ہے بلکہ حقیقت میں ظلم وستم کی ایک دستان ہے ،بابری مسجد شہید ہوتی رہی اور ملک کا مسلمان بے بسی کے ساتھ اس دل دہلانے والے منظر کو دیکھتا رہا ، اس وقت اسے پہلی بار یہ احساس ہوا تھا کہ اس کے آبا واجداد نے جس سر زمین کو اپنے خون ِ جگر سے سینچا تھا اور جسے حسن جمال سے آراستہ کیا تھا آج اسی سرزمین پر اسے بے وزن کر دیا گیا ہے اور اسے اجنی بنا کر یکا وتنہا کر دیا گیا ہے ، مسجد کی شہادت کو تو کمزور ،بے بس اور مظلوم مسلمان خاموشی سے چپ چاپ دیکھتے رہے ، اس پر بھی ظالموں اور امن کے قاتلوں کا خون ٹھنڈا نہیں ہوا بلکہ شہادت بابری مسجد کے فورا بعد ملک کے مختلف صوبوں اور ان کے شہروں میں منظم طریقے سے فساد بھڑکا کر مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی ،ان کی املاک تباہ وبرباد کی گئیں اور ان پر ظلم وستم کی انتہا ء کی گئی ،فساد کے ذریعہ مسلمانوں کی دکانیں لوٹی اور جلائی گئیں ،بہت سے گھروں کو مسمار کیا گیا اور مظلوموں کی جانیں لے لی گئیں جس کے نتیجہ میں زائد تین ہزار افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔
بابری مسجد کی شہادت کا غم: دھرے دھرے فسادات کی آگ بجھنے لگی تو حالات معمول پر آنے لگے ،ڈرے ہوئے ، سہمے ہوئے اور لٹے ہوئے مظلوم مسلمانوں نے اپنے سینے میں شہادت بابری مسجد کے غم کو لے کر پھر سے نئی زندگی کی شروعات کرنے لگے ، بابری مسجد کی شہادت دراصل مسلمانوں کا دوہرا نقصان تھا ،ایک طرف اس عظیم اور تاریخی حیثیت کی حامل عبادت گاہ شہید کی گئی تو دوسری طرف اس سانحہ کے بعد فساد بھڑکنے کے نتیجہ میں سینکڑوں کی تعداد میں مسلمانوں نے اپنی جانیں گنوائی اور اسی پر بس نہیں کروڑوں روپئے کا مالی نقصان ہوا اور اسی پر بس نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں بے قصور مسلم نوجوانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالدیا گیا جن کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے بابری مسجد کی شہادت پر اپنا احتجاج درج کرنے کے لئے اپنے گھروں سے باہر نکلے تھے ۔
انگریز کی ابلیسی چال :بابری مسجد ہندوستان کی وہ تاریخی مسجدوں میں سے ایک تھی جسے مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے حکم سے دربار بابری سے منسلک ایک نامور شخص میر باقی نے اپنے زیر نگرانی ۱۵۲۷ء میں اتر پردیش کے مقام ایودھیا میں تعمیر کیا تھا ،یہ مسجد اسلامی مغل فن تعمیر کے اعتبار سے ایک شاہکار تھی، بابری مسجد کی تعمیر سے پہلے وہاں کوئی مندر نہیں تھا یہ بات بھی تاریخی کتب اور مستند حوالوں سے ثابت ہے ،کچھ فاصلے پر چند بیراگی ایک کورٹ پر رہا کرتے تھے جسے رام کورٹ کہتے تھے ،اکبر نے اپنے زمانے میں ہندؤں کو چبوترہ بناکر پوجا پاٹ کی اجازت دی تھی،انگریزوں کے زمانے میں سازش شروع ہوئی ،ہندو مسلم اتحاد کو متاثر کرنے کے لئے ایچ او نوئل نامی انگریزی آفسر نے ڈسٹرکٹ گزٹ کو مرتب کرتے ہوئے یہ غلط ریمارک لکھا کہ بابری مسجد ایک منہدمہ مقام پر بنائی گئی ہے ،انگریز لڑاؤ اور حکومت کرو پالیسی پر عمل کرتے رہے ،انہوں نے بابری مسجد کے ذریعہ جو بیج پویا تھا دھیرے دھیرے وہ تناور درخت میں تبدیل ہو گیا ۱۸۸۵ ء میں بیراگیوں کے مہنت رگھبیر داس نے سکریٹری آف اسٹیٹ فارانڈین کونسل میں بابری مسجد کے متولی محمد اصغر کے خلاف مقدمہ دائر کیا کہ مسجد بیرونی احاطہ میں واقع چبوترہ رام جنم بھومی ہے ،اس کے بعد ۱۸۸۵ء سے ۱۹۴۷ء تک بابری تنازعہ پر مقدمہ بازی ہوتی رہی ،ملک تقسیم ہوا ،اس کے بعد فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کے خلاف متحد ہو گئیں اور چوری چپھے ۲۲؍ڈسمبر ۱۹۴۹ء کی رات بابری مسجد میں مورتیاں رکھ دی گئیں ،جس کے بعد نقص امن کے نام پر مسجد پر تالا لگا دیا گیا ،۱۶؍جنوری ۱۹۵۰ء کو ہندوؤں کی جانب سے ایک دعویٰ کیا گیا کہ بابری مسجد دراصل رام جنم بھومی ہے ،۱۹۸۴ء میں وشوا ہندو پریشد کی جانب سے رام کی جائے پیدائش کو آزاد کروانے کے لئے تحریک کا اعلان کیا اور بی جے پی کے رہنما لعل کرشن اڈوانی نے اس تحریک کی قیادت سنبھالی ،۱۹۸۶ء میں ضلعی عدالت کی جانب سے ہندوؤں کو متنازع مقام پر پوجا کی اجازت دے دی گئی اور ۱۹۸۹ء کو وشوا ہندو پریشد نے مسجد سے ملحقہ زمین پر رام مندر کی بنیاد رکھی ،پھر ۱۹۹۰ء میں انہی لوگوں نے مسجد کو جزوی نقصان پہنچایا پھر ۶؍ڈسمبر ۱۹۹۲ء منظم طریقہ پر وشوا ہندو پریشد اور دیگر ہندو کٹر تنظیموں نے مل کر حکومت کی سر پرستی اور نیم فوجی دستوں کے سامنے مسجد کو شہید کر ڈالا ۔
عدالت عظمی کا بے عدل فیصلہ :بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں مقدمہ چلتا رہا ،تقریبا اٹھائیس سال بعد تمام شواہد بابری مسجد کے حق میں ہونے کے باوجود محض آستھا بنیاد پر ۹ ؍ نومبر ۲۰۱۹ء کو عدالت عظمی نے اپنا حتمی فیصلہ سناتے ہوئے اسے ہند توا کے حق میں دے دیا۔
ہندو توا کے حوصلہ بلند: تمام تر شواہد کے باوجود جب عدالت عظمی نے آستھا کی بنیاد پر بابری مسجد کا فیصلہ سنایا تو اسے سن کر ہندوستانی مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر سنجیدہ شخص گم سم ہو کر رہ گیا اور اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ ملک کی اتنی بڑی عدالت اور انصاف کا ترازو بھی بے انصافی کرتے ہوئے اعتماد کا خون کر دیگا ، غرض اس غیر یقینی اور یک طرفہ فیصلے نے ہندوتوا کے حوصلے مزید بلند کردئے گویا اس فیصلہ سے انہیں ایک نئی طاقت عطا ہوئی۔
تاریخی مسجدیں خطرہ میں: بابری مسجد کے متعلق فیصلہ اپنے حق میں پاکر ہندوتوا تنظیموں کے حوصلے کافی بلند ہیں ،پہلے تو انہوں نے حکومت کی راست نگرانی میں شہید کی گئی مسجد کے مقام پر رام مندر تعمیر کی اور پھر سرکاری طور پر بڑے دھوم دھام سے سرکاری عہد داروں کی سرپرستی میں اس کا افتتاح انجام دیا اس کے یکے بعد دیگرے تاریخی مسجدوں پر نچلی عدالتوں میں مقدمہ دائر کرتے جارہے ہیں اور سابق میں وہاں مندر کے ہونے کی بات کر رہے ہیں اور نچلی عدالتیں ان کی درخواستیں قبول کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے جس سے صورت حال مزید تشویش ناک ہوتی جارہی ہے ۔
مسلمانوں کی ذمہ داری : ایسے نازک ترین حالات میں مسلمانوں کی دینی وایمانی اور ملی ذمہ داری ہے کہ وہ متحدہ طور پر حالات کا مقابلہ کریں ، حکومت وقت کو اپنے وجود کا احساس دلائیں ،عوام کو تاریخی حقیقت سے واقف کرائیں ، ملک کے سنجیدہ لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر ظلم کے خلاف منظم، متحد اور قانون کے دائرہ میں رہ کر آوازبلند کریںاور پھر مسجدوں سے اپنے رشتہ کو مضبوط کریں، یاد رکھیں مسجدیںمسلمانوںکے دین وایمان کی حفاظت کے قلعے ہیں ،مسلمانوں کے جان وایمان کی سلامتی ان کی اجتماعیت مسجدوں کے ساتھ وابستگی میں مضمر ہے ، جس طرح بھیڑ یا ایسی بکریوں کو پکڑ لیتا ہے جو ریوڑ سے دور ہوجاتی ہیں،اسی طرح شیطان بھی اہل ایمان کیلئے بھیڑ یے کہ مانند ہے جب بھی مسلمان انتشار کا شکار ہوجاتے ہیں اور مسجدوں سے منہ موڑ لیتے ہیں تو یہ ان پر کسی خو نخوار بھیڑ یے کی طرح حملہ آور ہو جاتا ہے ، رسو ل اللہ ؐ ؐ کا ارشاد ہے کہ: شیطان انسان کا بھیڑ یا ہے بکریوں کے بھیڑ ئے کی طرح وہ ہر ایسی بکری کو پکڑ لیتا ہے جو ریوڑ سے دور ہو،الگ تھلگ ہو،اس لئے گھاٹیوں میں علحدہ ٹہر نے سے بچو ،اجتماعیت کو ،عام لوگوں میں رہنے کو اور مسجد کو لازم پکڑو ( مسنداحمد) ۔لہذا مسجدوں جڑے رہنے اور انہیں آباد کرنے کی فکر کریں اور مسجدوں کے سلسلہ میں اس طرح توجہ دیں جس طرح آدمی اپنے گھر کی حفاظت پر توجہ دیتا ہے ،مسجدوں کے تحفظ کا اہم ترین ذریعہ پنجوقتہ نمازوں میں شریک ہو نا ہے ،مسجدوں میں باجماعت نمازوں کی ادائیگی کے ذریعہ مسجدوں کا تحفظ ممکن ہے ،مسجدوں کے سلسلہ میں عام مسلمانوں کی غفلت قابل مذمت اور انتہائی افسوس ناک ہے ، اللہ تعالیٰ مسلمانان ہند کی قدم قدم پر مدد ونصرت فرمائیں اور ان کے عبادت گاہوں اور تعلیم گاہوں اور تربیت گاہوں کی حفاظت فرمائیں ،آمین ۔
Like this:
Like Loading...