Skip to content
﷽
دینی جماعت کا بحران
اُمت کے لیے لمحۂ فکریہ
✍۔مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)
📱09422724040
یہ خبر واقعی نہایت افسوسناک ہے اور اُمتِ مسلمہ کے لیے گہری تشویش کا باعث ہے۔ تبلیغی جماعت، جو ہمیشہ امن، بھائی چارے، اور دین کی دعوت کا پرچم بردار رہی ہے، اس میں اس قسم کے حالات کا پیدا ہونا نہ صرف اس کے مقاصد کے منافی ہے بلکہ پوری اُمت کے لیے بدنامی اور نقصان کا سبب ہے۔ خانقاہی نظام کا بنیادی مقصد انسان کے باطن کی اصلاح کرنا تھا، تاکہ اس کے دل میں تواضع، حلم، اور اخلاص جیسے اوصاف پیدا ہوں۔ اہل اللّٰہ کی خانقاہوں میں یہی تعلیم دی جاتی تھی کہ اگرچہ تم حق پر ہو، تب بھی جھکنے اور تواضع اختیار کرنے میں عظمت ہے۔ اختلاف کی صورت میں تحمل اور صبر کا مظاہرہ ضروری ہے، اور اپنے نفس کی اصلاح ہمیشہ اوّلین ترجیح رہنی چاہیے۔
آج، جب اُمت مختلف گروہوں میں بٹ چکی ہے اور ہر گروہ اپنی بات کو ہی حق سمجھتا ہے، تو ایسی تعلیمات کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ شیطان کی سب سے بڑی حکمت عملی یہی ہے کہ وہ اہلِ حق کو آپس میں ٹکرا دے تاکہ ان کی اجتماعیت ختم ہو جائے اور ان کا اثر زائل ہو جائے۔ وہ اپنی چالاک منصوبہ بندی اور فتنہ انگیزی کے ذریعے اُمت کو تقسیم کر کے ان کی اصل طاقت، یعنی اتحاد و اتفاق، کو کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
تبلیغی جماعت کا یہ واقعہ مسلمانوں کے اندرونی اختلافات اور عدم برداشت کی ایک افسوسناک مثال ہے۔ تبلیغی جماعت کا مقصد دین کی تبلیغ اور اصلاح ہے، لیکن جب ایسے اداروں میں قیادت یا نظریات کے حوالے سے اختلافات بڑھ جاتے ہیں تو اس کا مقصد متاثر ہوتا ہے۔ اس اختلاف کی شدّت نہ صرف جماعت کے داخلی مسائل کو بڑھاتی ہے بلکہ دین کی دعوت کے پھیلاؤ میں بھی رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ یہ مسئلہ صرف تبلیغی جماعت تک محدود نہیں ہے بلکہ امتِ مسلمہ کے مختلف گروہوں میں پایا جانے والا عمومی مسئلہ ہے، جو ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات کے باوجود اصل مقصد یعنی دین کی خدمت اور اتحاد کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔ اسی لیے یہ وقت ہے کہ امت میں صبر، تحمل اور ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم سب مل کر اسلام کے اصل پیغام کو دنیا تک پہنچا سکیں، اور شیطان کی حکمتِ عملی کو ناکام بنا سکیں۔
تبلیغی جماعت کا یہ واقعہ مسلمانوں کے اندرونی اختلافات اور عدم برداشت کی ایک افسوسناک مثال ہے۔ تبلیغی جماعت کا مقصد دین کی تبلیغ اور اصلاح ہے، لیکن جب ایسے اداروں میں قیادت یا نظریات کے حوالے سے اختلافات بڑھ جاتے ہیں تو اس کا مقصد متاثر ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ صرف تبلیغی جماعت تک محدود نہیں بلکہ اُمتِ مسلمہ کے مختلف گروہوں میں پایا جانے والا عمومی مسئلہ ہے۔
موجودہ تنازع کے پس منظر میں مولانا سعد صاحب اور شوریٰ گروپ کے درمیان اختلافات کئی سالوں سے شدّت اختیار کر چکے ہیں۔ ان اختلافات کا بنیادی محور جماعت کے اندر قیادت، پالیسی، اور اجتماع کی تنظیم جیسے امور ہیں۔ تاہم، ان اختلافات کو اس حد تک لے جانا کہ صورت حال میدان جنگ کا منظر پیش کرے، دین کی روح اور تبلیغی جماعت کے مشن کے سراسر منافی ہے۔ یہ واقعہ ہم سب کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ ہم اپنے اندرونی اختلافات کو کس طرح دور کر سکتے ہیں تاکہ اسلام کا پیغام پوری دنیا میں زیادہ مؤثر اور بہتر انداز میں پہنچایا جا سکے۔
یہ وقت ہے کہ اُمت کے علماء، مشائخ، اور جماعت کے مخلصین آگے بڑھیں اور اس بحران کے حل کے لیے مؤثر اور عملی اقدامات کریں۔ تنازعات کو گفت و شنید اور افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جائے، تاکہ تبلیغی جماعت اپنی اصل روح اور مشن کی طرف لوٹ آئے اور دین کا کام پہلے کی طرح جاری رہ سکے۔ قرآن مجید نے مومنین کے درمیان اختلافات ختم کرنے کے لیے "فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا” کا حکم دیا ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اختلافات ناگزیر ہو سکتے ہیں، لیکن اصلاح اور مصالحت کا راستہ ہمیشہ کھلا رہنا چاہیے۔ یہ ذمّہ داری ان افراد پر عائد ہوتی ہے جو اُمت میں روحانی، علمی، اور اخلاقی رہنمائی کا کردار ادا کرتے ہیں۔
قرآن مجید میں ہمیں ہمیشہ صلح اور بھائی چارے کی دعوت دی گئی ہے، اور یہی ہماری اصل طاقت ہے۔ ہم سب کو چاہیے کہ اختلافات کو نظر انداز کرکے دین کی اصل دعوت پر توجہ مرکوز کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ اخوت اور محبت کے رشتہ کو فروغ دیں۔ آج اُمت کے بڑے علماء، مشائخ، اور قائدین کی ذمّہ داری ہے کہ وہ اپنے مقام کو پہچانیں اور اختلافات کو ختم کرنے میں عملی اور مؤثر کردار ادا کریں۔ یہ کام صرف انفرادی وعظ و نصیحت سے ممکن نہیں ہوگا بلکہ اجتماعی کوششوں اور خلوص نیت کے ساتھ اصلاحی اقدامات کی ضرورت ہے۔ تبلیغی جماعت کے ذمّہ داران کو یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ ان کی اصل ذمّہ داری امت کو جوڑنا اور دین کی دعوت کو پُرامن اور مؤثر انداز میں عام کرنا ہے۔ اس طرح کی خونریز جھڑپیں نہ صرف جماعت کے وقار کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ ان کے کام پر منفی اثر ڈالتی ہیں۔ دین کی تبلیغ کا مقصد پسِ پشت چلا جاتا ہے، اُمت کے اتحاد کو گہرا نقصان پہنچتا ہے، اور غیر مسلموں کے سامنے اسلام کی منفی تصویر پیش ہوتی ہے۔
مختلف گروہوں کے درمیان قیادت اور طریقہ کار پر اختلافات اکثر شدّت اختیار کر لیتے ہیں، جو امت میں تقسیم اور انتشار کا باعث بنتے ہیں۔ عدم برداشت کے رویے نے مسلمانوں کے درمیان مختلف نظریات اور طریقہ کار کو قبول کرنے کی صلاحیت کو کمزور کر دیا ہے۔ جماعتوں میں ذاتی یا گروہی مفادات کے زیرِ اثر اختلافات مزید گہرے ہو رہے ہیں، جب کہ اسلام کے بنیادی اصولوں اور اخلاقی تعلیمات کو سمجھنے اور اپنانے میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر دین کی اصل دعوت و تبلیغ پر توجہ مرکوز کی جائے۔ قیادت کے حوالے سے ایک شفاف اور باہمی رضامندی پر مبنی نظام تشکیل دیا جائے تاکہ جماعتوں میں اتحاد برقرار رہے۔ دین کی صحیح تعلیمات کو عام کیا جائے اور اختلافات کو برداشت کرنے کا شعور پیدا کیا جائے۔ مسائل کو بات چیت اور مصالحت کے ذریعے حل کرنے کی روش اپنائی جائے۔ قرآن و سنّت کی روشنی میں اخوت اور بھائی چارے کو فروغ دیا جائے تاکہ اُمت ایک متحد اور مثالی کردار پیش کر سکے۔
یا اللّٰہ! ہمارے دلوں کو جوڑ دے اور ہمیں حق کو پہچاننے، اس پر عمل کرنے، اور اتحاد و اتفاق کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔ یا رب العالمین! ہمیں ہدایت عطا فرما، ان تنازعات کو ختم کر، اور ہمیں ایک مضبوط اور متحد امت بنا دے۔ اُمتِ مسلمہ کو اتحاد و اتفاق کی نعمت سے نواز اور ہمیں دین کی خدمت کے قابل بنا۔ آمین۔
(19.12.2024)
🍁مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
📧masood.media4040@gmail.com
Like this:
Like Loading...