Skip to content
نئی دہلی ،7فروری (ایجنسیز) جماعت اسلامی ہند کے مرکز، نئی دہلی میں منعقدہ کانفرنس میں صحافیوں کو خطاب کرتے ہوئے نائب امیر جماعت پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ جماعت اسلامی ہند کی ماہانہ پریس کانفرنس میں صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ ہم وقف ترمیمی بل 2024 کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔ اس بل سے مسلمانوں کے مذہبی اور آئینی حقوق کو خطرہ لا حق ہو گیا ہے۔ جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) نے اپوزیشن کے اعتراضات اورشہریوں کی طرف سے درج کرائے گئے لاکھوں اعتراضات کو بھی نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بل متعصبانہ جذبات کے تحت لایا گیا ہے۔ یہ بل متولیوں کے کردار کو تبدیل اور وقف بورڈ کی آزادی کو ختم کرتا ہے۔ خاص طور سے سنٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈوں میں غیر مسلموں کی بڑی تعداد میں شمولیت کی گنجائش پیدا کر دی گئی ہے جو کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔انہوں نے ’وقف بورڈ کے سی ای او‘ کی تقرری کے طریقہ کار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس میں ریاستی حکومتوں کو براہ راست تقرریوں کی اجازت دی جارہی ہے۔ یہ اوقاف پر براہ راست سیاسی مداخلت اور کنٹرول کا باعث بنے گا۔
جماعت اسلامی ہند تمام سیکولر جماعتوں بشمول این ڈی اے اتحادیوں اور دیگر اپوزیشن سے اس بل کی مخالفت کرنے کی اپیل کرتی ہے۔جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری سید تنویر احمد نے الٰہ آباد کے پریاگ راج مہا کمبھ میں ہوئی بھگدڑ کے المناک واقعے پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس میں بہت سے معصوم عقیدت مندوں کی جانیں چلی گئیں۔دکھ کی اس گھڑی میں غمزدہ خاندانوں کے ساتھ ہماری دلی تعزیت ہے۔ ہم ان لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں جنہوں نے اپنے پیاروں کو اس سانحے میں کھو دیا ہے۔ ہم تمام پسماندگان کے لیے صبر اور تحمل کی دعا کرتے ہیں۔
اس پورے واقعے کی ذمہ داری مرکز اور یو پی حکومت کو براہ راست لینی چاہئے اور انتظامات میں پائی جانے والی خامیوں کو فوری طور پر دور کرنا چاہیے۔ افسوس کی بات ہے کہ میڈیا کو ایک بڑے ایونٹ کے انتظام میں موجود خامیوں کا تنقیدی تجزیہ کرنے سے روک دیا جوحکومت اور انتظامیہ کو ان کوتاہیوں کو بروقت دور کرنے، ان کو بہتر بنانے اور کسی بحران سے نمٹنے کے لیے پہلے سے تیار کر سکتا تھا۔ بھگدڑ کے بعد بہت سے شردھالوؤں کو مساجد میں پناہ دی گئی اور انہیں کھانا، کمبل اور دیگر ضروری چیزیں فراہم کرنے کا معقول انتظام کیا گیا۔
یہ کوششیں ایک بار پھر اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ نفرت کے ماحول کے باوجود ملک کے عام شہری بالخصوص مسلمان عوام کی خدمت کے لیے ہمیشہ سنجیدہ رہے ہیں۔ ہمارے لیڈران اور پوری قوم کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی، بھائی چارہ اور یکجہتی کو برقرار رکھنے کے لیے ایسے افراد سے تحریک حاصل کرنی چاہیے۔سلیم انجینئر نے کہا کہ حکومت کو بجٹ 2025-26 کو وسیع تر مفاد میں دیکھنا چاہیے تھا۔ لیکن اس کے برعکس بجٹ میں کل اخراجات میں تقریباً ایک لاکھ کروڑ کی کمی ہوئی ہے۔ اس سے سماجی اور فلاحی اخراجات پر منفی اثر پڑے گا اور غریبوں کی حالت مزید خراب ہوگی۔
ہم نے حکومت سے منریگا میں کی گئی کٹوتیوں کو واپس لینے، شہری روزگاراسکیموں کوعوام میں متعارف کرانے، طبی خدمات کے اخراجات کو جی ڈی پی کے 4 فیصد تک بڑھانے اور جی ڈی پی کا 6 فیصد مختص کرنے کے ساتھ ایک جامع تعلیمی مشن شروع کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس بجٹ میں اقلیتوں اور’ایس سی، ایس ٹی‘ کی ترقی کے لیے واضح طور سے کوئی پالیسی بیان نہیں کی گئی ہے۔ اس کی وجہ سے سماجی انصاف کے بہت سے مسئلے حل نہیں ہو پائیں گے۔
Like this:
Like Loading...