Skip to content
مودی چلے امریکہ اور فرانس
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
وزیر اعظم نریندر مودی پردھان منتری کم اور پرچار منتری زیادہ ہیں۔ انتخاب کے آتے ہی وہ بچے کی مانند مچل جاتے ہیں ۔ پورے تن من دھن سے انتخابی مہم میں مصروف رہنے کے بعد آرام کرنے کے لیے سرکاری خرچ پر غیر ملکی دورے پر نکل جاتے ہیں۔ ابھی حال میں دہلی کا معرکہ سر کرنے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دعوت پر 12-13 فروری کو امریکہ جانے سے اچھا کیا ہوسکتاہے؟ ٹرمپ کے دوسرے دور ِ صدارت میں وزیر اعظم مودی کا یہ پہلا دورہ ہوگا۔ ان کی توبڑی خواہش تھی کہ حلف برداری میں کریں لیکن وہ سپنا ساکار نہیں ہوا۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے بعد انہیں بلا یا تو اسی سے خوشیاں منا رہے ہیں ۔ ٹرمپ کی پہلی میعاد کے دوران، 2017 اور 2019 میں مودی نے امریکہ کا دورہ کیا تھا۔ اپنی پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ’ میں اپنے دوست صدر ٹرمپ سے ملاقات کا منتظر ہوں ۔ ‘‘ راستے میں 11 فروری 2025 کو وہ فرانس میں صدر ایمانوئل میکرون کے ساتھ انڈیا فرانس سی ای او فورم سے خطاب کریں گے۔
مودی کے امریکی دورے کی بابت قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے۔ کوئی تو کہتا ہے کہ یہ تارکین وطن کی حالتِ زار کو سدھارنے کے لیے ہے لیکن یہ بھی کہاجا رہاہے کہ مودی جی اپنے دوست اڈانی کے خلاف وارنٹ کو ہٹانے کے لیےجار ہے ہیں۔ ان کی خواہش ہوگی کہ اجیت ڈوبھال اور امیت شاہ کے خلاف سمنّ بھی رد ہوجائے ۔ اس میں انہیں کتنی کامیابی ملے گی یہ تو وقت بتائے گا۔ مودی جی نےخود امید ظاہر کی ہے کہ :’’ ہم اپنے دونوں ممالک کے عوام کے باہمی فائدے کے لیے مل کر کام کریں گے اور دنیا کے بہتر مستقبل کی تشکیل کریں گے‘‘ ۔ امریکہ کو ہندوستانیوں کے فائدے کا کتنا پاس و لحاظ ہے وہ تو تارکین وطن کے ساتھ وحشیانہ سلوک سے سامنے آگیا ۔ اس نے تو خیر جو کیا سوکیا لیکن مودی کی زبان سے ہمدردی کا ایک حرف نہیں پھوٹا اور وزیر خارجہ جئے شنکر نے تو بے غیرتی کے سا تھ اس توہین آمیز زیادتی کا جواز پیش کردیا ۔
وزیر اعظم نریندر مودی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ میں کمال کی مشابہت ہے۔ ایک ہندوستان کو وشو گرو بنانا چاہتا ہےاور دوسرا امریکہ کو پھر ایک بار عظیم بنانے کے عزم کا اعلان کرتا ہے لیکن بیک وقت یہ دونوں ممکن نہیں ہیں ۔ فی الحال ڈالر کے مقابلے ہندوستانی روپیہ کی قیمت تقریباً 88 روپئے ہے اور وہ دن دور نہیں جب و ہ سنچری پوری کردے ۔ماہرین کے مطابق ایسے میں ہندوستانی تجارت مشکلات کا شکار ہوجائےگی۔ پچھلے دس سالہ مودی اقتدار میں 2015 سے 2025 کے درمیان امریکہ وہند کی باہمی تجارت 21 ارب 60 کروڑ ڈالر سے بڑھ کر 33 ارب ڈالر تک پہنچا ۔ اس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ امریکہ کے ساتھ ہندوستان کی تجارت سرپلس یعنی منافع میں ہے ، چین کی طرح خسارے میں نہیں یعنیٰ امریکہ کو برآمد زیادہ کرتا ہے اور وہاں سے درآمد کم کرتا ہے ۔
ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ اگر واقعی امریکی صنعت و حرت کو فروغ دینے لگ جائے تو ہندوستان کی برآمدات اور سافٹ ویئر درآمدات متاثر ہوں گی ۔ معروف سافٹ وئیرکمپنی انفوسس نے ابھی سے چھٹائی شروع کردی ہے۔امریکہ اگر ویزا دینے میں سختی کرے تو وہاں سے آنے والا زرمبادلہ کمی آئے گی۔ امریکہ سے مینوفیکچرنگ، سروسز کے سیکٹر اور شیئر مارکیٹ میں براہ راست سرمایہ کاری سےپریشان حال صنعتیں مشکل میں پھنس جائیں گی اور بے روزگاری کے اندر بے شمار اضافہ ہوسکتا ہے ۔ ویسے بھی بیروزگاری بامِ عروج پر ہے۔ اس لیے اگلے دوچار سال ہندوستان کے لیے آزمائش کے ہیں ۔ حکومتِ ہند نے برکس کی کرنسی کو مسترد کرنے کے بعد امریکی درآمدات پر ٹیکس گھٹاکر خوب ناز برداری کی تاکہ اس طرف ٹیرف میں اضافے سے بچا جا سکے لیکن کچھ لوگوں کی رائے یہ بھی ہے کہ ٹرمپ اپنےآگے جھکے تو وہ لات مارسکتے ہیں اور ہماری حکومت کا یہ حال ہے کہ جب امریکہ جھکنے کے لیے کہتا ہے تو وہ سجدہ ریز ہوجاتی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ اقتدار کی غیر یقینی صورتحال ہندوستانی معیشت پر بری طرح اثر انداز ہورہی ہے۔
اس کی ایک مثال سونے کی قیمتوں میں مسلسل آٹھویں دن اضافہ درج کیا جانا ہے۔ ڈالر کے مقابلے ہندوستانی روپیہ کی قدر جیسے جیسے گر تی جارہی ہے اسی رفتار سے سونے کی قیمت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور پہلی بار 83,000 روپے فی 10 گرام سے تجاوز کرچکا ہے۔ آل انڈیا صرافہ ایسوسی ایشن کے مطابق، 99.9 فیصد خالصیت کا سونا جمعہ(۲۴؍جنوری) کو 83,100 روپے فی 10 گرام کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ ایک دن قبل یہ قیمت 82,900 روپئے تھی۔ عالمی سطح پر بھی سونے کی قیمتیں تین ماہ کی بلند ترین سطح 2780 ڈالر فی اونس تک پہنچ گئیں جو مسلسل چوتھے ہفتے اضافہ تھا یعنی ٹرمپ کی کامیابی سے اسے بہ آسانی جوڑا جاسکتا ہے۔ ماہرین اقتصادیات میں سے کچھ تو عالمی سطح پر سونے کی طلب میں اضافہ کو مثبت معاشی اشارہ مانتے ہیں لیکن ایسے بھی ہیں جو اسے صدر ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں میں غیر یقینی کے سبب شیئر بازار کے بجائے سونے کو محفوظ سرمایہ کاری کی علامت سمجھتے ہیں۔
اس عالمی معاشی زلزلےکے جھٹکے چین سے جاپان اور برطانیہ و جرمنی سمیت ہر ملک میں محسوس کیے گئے۔ ہندوستان میں اس کی اور بھی کئی وجوہات ہیں مثلاً تیسری سہ ماہی میں جاری ہونے والے کمپنیوں کے نتائج سرمایہ کاروں کیلئے اطمینان بخش نہیں تھے ۔ پہلی اور دوسری سہ ماہی کے کمزور نتائج کے بعد لگاتار تیسری سہ ماہی کے نتائج بھی مایوس کن ہوں تو ا س کا بازار پر منفی اثر لازم ہے ۔ کارپوریٹ کی آمدنی میں کمزور ی سے معاشی سرگرمیوں میں نرمی بھی فطری ہے۔ امریکی ڈالر میں مضبوطی اور بانڈ یِیلڈ بڑھنے کے سبب ایف پی آئی (غیرملکی سرمایہ کار) ہندوستانی بازار میں مسلسل فروخت کررہے ہیں، جنوری میں 20؍ تاریخ تک ایف پی آئی 51؍ ہزار کروڑ روپے کے اِکویٹی فروخت کرچکے تھے ۔اس نے بھی بازار کو بری طرح متاثر کیا۔ان سارے عوامل کا مجموعی اثر سے ہندوستانی اسٹاک مارکیٹ کی چمک دمک ماند پڑ گئی ۔
بی این پی پریباس سیکوریٹیز ایک معروف معاشی ادارہ ہے۔ اس نے توقع ظاہر کی ہے کہ 2025ء ہندوستانی ایکویٹی مارکیٹ کے لیے ایک ٹھنڈا سال ہوگا۔ بی این پی کی پیشنگوئی کے مطابق اگلے ایک سال میں ہندوستانی مارکیٹ کا منافع ایک ہندسےتک محدود رہے گا بلکہ بازار بھاو نیچے آنے کے آثار ہیں ۔بی این پی پریباس سیکوریٹیز کے تجزیہ کاروں کے مطابق خوراک کی افراط زر، اعلیٰ امریکی بونڈ کی پیداوار، ڈالر کا بڑھتا ہوا انڈیکس اور اشیاء کی قیمتوں میں مضبوطی وغیرہ سال کے بیشتر حصے میں مارکیٹ پر اثر انداز ہوں گے۔اس مؤقر ادارے میں انڈیا ایکویٹی ریسرچ کے سربراہ کنال وورا کی رائے ہے کہ ترقی میں مضبوط بحالی کے بغیر، ابھرتی ہوئے بازاروں میں مہنگی ایکویٹی خریدنے کی طلب کم رہے گی۔انہوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ مضبوط گھریلو خریدو فروخت ہندوستانی ایکویٹی مارکیٹس کو سہارا دے رہی ہے اور فی الحال کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے تاہم 2025ء میں قدر کے کئی گنا منافع کی دوبارہ درجہ بندی کے امکانات کم ہیں یعنی کام تو چلے گا مگر کوئی بڑا کمال نہیں ہوگا۔
بی او ایف اے (بوفا)سیکوریٹیز نامی بروکریج ہاؤس کی تحقیق اور سروے کے مطابق 10؍ فیصد فنڈ منیجرز نے12؍ ماہ کے تناظر میں ہندوستانی ایکویٹی کے وزن کو ڈھلان پر پایا ۔ اس کے برعکس بوفا سیکوریٹیز کے سروے میں جاپان کو ایشیائی منڈیوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ مارکیٹ قرار دیا گیا۔ اس سے کل53؍ فیصد شرکاء/فنڈ منیجرس زیادہ پرامید تھے۔ ان کے بعد تائیوان اور جنوبی کوریا کا نمبر آتا ہے۔بی او ایف اے سیکوریٹیز نامی ادارے کے ایک سروے میں ہندوستان کو 3؍ سب سے کم پسندیدہ ایشیائی اسٹاک مارکیٹ میں شامل کیاگیا۔ اس نے اپنی فہرست میں صرف چین (خالص 23؍ فیصد فنڈ منیجرس کے ساتھ) اور تھائی لینڈ (13؍ فیصد) کو ہندوستان سے بدتر بتایا ۔ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس سے قبل ڈاؤس میں جاری کی گئی ایک تحقیق میں یہ جو درجہ بندی جاری کی گئی اس میں ہندوستان ماضی کی بہ نسبت ایک پائیدان نیچے آگیا ۔اس رپورٹ میں مختلف زمروں اور آمدنی والے طبقات کے لوگوں کا حکومتوں ، کاروباری اداروں ، میڈیا اور غیر سرکاری تنظیموں پر بھروسے کا اندازہ لگا کردرجہ بندی کی گئی ۔
وزیر اعظم نریندر مودی کایہ دورہ امریکہ کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط ے گا۔ وزیراعظم اپنے دورے کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔ اس دوران دونوں رہنما دفاعی تعاون کے ساتھ چین کے بڑھتے ہوئے اقتصادی اور فوجی اثرورسوخ پر بات کریں گے۔ہندوستان اور امریکہ مل کرمشرق وسطی یورپ اقتصادی راہداری (IMEC) پر کام کررہے ہیں جو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کا حریف ہے۔ اس وقت چین بہت سے اہم آبی راستوں جیسے آبنائے ملاکا، آبنائے ہرمز اور باب المندب جیسے سمندری راستوں پر تیزی سے اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہےمگر امریکہ اسے ہندوستان کی مدد سے ختم کرنا چاہتا ہے۔اس معاملے میں اگر مودی کو ٹرمپ نے اپنا آلٔہ کار بنالیا تو اس میں ملک کے عوام کا بہت بڑا خسارہ ہوگا کیونکہ امریکہ ایک ڈوبتا جہاز ہے اور اس پر سوار ہوکر مودی جی ہندوستان کو بھی لے ڈوبیں گے۔
Like this:
Like Loading...