Skip to content
شادی ۔ ختنہ اور راشن !!!
ازقلم مدثر احمد
شیموگہ 9986437327
ہمارے معاشرے میں کئی ایسے فلاحی ، تعلیمی اور سماجی ادارے موجود ہیں جو دوسروں کی برابری کرنے میں ناکام ہورہے ہیں ، اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ ان اداروں میں ایسے لوگ براجمان ہوچکے ہیں جو حالات حاضرہ اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں ، بیشتر اداروں میں ایسے لوگ ہیں جنہیں دنیا داری یا دین داری بالکل بھی نہیں ہے ، وہ نہ تو خود سوچ سمجھ کر کچھ بہتر کام کرنے کی جانب رواں ہوتے ہیں نہ ہی دوسروں کے مشوروں کو لے کرکام کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں ، انکے یہاں انانیت اور مفادات کی جڑیں ایسی مضبوط ہوجاتی ہیں کہ وہ اداروں کو اپنا گڑھ بنالیتے ہیں ۔ جبکہ دوسری قوموں کی بات کی جائے تو وہ اپنے ادارے تو بنالیتے ہیں لیکن کام کرتے وقت ماہرین ، دانشوران اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی رائے سے کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کامیاب ہوتے ہیں ۔
عام طورپر مسلمانوں کے یہاں جو ادارے یا تنظیمیں قائم ہوتے ہیں وہ شروعات میں تو بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں کہ ہم یہ کرینگے ، ہم وہ کرینگے لیکن آگے چل کر اپنی پرانی روایتوں پر ہی قائم رہتے ہیں ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ مسلمان اپنے اداروں سے اجتماعی شادیوں کا اہتمام کرتے ہیں ، اجتماعی ختنے کرواتے ہیں ، لوگوں کورمضان اور عید کےموقعوں پر راشن بانٹتے ہیں ، سوال یہ ہے کہ کیا شادی ، ختنہ اور راشن ہی مسلمانوں کے بنیادی مسائل ہیں ؟۔ کیا ان تین مدعوں پر کام کرنے سے مسلمانوں کے مسائل حل ہوجاتےہیں ۔ جس شادی کو اسلام میں آسان قرار دیا ہے کیا وہ طریقہ اجتماعی شادیوں میں استعمال کیا جارہاہے ؟۔ کیا واقعی میں شادی میں کھانا پینا ، جوڑا گھوڑا، رسم و رواج، پھول پتی ، جہیز ، سونا ضروری ہے ؟۔ اگر ضروری نہیں ہے تو قوم کا پیسہ اس پر کیوں خرچ کیاجاتاہے ؟۔ کیا اجتماعی شادیوں کی مثال اللہ کے رسول ﷺ کی سنتوں سے ملتی ہے ؟۔
شریعت میں اسکا کیا جواز ہے ؟۔ اس کا جواب آج تک نہیں ملاہے ۔ ایک قدم آگے بڑھتے ہیں تو اجتماعی ختنوں کی آتی ہے جو بیت المال سے انجام دی جاتی ہے ۔ جو ماں باپ اپنے بچے کی پیدائش کے لئے اسپتال میں 25 سے 30 ہزار روپئے خرچ کرسکتے ہیں ، جو ماں باپ چھلے چھٹی کے لئے ہزاروں روپئے خرچ کرسکتےہیں کیا وہ اپنے پیدا کئے ہوئے بچے کی ختنہ کے لئے 2 یا 3 ہزارروپئے خرچ نہیں کرسکتے؟۔ یہ لوگ ختنہ تو اجتماعی انتظام میں مفت کروالیتے ہیں لیکن بعد میں ختنے کو لے کر جو رسم و رواج انجام دیتے ہیں کیا اسکے لئے انکے پاس پیسے ہوتے ہیں ؟۔ کیا واقعی سنت ابراہیمی کا اہتمام اجتماعی طورپر ضروری ہے ؟۔ اب بات کرتے ہیں راشن کٹس بانٹنے کی ، آج کل یہ فیشن زوروں پر ہے کہ لوگ اپنے مال کا زکوٰۃ اور چندہ راشن کٹس تقسیم کرنے پر صرف کررہے ہیں ،
اکثر یہ راشن کٹس ایسے لوگوں تک بھی پہنچتے ہیں جس کی انہیں ضرورت نہیں ہے ، رمضان کٹس ، عید کٹس کے نام پرلاکھوں روپئے خرچ کئے جارہے ہیں ، نتیجہ یہ کہ اگلے سال بھی یہی لوگ راشن کٹس کی لائن میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں ، نہ وہ راشن کٹس حاصل کرنے سے باز رہتے ہیں نہ دینے والے تھکتےہیں ۔ دراصل مسلمانوں نے اب تک ان مسائل کے حل کی نشاندہی کی ہی نہیں ہے جن پر انہیں کام کرنا ہے ۔ آج معاشرے میں ایسے ہزاروں طلباء ہیں جو واقعی میں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے رہ جاتے ہیں ، یہ طلباء اپنی فیس ، ہاسٹل فیس ، لیاپ ٹاپ اوردیگر اخراجات کو لے کر پریشان ہوتے ہیں مگر ان مسائل پر مسلمان غور نہیں کررہے ہیں ۔
ہر ایک کا یہی کہنا ہوتاہے کہ انہیں فری سیٹ ملی ہے، انہیں فلاں اسکیم سے سہولت ملے گی ،فلاں مالدار ان پر خرچ کریگا ، لیکن اپنے طور پر ان مسائل کا حل کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے ۔ جب معاشرے میں نوجوان نسلوں کو تعلیم اور روزگار سے جوڑا جاتا ہے تو نہ اجتماعی شادیوں کی ضرورت پڑیگی نہ کسی کی ختنہ کرنے کے لئے جلسہ منعقدکرنا پڑیگا اور نہ ہی راشن کٹس تقسیم کرنے کی نوبت آئیگی ۔ جوکام کرنا ہے وہ کریں خوامخواہ قوم کا پیسہ برباد نہ کریں یہی ایک تجویز ہے ۔
Like this:
Like Loading...