Skip to content
تاریخِ فلسطین: میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
نیتن یاہو کی موجودگی میں پیش کردہ ٹرمپ کا مذموم منصوبہ دراصل غزہ میں دونوں کی مشترکہ شکست کا اعتراف ہے۔ ان دونوں نے ساری دنیا کے سامنے بلا واسطہ طور پر یہ تسلیم کرلیا کہ لاکھ تباہی و بربادی کے باوجود نہ تو بزور قوت غزہ پر قبضہ کیا جاسکتا ہے اور نہ وہاں کےجانباز عوام کو نقل مکانی پر مجبور کرنا ممکن ہوا ۔ اس حقیقت کا ادراک اس بدمعاش جوڑی کو پندرہ ماہ کی جنگ میں شکست فاش کے بعد ہوا ۔ اس لیے اب وہ دونوں چور دروازے سے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے سازش بُن رہے ہیں مگر یہاں بھی انہیں پہلے کی طرح ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا ۔ غزہ کی پٹی میں فلسطین اور اسرائیل کے بیچ لڑی جانے والی حالیہ جنگ کا آغاز ۷؍اکتوبر 2023 کے حملے سے ہوا۔ اس بیچ 24 نومبر 2023 کو عارضی جنگ بندی کے تحت کچھ یرغمالیوں کی رہائی اور انسانی امداد کی ترسیل عمل میں آئی مگرپھر سے دوبارہ حملے شروع ہو گئے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان دوسرا جنگ بندی کا معاہدہ 15 جنوری 2025 کو طے پایا اور اس کاپہلا مرحلہ تمام تر اندیشوں کے باوجود ہنوز جاری ہے اور اسے ماضی کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ بقول علامہ اقبال؎
یادِ عہدِ رفتہ میری خاک کو اِکسیر ہے
میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے
ٹرمپ نے اپنی تجویز سےمشرق وسطیٰ میں اپنے سب سے بڑے حلیف مصر کو برگشتہ کردیاہے۔پچھلے دنوں صیہونی میڈيا نے خبر دی کہ اسرائیلی حکومت مصر کے العالی ڈیم پر حملہ کرسکتی ہے اور اس ڈیم کے ٹوٹنے سے آنے والا سیلاب مصر کے الاقصر اور اسوان نامی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور دریائے نیل کے ساحل پر واقع فوجی مراکز اور صنعتی کارخانے تباہ ہوجائیں گے ۔یہ سیلاب کا پانی قاہرہ تک پہنچ کر زندگی مفلوج کردے گااور 17 لاکھ لوگ ہلاک ہوسکتے ہیں۔ اور متنبہ نہ کرنے پر یہ تعداد ایک کروڑ تک جاسکتی ہے۔ اس کے جواب میں مصر کے رکن پارلیمان مصطفی بکری نے کہا ہے کہ اگر اسرائيل نے ایسا کوئی اقدام کیا تو مصری دوسرے دن تل ابیب میں ہوں گے۔ انھوں نے خبردار کیا ہے کہ کوئی مصر کے قریب بھی آیا تو اس کے پیر کاٹ دیئے جائيں گے۔ مصطفیٰ بکری بولے تم مصریوں کو نہیں جانتے ہواور یاد دلایا کہ اپنے فوجیوں کو دیکھو کہ حماس اور فلسطینی مجاہدین نے انہیں کس انجام سے دوچار کیا ہے۔اس سےجہادِ غزہ نے غافل مصری حکومت کو بھی بیدار کردیا ہے۔
مصری وزیر کا لب و لہجہ گواہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے حوالے سے پیش کی گئی تجویز تو ٹائیں ٹائیں فش ہوگئی۔ اس کے خلاف امریکہ کے قریب ترین حلیف مسلم ممالک نے ایسی مہم چلائی کہ ٹرمپ کے ہوش اڑ گئے ۔ مسلم ممالک نے مصر کی سربراہی میں غزہ کی بازآبادکاری کی بابت کہا کہ وہ خود ہی یہ کام انجام دیں گے۔ مصری تجویز پر21؍ فروری کو فلسطینی اتھارٹی سمیت سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات، قطر ، اردن کے علاوہ خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے چھ رکن ممالک غور کریں گے ۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ غزہ کی تعمیر نو پر 53 ارب ڈالر سے زائد لاگت آئے گی جبکہ ابتدائی تین سالوں کے دوران 20 ارب ڈالر سے زائد کی ضرورت ہوگی۔ اس شہر کو دوبارہ آباد کرنے میں 5 سال کا طویل وقت لگے گا۔ اس کے تحت مصر اسرائیلی حملوں سے بچنے کے لیے محفوظ جگہ (بنکر) کی بھی تعمیر کرے گا۔ علاوہ ازیں موبائل گھر اور پناہ گاہیں بھی تعمیر کی جائیں گی۔
تعمیر ات کے ساتھ لوگوں کو روزگار اور ملازمت فراہم کرنے کی سعی میں مسلم ممالک شامل ہوں گے۔ ابتدائی تفصیلات طے ہونے کے بعد مصر ایک بین الاقوامی اجلاس کا انعقاد کرے گا۔ یہ اجلاس کئی دہائیوں میں فلسطینی مسئلے اور وسیع تر عرب دنیا کے لیے ’سب سے زیادہ اثر انگیز‘ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ سب امریکی صدر دونلڈ ٹرمپ نے کے ذریعہ غزہ کے لوگوں کو مصر اور اردن میں آباد کرکے خالی زمین کو امریکہ کے حوالے کر نے تجویز کے جواب میں کیا جارہا ہے۔ ٹرمپ نے غزہ کو ایک سیاحتی مقام بنا کرسیر و تفریح فراہم کرنے کا خواب دیکھا تھا جسے فسلطین نے احمقانہ قرار دے کر مسترد کیا مگر عقل سے پیدل اسرائیل نے اس کا استقبال کردیا ۔ اسرائیل نے آگے بڑھ غزہ کے لوگوں کو دوسرے ملک میں ہجرت کرنے کی خاطر امدادی فنڈکی بھی پیشکش کردی مگر ان خوابوں نے اسرائیل اور امریکہ کی ذلت میں بے شمار اضافہ ہی کیا ۔ وہ دونوں اگر فلسطین کی تاریخ سے واقف ہوتے تو ایسی بیوقوفی کبھی نہ کرتے جو رسوا ہوکر واپس لینی پڑے۔
غزہ کی تاریخ ویسے تو پانچ ہزار سال پرانی ہے مگر ماضی قریب کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 1949 سے لے کر اب تک یہ ننھا سا علاقہ تقریباً 15 مرتبہ میدانِ جنگ میں نبرد آزمائی کر چکا ہے۔ 1950 میں غزہ کے اندر مصر کی عملداری قائم ہوئی ۔ اسی زمانے میں مغربی کنارے کو اردن کی انتظامی حکمرانی میں دیا گیا۔ ارضِ فلسطین کے حریت پسند ہمیشہ اسرائیلی جارحیت سے برسرِ پیکار رہے مگر تحریک آزادی کا باقائدہ اور منظم آغاز 1964 میں اس وقت ہوا جب آزادی کے متوالوں نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) قائم کی اور ایک سال بعدمغربی کنارے میں الفتح نامی سیاسی جماعت کی بنیاد بھی رکھ دی گئی۔ اس تحریک کو ابھی تین سال بھی نہیں گزرے تھے کہ ۵؍ جون 1967 کو اسرائیل اور عرب افواج کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ عربی اتحاد کو۶؍ روزہ جنگ میں شکست دے کر اسرائیل نے غزہ کی پٹی، مغربی کنارے، مشرقی یروشلم، شام میں گولان کی پہاڑیوں اور مصری جزیرہ نما سینائی سمیت باقی ماندہ فلسطین پر قبضہ کر لیا۔
اسرائیل کے اندر منعقد ہونے والے مختلف انتخابات کے موقع پر اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کے لیے نہ صرف بائیں بازو کے انتہا پسندوں نے بلکہ دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں نے بھی غزہ کو تختۂ مشق بنایا ۔ 2008، 2012، 2014 اور 2021 میں اسرائیل نے چار بار جنگ چھیڑ کر غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ۔ ان جنگوں میں ہزاروں فلسطینی شہید ہوئےجن میں زیادہ تر بچے اور خواتین تھے ۔ ان حملوں میں ہزاروں گھر، مدارس اور دفاترا ور عمارتیں تباہ ہوئیں۔ جمہوریت نواز روشن خیال اسرائیل نے اپنے حملوں میں بین الاقوامی سطح پر ممنوعہ ہتھیارمثلاً فاسفورس گیس تک کا استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا ۔ حالیہ جنگ کو بھی نیتن یاہو کے اقتدار کو بچانے کی خاطر طول دیا گیا ۔ اس دوران حماس نے اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کیا اور جب ٹرمپ کی قیادت میں دسمبر 2017 کے اندرامریکہ نے یروشلم کو اسرائیل کادارالحکومت تسلیم کرکے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے وہاں منتقل کرنے کا اعلان کیاتو فلسطینیوں احتجاج شروع کردیا۔
2018 میں غزہ اور اسرائیلی سرحد پر مظاہرین نے پتھراؤ اور پٹرول بم پھینکےتو اس کے جواب اسرائیلی فوجی کارروائی کرنے لگا ۔اسی سال نومبر میں اسرائیل نے غزہ میں خفیہ حملہ کرکے ۸؍فلسطینی عسکریت پسند وں کو شہید کیا تو جواب میں اسرائیل کا بھی ایک سینئر فوجی اہلکار واصلِ جہنم کردیا گیا ۔ اس کے بعد جب اسرائیل پر حماس نے سینکڑوں راکٹ داغ دیئے تو اس حملے سے صہیونیوں کے ہوش اڑگئے۔ اسرائیل نے مئی 2021 تک کسی طرح خود کو قابو میں رکھا مگر پھر مسجد اقصیٰ پر چھاپہ مارا تو اس کے جواب میں بھی حماس نے پھر سے احتجاجاً ہزاروں راکٹ داغ کر یہ پیغام دیا کہ اب یہ جنگ یکطرفہ نہیں ہوگی ۔ حماس اب اسرائیل کے خلاف محض مدافعت میں نہیں بلکہ اقدامی پوزیشن میں آگئی ہے ۔ 22 مارچ سے 8 اپریل 2022 کے درمیان فلسطینیوں کی طرف سے اسرائیل میں کیے گئے حملوں میں 14؍ اسرائیلی ہلاک ہوئے۔اس کے جواب میں اسرائیل نے مغربی ساحل پر "بریک دی ویو” نامی فوجی آپریشن کے تحت 2022 میں 146 فلسطینی شہید کیے۔
سات اکتوبر 2023 کے حملے کو اس تاریخی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی کہا تھا کہ یہ حملہ خلاء میں نہیں ہوا ہے۔ پہلے تو حماس کی جانب سے میزائل آکر اسرائیلیوں کو بنکر میں چھپنے پر مجبور کرتے تھے مگر اس بار مجاہدین نے اسرائیل میں داخل ہوکر ایک فوجی چھاونی کو نشانہ بنایا ۔ اس مزاحمت میں کم از کم 1,139 اسرائیلی ہلاک ہوئے اور 251 کو یرغمال بنا لیا گیا ۔ حماس کے اس جرأتمندانہ اقدام اسرائیل سمیت اس کے سارے حلیفوں کو حیران کردیا اور ان لوگوں نے مل جل کر پندرہ ماہ تک ایسی تباہی مچائی کہ اب غزہ کی تعمیر نو میں تقریباً 15 سال لگیں گے۔ اس جنگ بندی کے دوران غیر معمولی استقامت کا مظاہرہ کرنے والے لاکھوں فلسطینی جب شمالی غزہ میں اپنے تباہ شدہ گھروں کو واپس ہو رہے تھے تو اچانک امریکی صدر دونلڈ ٹرمپ نے ان مظلوم مگر حوصلہ مند فلسطینیوں کے جبری نقل مکانی کا شرمناک بیان دے دیا لیکن اب یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اگر فلسطینیوں کے اس تابناک ماضی سے واقف ہوتے تو یہ احمقانہ تجویز پیش نہیں کرتے جس نے انہیں امریکہ سمیت دنیا بھر میں ذلیل و رسوا کردیا ۔ فلسطینیوں کی حالیہ تاریخ فیض کےان ا شعار کی مصداق ہے؎
یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ اُن کی رسم نئی ہے، نہ اپنی ریت نئی
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ اُن کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
Like this:
Like Loading...